میری دلی خواہش ہے کہ عمران خان کامیاب ہوں۔ یہ دعا بھی ہے کہ اُن کی حکومت معیشت اور گورننس کو بہتر کر کے ملک کو بحران سے نکالے، لیکن ایک حقیقت پسند شخص کی حیثیت سے اگر یہ سوچا جائے کہ عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو کیا ہو گا تو بڑے ہی دلچسپ اور فکر انگیز مناظر سامنے آتے ہیں۔
اگر عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو گا کہ ہمارے پاس کوئی متبادل پارٹی ایسی نہیں ہو گی جو فوراً اقتدار سنبھال کر ملک کو آگے لے جا سکے۔ پیپلز پارٹی زخم خوردہ، نیب زدہ اور اسیرِ مقدمات ہے۔ پنجاب میں اُس کی جڑیں نہیں ہیں، اِس لئے پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالنا، اُس کے لئے بھی کافی مشکل ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے اصلی سربراہ یعنی سابق وزیراعظم نواز شریف شدید بیمار ہیں، اُن کی سزائیں معاف ہو جائیں اور اُنہیں دوبارہ اقتدار ملے بھی تو وہ اُس صحت کے ساتھ اِسے چلا نہیں پائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے متبادل کے طور پر میاں شہباز شریف کو کھڑا کر رکھا ہے مگر اُن پر مقدمات کی بھرمار اور اُن کے خاندان کے خلاف مہم کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ وہ عمران خان کی طرح اِنہی طاقتوں سے اقتدار لے لیں گے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ حال ہی میں کوئی ایسی دراڑ آئی ہے جس سے شہباز شریف کے معاملات جو کافی حد تک طے لگتے تھے، بکھر کر رہ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے اِس دراڑ کا باعث صرف عمران خان ہوں مگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ کارنامہ صرف عمران خان اکیلے انجام نہیں دے سکتے، چھپے پردوں میں کوئی اور بھی ہے۔ اِس ساری بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پورے ملکی منظر نامے میں اِس وقت نہ تو کوئی متبادل سیاسی جماعت ہے اور نہ کوئی لیڈر، جو فوراً اقتدار سنبھال کر ملک کی کشتی کو آگے لے جا سکے۔
عمران خان پڑھی لکھی مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کی امیدوں کا مرکز ہیں، اگر وہ کامیاب نہ ہوئے تو مڈل کلاس کا نئے پاکستان کا خواب چکنا چور ہو کر رہ جائے گا۔ کارپوریٹ کلاس جس جدید اور شفاف پاکستان کی تعمیر چاہتی تھی، وہ تعمیر نہ ہوا تو ان کا ملک ِپاکستان پر سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔ دنیا بھر کی مڈل کلاس اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے جدوجہد کرتی ہے اور پرانے برسرِ اقتدار طبقوں کی جگہ لینا چاہتی ہے، عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو یہ اُبھرتی ہوئی مڈل کلاس ایک بار پھر سے لاتعلقی اور بیگانگی کا شکار ہو کر سیاست سے الگ ہو جائے گی۔
پاکستان دنیا کے تمام ممالک میں یوتھ کی بہت بڑی اکثریت کی وجہ سے نمایاں ہے، نوجوان جو معاشی حالت میں بہتری، روزگار اور کاروبار کے بہترین مواقع حاصل کرنے کے لئے تحریک انصاف کے حامی بنے تھے، اُن کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ماضی کی جماعتیں ہیں، اِس لئے اُنہیں مستقبل کی جماعت کا ساتھ دینا چاہئے۔ اگر عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو یہ نوجوان کدھر جائیں گے، مایوسی کے اندھیروں میں گِھر کر کوئی منشیات کی پناہ لے گا تو کوئی جرم کی طرف بڑھے گا۔
پاکستان تحریک انصاف جمہوریت اور سیاست کے لئے خوش خبری کی طرح تھی، کئی دہائیوں سے دو پارٹی سیاست کے گھمن گھیر میں پھنس کر ہم آگے نہیں جا رہے تھے بلکہ رک گئے تھے۔ تحریک انصاف ایک نئے نعرے اور عزم کے ساتھ آئی تھی اور اُس نے پرانے دو پارٹی سسٹم کو توڑ کر اپنی راہ ہموار کی، اگر عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو ہم دہائیوں کی سیاسی جدوجہد کے بعد پھر صفر پر پہنچ جائیں گے، یعنی 1977ء میں جس پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو شکست کا آغاز ہوا تھا، 40سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوں گے۔
اور پھر ہمارے اوور سیز بھائی اور بہنیں، جنہوں نے بڑے چاؤ اور بڑے جذبے سے عمران خان کی حمایت کی، چندے دیئے اور اپنے رشتہ داروں کو قائل کیا اور بالآخر عمران کو لا کر رہے، فرض کریں اگر عمران خان کامیاب نہ ہوا تو اُن پر کیا گزرے گی، وہ تو عمران خان کے ذریعے راتوں رات پاکستان کو یورپ یا امریکہ بنانا چاہتے تھے، ان کے دل پر کیا گزرے گی، وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ جائیں گے، وہ کبھی ملک سے شکوہ کناں ہوں گے اور کبھی عوام سے۔ یوں کئی دہائیوں کے بعد ملک کو اوور سیز کی شکل میں جو اثاثہ ملا تھا، وہ استعمال میں لائے بغیر ہی ضائع ہو جائے گا۔
تاریخ میں شاید پہلی بار ہمارے ادارے اور عمران حکومت ایک صفحے پر ہیں، وگرنہ اُنہیں سیاسی حکمرانوں کی نااہلی اور غداری پر ناراضی رہتی تھی، اگر عمران خان کامیاب نہ ہوا تو پھر ہمارے بڑے بھائی پر بھی سوال اٹھیں گے کہ اُس نے کیوں باقی متبادل بلڈوز کئے اور کیوں ساری طاقت و توانائی عمران خان کے پلڑے میں ڈال دی؟ اِس بڑے بھائی کے پاس عمران خان کی ناکامی کے بعد نہ (ن) لیگ کی آپشن ہو گی اور نہ پیپلز پارٹی کی۔ اُس وقت تک یا تو پی ٹی آئی کے اندر ہی سے متبادل قیادت سامنے لانا پڑے گی یا پھر کوئی نئی سیاسی قوت یا کوئی نیا سیاسی لیڈر حالات سے بغاوت کر کے سامنے آ کھڑا ہو گا۔
غرضیکہ اِسی میں سب کا بھلا ہے کہ عمران حکومت کامیاب ہو، نہ اپوزیشن، نہ عسکری بھائی اور نہ کوئی اور عمران خان کی ناکامی چاہتا ہے۔
دوبارہ سے کہتا ہوں کہ میری دلی دعا ہے کہ عمران خان کامیاب ہو، یہ خواہش اِس لئے بھی ہے کہ عمران خان ناکام ہوئے تو اُس کی حمایت کرنے والے بڑے بڑے ناموں، طرم خانوں اور بڑے بھائیوں سے اُن کی صلاحیت، اُن کے انتخاب کے معیار اور اُن کی غلطیوں اور خامیوں پر سوال ہوں گے کہ بغیر، سوچے سمجھے سب متبادل قیادتوں کو بلڈوز کرنا کیا درست فیصلہ تھا؟ کیا ہم نے جس طرح اکبر بگٹی کو قتل کر کے بلوچستان میں آگ لگا دی، عمران خان ناکام ہوئے تو پنجاب میں سیاسی انتشار پھیلے گا؟ پی ٹی آئی کئی دہائیوں کے بعد ایک پاپولر جماعت بنی تھی، اُس کے ورکر اور لیڈر دونوں تربیت یافتہ نہیں ہیں، اُن کے رویے غیر سیاسی، غیر جمہوری اور منتقمانہ ہیں، مگر پھر بھی وہ غنیمت ہے کہ ڈرائنگ روموں سے باہر نکل کر سیاست کے میدان میں آئے اور ڈھیلے ڈھالے پارٹی اسٹرکچر کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو پی ٹی آئی بکھر جائے گی، چھوٹے چھوٹے گروپس بن جائیں گے، تاریخ میں اُسے ایک ناکام تجربے کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور وہ جو کبھی اِس ملک کا غیر متنازع ہیرو تھا، تاریخ اُس سے ناانصافی کرتے ہوئے اُسے کوڑا دان میں پھینک دے گی۔ اِسی لئے میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ عمران خان کو کامیاب ہونا چاہئے، ہر صورت اور ہر لحاظ سے۔ مگر ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب عمران خان اپنی ذات کے حصار سے نکلیں، انتقام بند کریں اور فلاحی کام کا راستہ اپنائیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ