میرے سامنے علم کی گتھلی پڑی ہے ،جس میں بے شمار خزانے بھر ے پڑے ہیں، جن کی چمک سے میری آنکھیں اوندھے جارہی ہے،اس کا وزن بڑے سے بڑے شہنشا ہوں،بادشاہوں کے مال ومتاع سے ہزار ہا زیادہ معلوم ہوتاہے۔ میری ہمت نہیں بندھ رہی کہ میں اس کو کھولوں،کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگرمیں اسے کھولتا ہوں تواس خزانے کے جلووں سے میرے حواس گم ہو سکتے ہیں، یہ خزانہ مجھے چند روزقبل میری نہایت پیاری بہن مریم شاہین نے اپنی شفقت سے مجھے بھجوایا ہے، جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں اور گلہ گار بھی ۔یہ شکرگزار ہونا تو سمجھ میں آتا ہے ،البتہ گلہ کار کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ میں جس چیز کا وزن نہیں اٹھا سکتا، اس کا اثر کیسے اٹھاو ں گابلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس سرسید احمدخان نمبر کے اثرات صدیوں پر محیط ہونگے۔مریم شاہین صاحبہ نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر یہ جو کاوش کی ہے ہر سمجھ دار انسان اسے رشک بھری نظروں سے دیکھے گا۔ میرے سامنے علم کی گتھلی پڑی ہے ،جس میں بے شمار خزانے بھر ے پڑے ہیں، جن کی چمک سے میری آنکھیں اوندھے جارہی ہے،اس کا وزن بڑے سے بڑے شہنشا ہوں،بادشاہوں کے مال ومتاع سے ہزار ہا زیادہ معلوم ہوتاہے۔ میری ہمت نہیں بندھ رہی کہ میں اس کو کھولوں،کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگرمیں اسے کھولتا ہوں تواس خزانے کے جلووں سے میرے حواس گم ہو سکتے ہیں، یہ خزانہ مجھے چند روزقبل میری نہایت پیاری بہن مریم شاہین نے اپنی شفقت سے مجھے بھجوایا ہے، جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں اور گلہ گار بھی ۔یہ شکرگزار ہونا تو سمجھ میں آتا ہے ،البتہ گلہ کار کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ میں جس چیز کا وزن نہیں اٹھا سکتا، اس کا اثر کیسے اٹھاو ں گابلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس سرسید احمدخان نمبر کے اثرات صدیوں پر محیط ہونگے۔مریم شاہین صاحبہ نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر یہ جو کاوش کی ہے ہر سمجھ دار انسان اسے رشک بھری نظروں سے دیکھے گا۔ عمومی طور پر ہم ہوائی کام کرنے کے عادی ہیں یعنی جو سمینار ،کانفرنس،ورکشاپ و دیگر اس نوعیت کے پروگرام منعقد کرواتے ہیں اس کے حاصل بحث کو ٹھوس صورت میں مرتب نہیں کرپاتے ،سو ایسا کرنے سے تمام تر کار روائی ہوا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری زیادہ تر کاوشیں رنگ نہیں لاتیں ۔تاہم جو چیز رنگ لائی ہے وہ ہے سرسیداحمد خان کا نمبرجو”ماہ نو“ جریدے کا خصوصی نمبر ہے ۔اس کام پر میری طرف سے تمام ٹیم کو تہہ دل سے مبارک باد ۔کام کرنے والوں کے لئے یہ کام ایک مثالی درجہ کا حامل ہے، جو نیت میں خلوص کو ظاہر کرتاہے اورمن حیث القوم ہمارے اندر آج بھی جو تابنائی موجود ہے اسی کی یہ ایک زندہ مثال ہے اس کام پر ماہ و سال صرف ہوئے ہونگے، مجھے آج بھی اپنے حال پر فخرہے کہ ہمارے تمام بڑے لکھنے والوں کی قلم سے سرسیداحمد خان کی زندگی پر کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ لکھا گیا ہے،یہ دانشور، مفکرین ،کالم نگار، محقق، اساتذہ جنہوں نے اس کار خیر میں حصہ لیا۔ وہ واقعی آج کے دور کا تارہ ہیں جن کے چمک سے آج کے نوجوان کا سینہ روشن رہے گا۔اگر ہم یہ کہیں کہ اس کاوش نے سرسید احمد خان کی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرلیاتو یہ نا انصافی ہوگی۔مگر ہم یہ تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ اس کوشش کے ذریعے اس ہیروکی زندگی کا ایک اہم حصہ کاایک بہت اہم حصہ پیش کیا گیا ہے۔جس سے سرسید احمد خان کی زندگی اور ان کے کام سے متعلق فہم حاصل کرناآسان ہوگیا ہے، یہی اس کاوش کا مقصد ہے، سو میری دعا ہے ۔اللہ اس کاوش کو قبولیت کے درجات عطا فرمائے۔ میری نظرمیں سرسید احمد خان کی صورت میں برصغیر میں ایک سپہ سالا ر کو جس دور میں بھیجا گیا،اس دور کے مسائل عام نہ تھے، بڑے گمبیھر حالات تھے۔ ان خطرناک مناظر میں سرسید احمد خان ان مسائل کے سامنے اینٹ کا جواب پتھر تھے۔ جس کا اثر واضح دیکھا گیا بلکہ آج تک ظاہر ہورہا ہے۔ جہاں تک ہمارے نامور راہنما سرسید احمد خان کی شخصیت کا تعلق ہے تو میری نظرمیں یہ شخصیت مسلمانوں کے لئے نہایت ثمر آور تھی اور رہے گی،کیونکہ ان کی ادوار میں ایک ریت عام تھی کہ لوگ مشکلات کوبڑھاوا دے کر اپنی ا ہمیت منوانے کے خوب جتن کرتے تھے،تو سرسید احمد خان اس لابی کاحصہ تو بڑی آسانی سے بن سکتے اور ذاتی طور پر انگریزوں سے بے پناہ فوائد حاصل کرسکتے تھے،مگر انھوں نے سستی شہرت پانے کی بجائے مسلمانوں کے درد پر مرہم رکھنے کو ترجیح دی، اپنے دور کے نوجوانوں کی توجہ ان اقدار کی طرف دلائی جوآگے بڑھنے کے لئے، ترقی کرنے کے لئے لازم تھی۔جن پرعمل پیرا ہو کر اس دور کا ہر طبقہ مستفید ہوا اور مسلمانوں کو ان کی شخصیت اورکاوش سے براہ راست استفادہ ہوا۔آج کے دورمیں ہم ایک مرتبہ پھر بے شمار ایسی مشکلات کا شکار ہیں جوسرسید احمدخان کے دور کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں لہذا ان کا حل ان کی تعلیمات میں ڈھونڈ نے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ آزمودہ ہیں اور موجودہ دور میں بھی اپنے اندر اتنی ہی روشن ہے جتنی پہلے تھیں۔میرے خیال میں اسی نقطہ نظر کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ماہ نو جریدے والوں نے سرسیداحمدخان کا ایک نمبر جاری کیا ہے جس میں دور حاضر کے بییسوں مستند لکھنے والوں کی تحریر یں شامل ہیں اور مجھے قوی یقین ہے کہ پڑھنے والوں کے لئے ترقی کرنے نسخہ ثابت ہوگا جس کی ہمیں آج ضرورت ہے۔
فیس بک کمینٹ