انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے فعال کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرنے والی پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہر مظلوم کی آواز پر ’قاضی الحاجات‘ بن کر موقع پر پہنچنے کا اعلان کرنے والے چیف جسٹس نے قصور کی سات سالہ زینب کےقتل کیس کے بارے میں گمراہ کن اور جھوٹی خبریں نشر کرنے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام پر تین ماہ کی پابندی عائد کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سو موٹو کے تحت کارروائی کا آغاز کیا تھا اور سماعت کے آغاز میں ہی ملک کے اہم ترین صحافیوں اور اینکر پرسنز کو طلب کرکے ان سے اس معاملہ میں رائے طلب کی تھی۔ البتہ اب عدالت نے شاہد مسعود کی فراہم کردہ معلومات غلط ثابت ہوجانے اور بر وقت معافی نہ مانگنے پر ان کا پروگرام تین ماہ کے لئے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد ملک میں آزادی رائے اور صحافت اور صحافی کی خودمختاری کے حوالے سے سنگین سوالات سامنے آئے ہیں۔ ان میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا اب سپریم کورٹ ہر جھوٹی اور غلط خبر کی تحقیقات کا فریضہ بھی سرانجام دے گی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرح غلط خبر فراہم کرنے والے ہر صحافی اور اینکر کوطلب کرکے اسے سزا دی جائے گی۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ سب کو مساوی انصاف فراہم کرنے کے اصول کے تحت دیکھا جائے تو سپریم کورٹ اگر ملک میں دن رات غلط خبریں عام کرنے والے تمام صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی یا اس کے پاس یہ کام کرنے کی گنجائش نہیں ہے تو کیا ایک اینکر کو کئی ہفتے تک مطعون کرنے اور بعد میں اس کا پروگرام بند کرنے کی سزا دینے کو کس اصول انصاف کے تحت درست کہا جاسکتا ہے۔ انصاف تو سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ اگر ملک کے درجنوں ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر اور سینکڑوں اخباروں میں بے بنیاد یا ناقص خبریں نشر یا شائع کرنے والے صحافی یا مالکان سپریم کورٹ کے ’قہر‘ سے محفوظ ہیں اور چیف جسٹس کی ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ نہیں بنتے تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج کس بنیاد پر ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا ہے کہ’ انہوں نے اپنے پروگرام میں چیف جسٹس کو پکارا تھا، تو قاضی آگیا۔ قاضی ہر مظلوم کی آواز پر پہنچے گا‘۔ سپریم کورٹ کے سربراہ کی طرف سے خود کو قاضی الحاجات بنانے اور ثابت کرنے کی یہ کوشش آئین کی کون سی شق کے تحت درست اور جائز کہی جا سکتی ہے۔ اگر سب معاملات چیف جسٹس کو ہی دیکھنے ہیں تو ملک میں دیگر اداروں کے قیام کی کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔ اس وقت عدالت عظمی جس عدالتی کلچر کو فروغ دے رہی ہے اس کی روشنی میں تو یہ محسوس ہو تا ہے کہ ہر صبح ہر محکمہ کے اعلیٰ افسران اور وزیر دست بستہ ججوں کے سامنے حاضر ہوں اور اپنی کوتاہیوں پر بینچ میں شامل قانون کا جبہ پہنے ججوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنیں۔ اس کے بعد وہ اگلے روز کے لئے ہر جج کی خوشی اور خواہش کے مطابق معلومات لے کر حاضر ہونے کی تیاری کریں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کو سزا دے کر یہ اصول بھی طے کیا گیا ہے کہ اب ملک کے اینکر اور صحافی بھی اس فہرست میں شامل کرلئے گئے ہیں جو سپریم کورٹ کی ’ہٹ لسٹ‘ پر ہیں۔
یہ صورت حال ملک میں زبوں حالی اور متعدد قسم کے دباؤ کا شکار صحافت کے لئے نہایت تشویشناک ہے۔ اس پیشہ سے وابستہ لوگ پہلے ہی حکومتی اداروں، ایجنسیوں ، دہشت گرد گروہوں کے علاوہ مالکان کے کمرشل مفادات کے اسیر ہیں۔ ان سب مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اگر کوئی صحافی یا اینکر کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے جو معلومات کی فراہمی اور رائے عامہ کی تشکیل میں کردار ادا کرسکتا ہے تو اب اسے یہ کام کرتے ہوئے سو مرتبہ سوچنا پڑے گا کہ کہیں اس کا کوئی لفظ کسی اعلیٰ عدالت کے مزاج نازک پر گراں نہ گزرے۔ یہ طریقہ کسی بھی صحافی کے لئے پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دینے کے لئے سنگین قدغن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کے صحافیوں اور ان کی نمائیندہ تنظیموں کو اس بارے میں واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسرے سرکاری ادارے کی طرح ملک کی عدالتوں کو بھی صحافیوں کے پیشہ ورانہ امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام بند کرکے ایک فرد کو سزا نہیں دی بلکہ یہ اصول طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ سپریم کورٹ ہر اس پروگرام کو بند کرسکتی ہے جو اس کے خیال میں ’مفاد عامہ‘ کے مطابق کام نہیں کرتا۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے دست بستہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طریقہ کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کسی عدالت کو رپورٹنگ کرنے کے طریقہ اور پیش کش کے بارے میں رائے دینے یا اسے نامناسب سمجھتے ہوئے بند کرنے کا حق حاصل نہیں ہو نا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی صحافی کسی قسم کی قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے زاتی حیثیت میں سزا دی جاسکتی ہے۔ کسی پروگرام کو بند کرنے سے ایک طرف ایک صحافی یا اینکر کو اس کے ’روزگار‘ سے محروم کیا گیا ہے تو دوسری طرف یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ جو مواد کسی عدالت کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں ہوگا، اسے نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ کہنا بے حد ضروری ہے کہ جھوٹی اور غلط خبروں کی ترسیل کو روکنا سب سے پہلے کسی بھی میڈیا ادارے کے نیوز ایڈیٹر کا کام ہے۔ اس کے بعد صحافی تنظیموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے رجحان کا نوٹس لیں اور متعلقہ پروگرام یا خبر کو مسترد کرنے کے لئے ایسا میکنزم اختیار کریں کہ آئیندہ دیگر ادارے اور صحافی ایسی غلطی کرنے کا حوصلہ نہ کریں۔ اگر عدالتیں خبروں کی چھان پھٹک کرنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے لگیں گی اور سرکاری اداروں اور افسروں کے ذریعے خبروں کی تصدیق کا کام لیا جائے گا تو اس سے ایک ایسے پیشہ میں عدالتی مداخلت کی افسوسناک روایت کا آغاز ہوگا جو آزادی اظہار اور صحافی کی خود مختاری کے لئے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ یہ طریقہ کار کسی بھی جمہوری نظام میں بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔
اس سارے معاملہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹنگ ملک میں منفی صحافیانہ رجحان کے باعث دیکھنے میں آتی ہے۔ کیوں کہ مختلف میڈیا ہاؤسز اور اینکرز اپنی مقبولیت کو بڑھانے اور پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ کے لئے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں اور حساس موضوعات پر بے بنیاد یا قیاس پر مبنی خبروں کو ’باخبر ذرائع‘ سے حاصل ہونے والی معلومات کے طور پر پیش کرکے سنسی خیزی اور ہیجان پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اس کی روک تھام نہ تو پیمرا یا اس قسم کے سرکاری اداروں کے ذریعے پروگرام بند کرکے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی عدالتوں کی مدخلت سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ملک کے دیگر سب اداروں کی طرح صحافیوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور خود احتسابی کا مؤثر اور قابل عمل نظام استوار کرنا ہوگا۔ صحافیوں اور ان کے نمائیندوں کی کمزوریوں اور بے عملی کی وجہ سے ہی پیمرا جیسا بیوروکریٹک ادارہ الیکٹرانک میڈیا کا نگران بنا ہؤا ہے اور عدالتیں اینکرز کی گوشمالی کرنے کا قصد کررہی ہیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف مقدمہ کی کارروائی کے آغاز میں سپریم کورٹ نے ملک کے نامور صحافیوں اور اینکز کو ایک دن کے نوٹس پر لاہور میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس طلبی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ ان لوگو ں کو عدالتی معاون کا درجہ بھی نہیں دیاگیا تھا لیکن کسی بھی صحافی نے سپریم کورٹ کے اس غیر ضروری نوٹس کو مسترد کرنا یا چیلنج کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ نہ ہی اس موقع پر عدالت میں طول طویل تقریر کرنے والے پاکستان کے صف اوّل کے صحافیوں نے عدالت کو ایک اینکر اور پروگرام کے خلاف کارروائی سے باز رہنے کی تلقین کرنے کی کوشش کی ۔ بلکہ ڈاکٹڑ شاہد مسعود سے ضرور یہ کہا گیا کہ وہ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو معافی اس وقت نہیں مانگی وہ منگل کو عدالتی کارروائی کے دوران ہاتھ باندھ کر مانگتے رہے اور بعد میں عدالت کے حکم پر غیر مشروط تحریری معافی نامہ بھی جمع کروادیا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر ڈاکٹر شاہد مسعود سے بات چیت کرتے ہوئے ایک اسکول ماسٹر کی طرح کی ان کی سرزنش کی اور کہا کہ وہ ان کے دل کا حال جانتے ہیں۔ دل کا حال جان کر فیصلہ کرنے والے چیف جسٹس کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ تین ماہ کی پابندی کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود جب اسکرین پر دوبارہ جلوہ افروز ہوں گے تو کیا وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں گے اور آئیندہ جھوٹی یا بے بنیاد خبر سنانے سے گریز کریں گے۔ خاطر جمع رکھی جائے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس جیسے المناک سانحہ کی وجہ سے اس حوالے سے بولے گئے جھوٹ کا نوٹس لیا تھا لیکن ملک کی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں ایسے جھوٹ دن رات بولے اور بلوائے جاتے ہیں لیکن کوئی جبیں شکن آلود نہیں ہوتی۔
شاہد مسعود کو دی گئی سزا ایک صحافی کو دی گئی ہے۔ بہتر ہوتا کہ عدالت شاہد مسعود کو قانون شکنی کی صورت میں ذاتی حیثیت میں مورد الزام ٹھہراتی۔ اس فیصلہ سے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی صحافی غلط خبر دے گا تو اسے کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔ کیا اس تناظر میں یہ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک جج غلط فیصلہ دے گا تو کیا اسے بھی کچھ عرصہ کے لئے جج کے طور پر کام کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلہ ملکی صحافت اور عدالتی تاریخ میں ایک بری نظیر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ