ملک کے صدر اور آرمی چیف کے کاندھوں پر دہشت گردوں کے ہاتھوں ملک پر قربان ہو جانے والے فوجی شہدا کے جنازے ہیں لیکن حکومتی ترجمان اور تحریک انصاف کے لیڈر اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کون شہدا کے خلاف مہم جوئی کر رہا ہے اور کون ان کا نام بیچنے کے درپے ہے۔ سیاسی چپقلش اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مل جل کر مشکلات میں سے راستہ نکالنے کی کوشش تو ایک طرف، فریقین ایک دوسرے کو قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔
یوں تو شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت میں کئی پارٹیاں شامل ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اہم ترین پوزیشن حاصل ہے کیوں کہ یہ پارٹی اگر وفاقی اتحاد سے نکل جائے تو شہباز شریف کا وزیر اعظم رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ البتہ پیپلز پارٹی نے ایک طرف قوم پرستی کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود حکومتی ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کی ہے تو دوسری طرف اسی حکومت کی ’تائید و حمایت‘ کرنے کے عوض صدارت سمیت اہم آئینی عہدے اور دو صوبوں کی حکومت حاصل کر کے اپنے سیاسی قد سے زیادہ حصہ بھی وصول کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ہی کے جیالے اب یہ دعویٰ کر نے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں کہ سیاسی شطرنج کے اس کھیل میں ’زرداری سب پر بھاری‘ ثابت ہوا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ دکھا کر عہدے، مراعات، رتبہ اور شان و شوکت بھی وصول کرلی اور مشکل معاشی فیصلوں، انتخابی دھاندلی کے الزامات اور وفاقی حکومت کی ناکامیوں کی ذمہ داری سے بھی دامن بچا لیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف شہباز شریف کی کابینہ کے ارکان کسی بھی قیمت پر تحریک انصاف کو بے اعتبار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کوئی بیان داغ کر سیاسی فضا کو مکدر کیا جاتا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف پے در پے غلط سیاسی فیصلوں کے بعد کبھی اپنی توپیں شہباز حکومت کی طرف کرتی ہے اور کبھی اس کے لیڈر ایک دوسرے سے ہی دست و گریبان دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ اس طوفان میں سے راستہ نکالنے کے لئے میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ موجودہ انتظام چند ماہ سے زیادہ چلنے والا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی بنیادی مشکل تو عمران خان اور دیگر اعلیٰ لیڈروں کی مسلسل حراست کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس میں جیل میں عمران خان سے ملنے والا ہر شخص خود کو ان کا اصلی ترجمان بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ باقی اس کی ٹانگ کھینچ کر اپنا اعتبار قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کی مشکل تو اس سے بھی سوا تر ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ جاتی عمرہ میں بیٹھے حساب لگا رہے ہیں کہ اس سارے فسانے میں ان کے ہاتھ میں کیا آیا۔ بیٹی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ضرور مل گئی لیکن کیا مریم نواز موجودہ پیچیدہ اور دشوار حالات میں نواز شریف کی سیاسی میراث کو سنبھال پائیں گی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر پنجاب میں انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں لا سکیں گی۔ اسلام آباد میں ان کے وہی چچا شہباز شریف وزیر اعظم ہیں جن کی قیادت میں احتجاجی جلوس لاہور شہر کی گلیوں میں ہی گھومتا رہ گیا تھا۔ 13 جولائی 2018 کو نواز شریف اور مریم نواز، کلثوم نواز کو لندن کے ایک ہسپتال میں بستر مرگ پر چھوڑ کر اس امید پر ملک واپس آئے تھے کہ جمہوریت کے خلاف ہونے والی ’سازش‘ کے خلاف جدوجہد کی قیادت کریں گے۔ شہباز شریف کی ’دور اندیشی‘ کی بنا پر دونوں باپ بیٹی کو جیل جانا پڑا اور اسی ماہ کے آخر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہوئی اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ شہباز شریف نے البتہ نومبر 2019 میں نواز شریف کو بیماری کے نام پر ملک سے باہر لے جاکر یہ ضرور ثابت کر دیا کہ وہ جیسی بھی سیاست کریں، بھائی کے وفادار رہیں گے۔
اسی وفاداری کا انعام لینے کے لیے انہیں مزید اڑھائی برس انتظار کرنا پڑا اور اپریل 2022 میں جب عمران خان کی حکومت پے در پے ناکامیوں اور فوج کے ساتھ اختلافات کے چنگل میں گرفتار تھی تو اسے انتخابات کی طرف دھکیلنے کی بجائے عدم اعتماد کے ذریعے احتجاج کے میدان میں پہنچا دیا گیا۔ اور خود وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال کر اپنے تئیں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کارنامہ انجام دینے لگے۔ اقتدار کی اسی چاہ کی وجہ سے 8 فروری کے انتخاب میں مسلم لیگ کی سیاسی پوزیشن تباہ ہوئی۔ عمران خان کی احتجاجی مہم جوئی کے نتیجے میں تحریک انصاف غیر متوقع طور پر ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اور مسلم لیگ (ن) کو حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو سیاست کا جوکر ماننا پڑا کہ وہ جس طرف فٹ ہو جائے، بازی اسی کے ہاتھ لگے۔ عمران خان اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے اس صورت حال کا فائدہ نہیں اٹھا سکے اور پیپلز پارٹی کو سیاسی بونس وصول کرنے کے لیے شہباز شریف کو وزیر اعظم ماننا پڑا۔
اس تگ و دو میں یہ تو معلوم نہیں کہ ملک کا مفاد کہاں تھا لیکن شہباز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کے لئے اتاولے ضرور تھے۔ یہاں تک کہ گزشتہ سال اکتوبر میں وزارت عظمی کی امید پر لندن سے لاہور پہنچنے والے نواز شریف کو بھی قومی اسمبلی کی نشست اور پنجاب میں مریم نواز کی وزارت اعلیٰ پر اکتفا کرنا پڑا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ لاہور کی نشست سے نواز شریف کو ’زور زبردستی‘ سے جتوایا گیا تھا۔ سیاسی ماحول میں پرسکون ماحول کے نام پر یہ نشست شاید تحریک انصاف کو واپس کرنا پڑے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا امکان کم ہے کہ نواز شریف کسی ضمنی انتخاب میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ’ذلت‘ اٹھانے کی بجائے وہ جاتی عمرہ میں خاموش زندگی گزارنے یا لندن میں پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت بتانا زیادہ مناسب خیال کریں گے۔ نواز شریف کو اگر لاہور میں ان کی نشست سے محروم ہونا پڑا تو اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوگی کہ مریم نواز پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ سکیں گی۔
یہ سمجھنا آسان نہیں ہے کہ سیاسی بساط کے اس کھیل میں کون کس طرف ہے۔ لیکن یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کون جیت رہا ہے اور کس مہرے کو مسلسل پسپا ہونا پڑا ہے۔ نواز شریف کسی حد تک مسلم لیگ (ن) کا جمہوری چہرہ تھے۔ شہباز شریف البتہ گزشتہ جمعہ کو کابینہ کے ارکان سمیت جی ایچ کیو میں حاضری لگوا کر اس چہرے کو مسخ کرنے کا مکمل اہتمام کر آئے ہیں۔ شہباز شریف جیسے لیڈر کے پاس کوئی ویژن یا سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا، وہ احکامات ماننے والا کارندہ ہوتا ہے۔ اس حد تک شہباز شریف نے اپنے آقاؤں کا انتخاب کر لیا ہے۔ سوال چونکہ ملک کو معاشی مسائل سے باہر نکالنے کا ہے، اس لیے نواز شریف خاموش رہیں گے اور مسلم لیگ (ن) نئے حالات میں 80 اور 90 کی دہائی کی ڈگر پر واپس آ جائے گی۔ اس وقت شہباز شریف کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے کہ پانچ سال بعد کیا حالات ہوں گے اور ان کا سامنا کیسے کیا جائے گا۔
اگر انتخابات کی شفافیت پر پڑنے والے سایوں کے وجود سے انکار کر بھی دیا جائے اور مان لیا جائے کہ دریں حالات 8 فروری کے انتخابات مناسب حد تک منصفانہ تھے۔ اور جو بے قاعدگیاں دیکھنے میں آئی ہیں، ان کا ازالہ عدالتوں کے ذریعے ہو جائے گا تو بھی وفاقی کابینہ کی تشکیل سے سیاست پر سیاست دانوں کی دسترس کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوٹ چکا ہے۔ پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ کو وزیر داخلہ اور غیر ملکی شہریت والے ایک بینکر کو پاکستانی بنا کر وزارت خزانہ سونپنے کا عمل کسی سیاسی دماغ کی اختراع نہیں ہو سکتا ۔ اب ان دونوں بزرجمہروں کو مسلم لیگ (ن) اپنے دیرینہ وفاداروں کی قربانی دے کر سینیٹر منتخب کروائے گی تاکہ ان کی وزارتیں ’پکی‘ رہیں۔ اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو ہی ہو گا جو مکمل وفاداری کے اقرار نامہ کے ذریعے ملک کے مسیحا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملک میں حکمرانی کی سیاست کو جو منظر اس وقت دکھائی دیتا ہے، اس میں شہباز شریف کی سربراہی میں ایسی ٹیم معاشی استحکام لانے کی کوشش کرے گی جو وزیر اعظم کو جواب دہ ہونے کے باوجود اس کے تابع فرمان نہیں ہوگی۔ معاشی بحالی کے لیے چونکہ امن و امان کی صورت حال بہتر کرنا ضروری خیال کیا جا رہا ہے لہذا وزیر داخلہ کے منصب پر محسن نقوی کو فائز کر دیا گیا ہے تاکہ وہ سیاسی نتائج سے لاپروا ہو کر شور مچانے والوں کا منہ بند کرسکیں۔ شہباز شریف کے خیال میں یہ انتظام وزیر اعظم کے پروٹوکول کے عوض کوئی مہنگا نہیں ہے۔ ان کے تو ہر طرح پوبارہ ہیں۔ البتہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کہ کیا یہ انتظام کامیاب ہو سکے گا۔ موجودہ حکومت کی زندگی کا دار و مدار اسی سوال کے درست جواب پر ہے۔
استعجاب کرنا چاہیے 8 فروری کے انتخاب میں ایک دوسرے کے مدمقابل دو ہیوی ویٹ لیڈر اس وقت ایک سے سیاسی چیلنج اور المیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان جیل میں قید ہیں اور اپنی حراست کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں اور دھاندلی اور نا انصافی کا شور مچا کر مسلسل اپنی پارٹی کی مقبولیت اور اپنے سیاسی جواز میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس منصوبے میں انہیں اپنے ہی ہرکاروں کے ہاتھوں کہیں کہیں ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے لیکن مقبولیت کا پرجوش سیلاب بہر حال انہیں اونچا اٹھائے رکھنے کی سکت رکھتا ہے۔ نواز شریف اپنی سیاست کا پنڈارا لیے جاتی عمرہ میں فروکش ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنے ہی بھائی کے منہ زور سیاسی عزائم کے سامنے وہ کیسے اپنی ’عوام دوست سیاست‘ کا چراغ روشن کریں گے۔ کیا پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز مریم نواز، پسپائی کے اس سفر میں اپنے باپ کا ہاتھ تھام کر انہیں سرخرو کروانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
جوں جوں ان سوالوں کے جواب سامنے آئیں گے، سیاسی مطلع صاف ہونے لگے گا۔ اس دوران میں البتہ دہشت گردوں کی منہ زوری کا یہ عالم ہے کہ وہ فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانے میں کوئی غلطی نہیں کرتے۔ مملکت پاکستان کا صدر اور طاقت ور مسلح افواج کا سربراہ شہیدوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے، مادر وطن پر قربان ہونے والے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے سوا کچھ کرنے کے قابل دکھائی نہیں دیتے۔
(بشکریہ :کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ