پاکستان پیپلز پارٹی نے آج دیگر پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال توسیع کرنے پر اتفاق رائے کرلیاہے۔ اس سے قبل پارٹی نے دیگر جماعتوں کی طرف سے اس سوال پر معاہدہ ہونے کے باوجود کہا تھا کہ وہ آئینی ترمیم کے مسودہ کی حمایت نہیں کرے گی۔ اس ماہ کے شروع میں اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پیپلز پارٹی نے اگرچہ فوجی عدالتوں میں توسیع کو اصولی طور پر مسترد نہیں کیا تھا لیکن کہا تھا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے تجاویز نئی آئینی ترمیم میں شامل کی جائیں۔ اس حوالے سے پارٹی نے 9 مطالبات کئے تھے جن میں اہم ترین یہ تھا کہ یہ توسیع ایک سال کے لئے ہو اور دہشت گردوں کے خلاف جو مقدمات فوجی عدالت میں چلیں ان کی سماعت سیشن جج کی عدالت میں بھی ہو تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ ملزم کو انصاف فراہم کیا گیا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی اب ان دونوں مطالبات سے دستبردار ہو گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر اعتزاز احسن نے آج پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس کے بعد دعویٰ کیا کہ حکومت نے ان کے نو میں سے چار مطالبات مان لئے ہیں۔ تاہم وہ یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہے کہ ان میں کون سے مطالبات شامل تھے۔ پارٹی دو برس کے لئے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر راضی ہو گئی ہے ۔ یہ وہی تجویز ہے جس پر اس ماہ کے شروع میں باقی پارلیمانی ہارٹیوں نے اتفاق کیا تھا۔ پارٹی نے سیشن کورٹ میں بیک وقت سماعت کا مطالبہ بھی واپس لے لیا ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان کے سول کریمنل لا کی شقات کا اطلاق آرمی ایکٹ مجریہ 1952 کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں پر نہیں ہوتا۔ اس فیصلہ کی روشنی میں پیپلز پارٹی کی تجویز ناقابل عمل بھی ہو چکی تھی۔ ملک میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتیں اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت جنوری 2015 میں قائم ہوئی تھیں۔ حکومت اگرچہ قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کرسکی لیکن ملک کے غیر معمولی حالات کا بہانہ بناکر فوجی عدالتوں کے غیر معمولی اقدام کے لئے سیاسی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ملک میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی جگہ آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا ہے۔ لیکن فوجی عدالتوں کے لئے فوج کا دباؤ برقرار رہا ہے۔ فوجی عدالتوں کو مقدمات بھیجنے کا فیصلہ اگرچہ صوبائی حکومتیں کرتی ہیں لیکن فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے سنگین مجرموں کے خلاف مقدمات کی سماعت تیزی سے کی جاتی ہے تاکہ فوری فیصلہ کے ذریعے دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ان عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے ملزموں کو اپنی صفائی پیش کرنے اور عائد الزامات کی تفصیلات تک جاننے کا موقع نہیں ملتا۔ ملک میں منتخب حکومت کے دور میں فوجی عدالتوں کے قیام پر متعدد قانون دان اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اختلاف کا سامنا کرتی رہی ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف تفتیش کے طریقوں کو بہتر بنانے اور استغاثہ کو مقدمہ کی تیاری کے لئے زیادہ سہولتیں اور وسائل فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ سول عدالتوں میں خطرناک ملزموں کے خلاف مقدموں کی سماعت کے لئے قوانین میں ترمیم اور ججوں کے تحفظ کے لئے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ تاہم حکومت اس بارے میں انتظامی اقدامات اور فوجی عدالتوں کا آسان راستہ اختیار کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوناچاہتی ہے۔ یہ طریقہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ اسی لئے پیپلز پارٹی نے ان عدالتوں کی توسیع کی تجویز کی مخالفت کی تھی لیکن وہ اس مخالفت پر قائم نہیں رہ سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے سامنے زیادہ دیر تک کھڑا رہنے کا حوصلہ نہیں کرتیں ۔ ہر پارٹی فوج کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا چاہتی ہے کیوں کہ یہ باور کرلیا گیا ہے کہ ملک میں برسر اقتدار آنے کے لئے فوج کی بعض شرائط کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ