امریکہ کے سابق صدر اور نومبر کے انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کے امید وار ڈونلڈٹرمپ کو نیویارک کی ایک بارہ رکنی جیوری نے متفقہ طور سے جعل سازی اور حقائق چھپانے کے 34 الزامات میں مجرم قرار دیا ہے۔ امریکی نظام انصاف کے مطابق اگر جیوری اتفاق رائے سے کسی نتیجہ پر نہ پہنچتی تو ٹرمپ کے خلاف یہ مقدمہ خارج ہوجاتا۔ تاہم اس فیصلہ سے ٹرمپ کی سیاست ختم نہیں ہوئی کیوں کہ امریکی آئین میں کسی مجرم کے صدر بننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ اس فیصلہ کو اپنے خلاف ناانصافی کے طور ر پیش کرتے ہوئے عوام سے اپیل کریں کہ انہیں ووٹ دے کر کامیاب کروایا جائے تاکہ وہ اس ’ناانصافی‘ کا خاتمہ کرسکیں۔ رائے عامہ کے بعض جائیزوں میں یہ اشارہ سامنے آیا تھا کہ اگر نیویارک کی جیوری نے ٹرمپ کو چند یا سب الزامات میں قصور وار قرار دیا تو ری پبلیکن پارٹی کے متوازن رائے رکھنے والے ووٹر انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ اس طرح صدر بائیڈن کے ساتھ صدارتی مقابلہ میں ٹرمپ کی پویشن کمزور ہوگی۔ تاہم دوسری طرف اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں اور فیصلہ کے بعد ٹرمپ نے جس جارحانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ قیاس کرلینے میں بھی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ ایسے امریکی ووٹروں کو گھروں سے نکل کر ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرسکتے ہیں جو کسی حد تک انہیں ‘مسیحا ‘ سمجھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ 2020 کا انتخاب ان سے چھینا گیا تھا۔ ورنہ جوبائیڈن حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ یہی طبقہ ان کا سب سے بڑا حامی ہے اور نیویارک کی جیوری کے فیصلے کے بعد ٹرمپ خود کو ’مظلوم‘ ثابت کرکے ووٹروں کی زیاہ سے زیادہ ہمدردیاں حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اسی لیے انہوں نے مجرم قرار دیے جانے کے بعد عدالت سے باہر نکل کر واضح کیا کہ ’اصل فیصلہ نومبر کے انتخابات میں ہوگا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016 کی انتخابی مہم میں پورن اسٹار سٹورمی ڈینئیلز کو باہمی جنسی تعلقات کے بارے میں زبان بند رکھنے پر ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دینے اور اس ادائیگی کو دستاویزات میں ہیر پھیر کے ذریعے چھپانے کے الزامات کا سامنا تھا۔ واضح رہے ان پر جنسی تعلقات قائم کرنے یا اپنی سابقہ ’دوست‘ کو رقم دینے کے الزام نہیں تھا بلکہ استغاثہ کا مقدمہ یہ تھا کہ ٹرمپ نے ایک تو ایک ایسی معلومات عام ہونے سے روکیں جن سے انتخابی نتائج متاثر ہوسکتے تھے۔ دووسرے اس ادائیگی کو چھپانے کے لیے دستاویزت میں جعل سازی کی گئی۔ ان الزامات کو 34 نکات کی صورت میں جیوری کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس میں سے ہر نکتہ پر جیوری کے سب ارکان کا متفق ہونا ضروری تھا۔ بصورت دیگر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ خارج ہوجاتا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اگر جیوری ان چونتیس میں سے چند نکات پر بھی ٹرمپ کو قصور وار سمجھتی ہے تو ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ تاہم جیوری نے انہیں تمام الزامات میں قصور وار پایا اور اس طرح استغاثہ کو مکمل کامیابی حاصل ہوئی لیکن اسے ٹرمپ کی شکست مان لینا قبل از وقت ہے۔
ایک تو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکلا نے اعلان کیاہے کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل کریں گے۔ ایسی کسی اپیل کا فیصلہ نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے متوقع نہیں ہے۔ اپیل کی نوبت اسی وقت آئے گی جب اس مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج جؤان مرچن قصور وار ٹھہرائے جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا سنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ عدالت نے اس مقصد کے لیے 11 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ اس روز ٹرمپ کی سزا کا فیصلہ ہوگا۔ یا ضعیف العمری اور مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونے کی رعایت دیتے ہوئے انہیں محض جرمانہ عائد کرکے رہا کردیا جائے۔ البتہ جیوری کی طرف سے مجرم قرار پانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ ’اعزاز ‘ بہر صورت حاصل ہوگیا ہے کہ وہ پہلے سابق صدر بن گئے ہیں جن پر کوئی جرم ثابت ہوگیا۔ اگر وہ نومبر میں صدر بائیڈن کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ایک مجرم کے طور پر انتخاب جیتنے والے پہلے صدر بھی بن جائیں گے۔
ٹرمپ کے خلاف آنے والے فیصلہ کے امریکی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ اگر ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو اس کے عالمی منظر نامہ پر بھی سنجیدہ اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ ٹرمپ روس اور یوکرین جنگ میں امریکہ کو فریق نہیں بنائیں گے ۔ امریکی امداد ختم ہونے پر یوکرین، روسی فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں بھی ٹرمپ صدر کے طور پر شدت پسندانہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کو مزید امداد فراہم کونے کا عزم کریں گے۔ ان کے دور میں فلسطینیوں کے لئے علیحدہ ریاست کا مؤقف کمزور پڑے گا اور غزہ کے شہریوں کی بے مثال قربانی رائیگاں جاسکتی ہے۔ ٹرمپ اسرائیلی توسیع پسندی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ فلسطینیوں کے حقوق کو عرب ممالک کے تعاون سے نظر انداز کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ایک بار پھر صدر بننے کے بعد غزہ جیسے المیہ کے حوالے سے ٹرمپ حکومت کیسے توازن قائم کرتی ہے۔ لیکن جیسا کہ جانا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مصالحت کی بجائے خود بھی انتہاپسندانہ مزاج کے حامل ہیں اور شدت پسندی پر مبنی فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی صدارت میں امریکہ ، اسرائیل پر کسی بھی قسم کا اخلاقی دباؤ ڈالنے والے بیانات بھی دینے سے گریز کرے گا۔ ایک پالولسٹ لیڈر کے طور پر ٹرمپ کو اپنے فیصلوں کے منفی یا مثبت اثرات کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے خلاف نیویارک عدالت میں چلنے والے مقدمہ کے دوران اور بعد میں بھی انہوں نے خود کوئی غلطی ماننے کی بجائے عدالتی نظام کو نقائص سے بھرپور قرار دیا جس میں بیٹھے ہوئے متعصب جج اور استغاثہ انہیں سیاسی مقبولیت کی سزا دینا چاہتا تھا۔ مجرم قرار پانے کے بعد بھی انہوں نے کسی شرمندگی کا اظہا رکرنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں جیوری کے فیصلہ کو مسترد کیا حالانکہ جیوری ارکان تو عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں فریقین کی مشاورت سے عام شہریوں میں سے چنا جاتا ہے۔ کارروائی کے بعد عدالت سے باہر آکر ٹرمپ کا کہنا تھا عدالتی کارروائی ’فکسڈ ٹرائل‘ تھا اور یہ ایک ’شرمناک‘ عمل تھا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور ’وہ آخری دم تک لڑیں گے‘۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور انہوں نے ’کچھ غلط نہیں کیا‘۔ خود کو ’ایک سیاسی قیدی‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے حامیوں سے درخواست کی کہ وہ دوبارہ صدر بننے میں ان کی مدد کریں۔
ٹرمپ اس فیصلہ کو اپنی مقبولیت قائم رکھنے اور اس میں اضافہ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی خواہش ہوگی کہ کسی بھی طرح اس جرم کو ٹرمپ کی مقبولیت کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ٹرمپ اور ان کی سیاست کے حوالے سے اس وقت امریکہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ بائیڈن کی کمپین کا کہنا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ امریکی جمہوریت کے لیے حقیقی خطرہ ہیں‘۔ مہم کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ نیویارک کی جیوری کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں کوئی بھی قانون سے بالا نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ غلط طور پر یہ سمجھتے رہے کہ وہ قانون توڑنے کے نتائج سے بچے رہیں گے۔ آج سنایا جانے والا فیصلہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا کہ امریکیوں کو ایک سادہ سچائی کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ ڈانلڈ ٹرمپ کو اوول آفس سے باہر رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہےاور وہ ہے ان کا ووٹ۔
ادھر ٹرمپ مہم نے ایک بیان میں الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کی کارروائی منصفانہ نہیں ہو سکی۔ یہ تحقیر کی بات ہے۔ یہ ایک متنازع جج کا دھاندلی زدہ مقدمہ تھا۔ ٹرمپ نے خود اسے شرمناک واقعہ کہا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن اسپیکر مائیک جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ آج امریکی تاریخ کا ایک شرمناک دن ہے۔ یہ قطعی سیاسی معاملہ ہے نہ کہ قانونی۔ البتہ کانگریس کے ڈیموکریٹک ارکان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے امریکہ کے عدالتی نظام کی قوت کو ثابت کیا ہے۔
بیشتر یورپی و امریکی حلیف ممالک نے اس معاملے میں تبصرہ نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے تاہم روس نے کہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر ڈونلڈ ٹرمپ سے سیاسی طور سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہے یہ وہی مؤقف ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے آج کے فیصلہ کے بعد ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں خود کو ’سیاسی قیدی ‘ کہا تھا۔ حالانکہ انہیں ابھی تک جیل نہیں بھیجا گیا۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے بھی ایکس پر ایک بیان میں ٹرمپ کی حمایت کی اور کہا کہ ٹرمپ ایک باوقار انسان ہیں، صدر کے طور پر انہوں نے ہمیشہ امریکہ کو ترجیح دی۔ واضح رہے کہ ’امریکہ سب سے پہلے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی سلوگن رہا ہے۔ ہنگرین لیڈر نے ٹرمپ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ہار نہیں ماننی چاہئے۔ اصل فیصلہ نومبر میں ہوگا۔
اٹلی کے ڈپٹی وزیر اعظم میتیو سالوینی نے بھی ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے انہیں نظام انصاف کا شکار قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ میں بائیں بازو کے عناصر نے عدالتی طریقے سے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ برطانیہ اور جاپان کی حکومتوں نے اس فیصلہ پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
ٹرمپ کے خلاف جرم ثابت ہونے کے باوجود اس سوال پر امریکہ اور دنیا کے متعدد ممالک میں رائے عامہ تقسیم ہے کہ انہیں کس حد تک فئیر ٹرائل کا موقع ملا۔ ایک تصدیق شدہ مجرم کی حیثیت میں ٹرمپ اگر صدر منتخب ہوگئے تو یہ قانون و آئین کی ناکامی ہوگی۔ امریکی آئین اگر کسی مجرم کا انتخابی راستہ روکنے میں ناکام ہے تو یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ کیا آئین موجودہ شکل میں جمہوریت کی حفاظت کا ضامن بن سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ٹرمپ ملکی نظام انصاف کو چیلنج کرتے ہوئے اس کی شفافیت کے بارے میں شبہات پیدا کرتے رہیں گے۔
ایک نارویجئین اخبار وے گے کے تبصرہ نگار پیر اولاو اودے گورڈ نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ’ٹرمپ اس فیصلہ کو امریکیوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ اس طرح یہ انتخابی مہم بیان بازی میں سازشی نظریات کی ماں ثابت ہوگی‘۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )