Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
جمعہ, اکتوبر 3, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • منٹو نے مجید امجد سے خود پر نظم لکھوا کر کیوں مسترد کی ؟ :کوچہ و بازار سے / ڈاکٹر انوار احمد کا کالم
  • جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری منسوخی سے متعلق کراچی یونیورسٹی کا فیصلہ معطل
  • زکریا یونیورسٹی : ڈاکٹر احسان ، ڈاکٹر شازیہ سکینڈل وزیر اعلی مریم نواز کے لیے ٹیسٹ کیس
  • شعریت اور تخلیقیت :مہدی لغاری کے ناول کو کیسے مختلف بناتی ہے ؟ ۔۔ڈاکٹر انوار احمد کا کتاب کالم
  • عشق آباد سے اشک آباد ۔۔ ایک چونکا دینے والا ناول : صائمہ نورین بخاری کا کتاب کالم
  • غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیل کا قبضہ، سینیٹر مشاق سمیت سیکڑوں افراد گرفتار
  • ہائیبرڈ نظام کی خوبیاں اور خامیاں : سید مجاہد علی کا تجزیہ
  • پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پرتشدد مظاہرے میں تین پولیس اہلکار ہلاک، 150 زخمی آٹھ کی حالت نازک : وزیرِ اعظم انوار الحق
  • موسمیاتی تبدیلی اور ہم ۔۔آواز دوستو ، کوئی آواز دوستو : ڈاکٹر عباس برمانی کا کالم
  • زکریا یونیورسٹی ہراسانی کیس خانگی جھگڑا نکلا : خاتون پروفیسر سے خفیہ شادی کر رکھی تھی : ڈاکٹر احسان ، طلاق ہو چکی ہے ، خاتون
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»لکھاری»بی بی سی»سہیل وڑائچ کا کالم: مریم جی کی واپسی!
بی بی سی

سہیل وڑائچ کا کالم: مریم جی کی واپسی!

رضی الدین رضیمئی 9, 20190 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
mariam nawaz
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

جب میاں نواز شریف چھ ہفتے کی میڈیکل ضمانت کے بعد پھولوں کے ہار سجائے نعروں کی گونج میں منگل کو رات گئے جیل واپس پہنچے تو ن لیگ میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ ریلی میں شہباز شریف کا بیانیہ کہیں نظر نہ آیا بلکہ شہباز شریف نے الٹا اپنے بیان کے ذریعے نواز بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اپنے لخت جگر حمزہ کو ڈرائیو کرنے پر مامور کیا کہ کوئی کسر نہ رہ جائے۔
یوں فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیل جاتے جاتے جہاں نواز شریف مزاحمتی بیانیے کا جھنڈا پھر سے بلند کر گئے ہیں وہیں اپنے بیانیے کی واحد جانشین مریم کو بھی متحرک کر گئے ہیں۔
سنتے تو یہی آئے تھے کہ سیاست ایک فل ٹائم یا کل وقتی پیشہ ہے، مگر بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز چونکہ عرصہ دراز تک سیاست سے ہٹ کر صرف گھریلو خواتین رہیں اس لیے وہ دونوں سیاست میں آئیں تو اسے جزوقتی پیشہ بنا لیا۔ کلثوم بھی عام دنوں میں سیاست چھوڑ چھاڑ کر گھر تک محدود رہیں، مگر جونہی ’باؤ جی‘ کسی مشکل میں پھنستے تو کلثوم نواز متحرک ہو جاتیں۔ ایسا ہی جزوقتی انداز مریم نواز نے اپنا رکھا ہے۔چھ ہفتے کی میڈیکل ضمانت میں وہ خاموش رہیں: نہ ٹوئٹر پر جارحانہ رنگ نظر آیا اور نہ ہی ان کی میڈیا ٹیم نے سیاسی بیانیہ اٹھایا۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ن لیگ لسّی پی کر دوپہر کا قیلولہ کر رہی ہے۔ اب توقع یہی ہے کہ مریم جی والد صاحب کی خاطر مدارت اور عیادت سے فارغ ہو گئی ہیں اس لیے سیاست کے لیے وقت نکالا کریں گی۔ مریم جی اور نواز شریف کی خاموشی سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ شاید شہباز شریف کا مصالحانہ بیانیہ کام دکھا گیا ہے اور نواز شریف کی ڈھیل اسی کا نتیجہ ہے مگر نواز شریف کی جیل واپسی کا مطلب یہ بھی ہے نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم ہوا۔ شہباز شریف پر بھی دھڑا دھڑ نئے مقدمے بن رہے ہیں ایسے میں مصالحانہ بیانیہ کیسے چل سکتا ہے اسی لیے تو نونی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی جان بوجھ کر اور طے کر کے ’گڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ کھیلتے ہیں اور اپنی اس حکمت عملی سے وہ کئی بڑے بڑے بحرانوں سے نکلے ہیں۔ اس بار بھی وہ اپنی یہی حکمت عملی جاری رکھیں گے کبھی مصالحانہ اور کبھی جارحانہ سیاست جس داؤ کی انہیں ضرورت ہو گی وہ وہی کھیلیں گے۔
جاتی امرا سے کوٹ لکھپت جیل تک ن لیگ کی ریلی تنظیم کا ایک ٹرائل تھا۔ انتخابات کے بعد سے نون کی تنظیموں پر جو سکوت طاری ہے نواز شریف کی جیل واپسی اس کا امتحان تھا۔ اراکین اسمبلی اور پارٹی تنظیمیں دونوں متحرک ہوئیں سچ تو یہ ہے کہ یہ شو نہ تو بےنظیر کے دس اپریل 1986 جیسا تھااور نہ ہی عمران خان کے اکتوبر 2011 مینار پاکستان جیسا مگر بزنس مڈل کلاس کی نمائندہ ن لیگ کے حوالے سے یہ کافی متاثر کن تھا۔ کلف والے سفید اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے والے 100 کلو گرام سے زائد کے بھاری بھر کم بزنس مڈل کلاسیے بیلٹ بکس تک تو بخوشی ووٹ ڈالنے چلے جاتے ہیں لیکن وہ سڑکوں پر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ بزنس مڈل کلاس صرف تبھی گھروں اور دکانوں سے نکلتی ہے جب ان کے بزنس کو شدید خطرہ ہو یا ان کے مذہبی عقائد کو چیلنج ہو۔ 1977 کی تحریک میں کامیاب ہڑتالیں اسی بزنس مڈل کلاس نے کی تھیں اب بھی اس کلاس کی اکثریت نون لیگ کے ساتھ ہے مگر وہ ابھی ہڑتالوں پر آمادہ نہیں۔ تحریک انصاف کی پالیسیوں پر البتہ اس کلاس نے اپنی ذاتی دولت کی گردش اور سرمایہ کاری بند کر دی ہے یا وہ بجٹ میں ٹیکس لگنے پر احتجاج کناں ہوں گے وگرنہ خاموشی سے گھر بیٹھے اچھے وقت کاانتظار کرتے رہیں گے۔مسلم لیگ ن کی حکمت عملی یہی ہے کہ خود تحریک چلانے کی بجائے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب لوگ ٹیکسوں اور مہنگائی سے تنگ آ کر خود باہر نکلیں۔ ایسا مرحلہ آنے پر نون لیگ متحرک ہو کر قائدانہ کردار ادا کرے گی۔ مستقبل کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں دو بڑے نام ہی نمایاں ہیں یعنی بلاول بھٹو اور مریم نواز۔ بلاول بھٹو کل وقتی سیاست کر رہے ہیں جبکہ مریم نواز جزوقتی۔ یہ درست ہے کہ وہ خاتون ہیں، بیٹی ہیں اور مشرقی بیٹی ہونے کے سبب وہ اپنے والد کی بہت ہی وفادار ہیں۔ والد کو ضرورت ہو تو وہ سب سے آگے آ جاتی ہیں وگرنہ والد کی خاطر خدمت میں لگی رہتی ہیں۔ مگراس انداز سیاست کو ہمیشہ چلانا ممکن نہیں اب انھیں کل وقتی سیاستدان بننا ہو گا۔ صرف والد بچاؤ مہم میں ان کی سرگرمی پر مخالف پہلے بھی تنقید کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ سیاست ہمہ وقت کام ہے جو کسی بھی مصلحت اور رو رعایت کے بغیر جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ والد بیمار ہیں تو آپ متحرک ہیں والد گھر آ گئے تو آپ نے سیاست سے وقفہ لے لیا اور پھر والد پر کوئی مشکل آئی تو پھر باہر نکل آئیں۔ سیاست میں مریم کا مستقبل تبھی بنے گا جب ان کا مستقل کردار ہو گا۔ سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ ایوب خان دور میں بھٹو جیل سے باہر نکلے تو کہا نصرت بھٹو اور اصغر خان دونوں گھر بیٹھو میں باہر آ گیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ کل وقتی سیاستدان بھٹو جیل سے آ گیا ہے اب جزوقتی نصرت بھٹو اور اصغر خان گھر جا کر بیٹھ جائیں۔ مریم بھی جزوقتی رہیں تو ان سے کل حمزہ یہی مطالبہ کر دے گا۔ اگر وہ واقعی سیاست کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو غائب ہونے والے وقفے بند کر دیں اور کل وقتی سیاست کریں۔ باقی رہ گیا حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز کا تقابل تو صاف بات ہے کہ بیانیے کی جنگ میں مریم کا جارحانہ رویہ انھیں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ حمزہ سالہا سال سے گورننس اور عملی سیاست کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ اس لیے ان کا تجربہ کافی ہو گیا ہے تاریخ کیا کروٹ لے گی اس کا قیافہ لگانا مشکل ہے لیکن ن لیگ کو مسقبل قریب میں اسٹیبلشمنٹ کی قربت ملنا مشکل ہے البتہ ایک بڑے مخالف کے طور پر ضرور ان سے معاملہ ہو سکتا ہے۔ مریم کی سیاست میں کامیابی ان کے جارحانہ بیانیے میں مضمر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مستقبل کے لیے کتنی تیاری کر رہی ہیں۔ کیا وہ بھی وقت آنے پر تحریک انصاف کی طرف نوآموز ثابت ہوں گی۔ کیا وہ پہلے سے اپنی ٹیم بنائیں گی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا ایجنڈا تیار کریں گی یا پھر صرف خالی نعروں سے ہی تبدیلی لانے کی کوشش کریں گی۔ جولائی تا دسمبر 2019 کا عرصہ ن لیگ کے لیے کافی اہم ہے۔ اسے ہر صورت شہروں میں احتجاج برپا کرنا پڑے گا وگرنہ ان کا ووٹ بینک مایوس ہو کر اِدھر ادھر بکھر سکتا ہے۔ احتجاج شروع ہوئے تو نون لیگ کا ووٹ بینک پھر سے مستحکم ہو جائے گا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

شہباز شریف مریم نواز نواز شریف
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleرویت ہلال کا معاملہ عوام پر چھوڑ دیں ۔۔ حسنین رضوی
Next Article ایسی عید کسی اور کو نصیب نہیں۔۔رضا علی عابدی
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

ہائیبرڈ نظام کی خوبیاں اور خامیاں : سید مجاہد علی کا تجزیہ

اکتوبر 2, 2025

وزیر اعظم شہباز نے ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دے دیا : فیلڈ مارشل کے ہمراہ ملاقات

ستمبر 26, 2025

سیلاب متاثرین کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 10ہزار سےکچھ نہیں بنےگا، مریم نواز

ستمبر 25, 2025

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • منٹو نے مجید امجد سے خود پر نظم لکھوا کر کیوں مسترد کی ؟ :کوچہ و بازار سے / ڈاکٹر انوار احمد کا کالم اکتوبر 3, 2025
  • جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری منسوخی سے متعلق کراچی یونیورسٹی کا فیصلہ معطل اکتوبر 3, 2025
  • زکریا یونیورسٹی : ڈاکٹر احسان ، ڈاکٹر شازیہ سکینڈل وزیر اعلی مریم نواز کے لیے ٹیسٹ کیس اکتوبر 3, 2025
  • شعریت اور تخلیقیت :مہدی لغاری کے ناول کو کیسے مختلف بناتی ہے ؟ ۔۔ڈاکٹر انوار احمد کا کتاب کالم اکتوبر 3, 2025
  • عشق آباد سے اشک آباد ۔۔ ایک چونکا دینے والا ناول : صائمہ نورین بخاری کا کتاب کالم اکتوبر 2, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.