گیٹ پہ رکشا رکا۔ ہم اترے، سامان اتارا گیا اور ہم نے ادھر ادھر نظر اٹھا کر دیکھا۔ گیٹ کھلا ہوا تھا۔ باوردی چوکیدار ایک طرف کھڑا تھا اور چاروں طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں۔ رنگ، خوشبو، آوازیں، قہقہے، پرمسرت چہرے۔
ہمیں لگا اقبال نے انہیں دیکھ کر ہی وہ مشہور عالم شعر کہا ہو گا۔ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیراہن۔
ہم نے فوراً اپنی طرف نگاہ کی۔ کانسی رنگ جو پہن کر چلے تھے کہیں نہیں تھا۔ راہ کے گردوغبار نے کپڑوں کو ایک ملگجے روپ میں ڈھال دیا تھا۔ ہائے ہائے یہ سب کیا سمجھیں گی، کون ہے اتنی گندی سندی لڑکی؟
بھائی پہلے کوئی باتھ روم ڈھونڈتے ہیں۔
پہلے تو اس سامان کا کچھ سوچ لیں۔
بھائی نے جھنجھلاتے ہوئے سوٹ کیس اور بیگ کو دیکھ کر کہا۔
ان دنوں سامان میں لوگ بم لے کر تو گھوما نہیں کرتے تھے سو چوکیدار مان گیا کہ ہم گیٹ کے ساتھ بنی دیوار کے ایک کونے میں اپنا سامان رکھ سکتے ہیں۔
چوکیدار سے ہی ہم نے باتھ روم کا پوچھا۔ پتہ چلا کہ آفس کے قریب ہی کچھ ہو سکے گا۔
خیر جناب ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ کر آفس پہنچے جہاں ڈھیروں لڑکیاں اور ان کے ساتھ آنے والے کھڑے تھے۔ وہیں ایک باتھ روم میں گھس کر ہم نے بال سنوارے اور منہ ہاتھ دھویا۔ شاید کچھ بہتر دکھنا شروع ہوئے ہوں کہ آئینہ نہ باتھ روم میں تھا نہ پرس میں۔
کافی لڑکیوں کی بات چیت سے اندازہ ہوا کہ وہ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتی تھیں۔ لاہور سے ایف ایس سی کرنے کا یہ فائدہ تو تھا انہیں۔
ہمارے قریب دو تین لڑکیاں کھڑی تھیں ایک گوری چٹی، بوائے کٹ بال اور خوبصورت سرخ پرنٹ کا جوڑا۔ ساتھ میں رعب دار سے ابا۔ پتہ چلا کہ پشاور سے آئی ہیں، ابا ایئرفورس میں ہیں۔ یہ عائشہ بٹ تھیں۔ عائشہ بہت ہنس مکھ تھی، بات بات میں کوئی نہ کوئی چٹکلا چھوڑ دیتی اور ہم ہنس دیتے۔
دوسری دبلی پتلی، لمبے بال، متانت اور سنجیدگی ساتھ میں ایک بزرگ۔ یہ فرزانہ تھیں جو جہلم سے آئی تھیں۔ ابا اللہ کو پیارے ہو چکے تھے سو اپنے نانا ابا کے ساتھ تھیں۔
تیسری کا قد ہمارے لئے رشک کا باعث تھا۔ ہم ٹھگنے لوگوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور لمبا قد ہماری دکھتی رگ تھا۔ یہ عاصمہ تھیں جو امریکہ سے پڑھنے آئیں تھیں۔ لیں جناب۔ کھڑے کھڑے کافی لوگوں سے تعارف ہوا اور حدود اربعہ بھی جان لیا۔
ہم دل ہی دل میں کچھ ناراض سے تھے اپنے آپ سے۔ ہم جنہیں پہننے اوڑھنے کا اس عمر میں بھی انتہائی شوق تھا اور چوائس بھی اچھی تھی، اپنی زندگی کے اس اہم دن میلے کچیلے حلیے میں پائے جا رہے تھے۔ خیر ہمارا ازلی کانفیڈنس ہمارے ساتھ تھا۔
اب خیال آتا ہے کہ لاہور میں ہمارے کافی رشتے دار رہتے تھے۔ ہم نے وہاں جا کر تیار ہونے کا کیوں نہیں سوچا؟ شاید ہم اور بھائی دونوں ہی کم عمر تھے سو پلاننگ والی حس ابھی کمزور تھی۔
تین چار کلرک اپنی اپنی میز پر بیٹھے ایڈمیشن لیٹر دیکھتے، سامنے پڑی لسٹس سے میچ کرتے، رول نمبر اور بیچ الاٹ کرتے، کالج کارڈ کے لیے تصویر لیتے، فیس جمع کرنے کے متعلق بتاتے، ہوسٹل کے بارے میں معلومات دیتے۔ اپنی باری پہ ہر کوئی اس عمل سے گزرتا۔
لیجیے جناب ہمیں الاٹ ہوا رول نمبر پچھتر، بیچ بی۔ فرزانہ کو ملا رول نمبر تہتر، عاصمہ کو بہتر اور عائشہ کو رول نمبر چونسٹھ۔
کالج کی پورے سال کی فیس جمع کروانی تھی اور وہ تھی پانچ ہزار روپے۔ ہوسٹل کی فیس بھی اتنی ہی تھی۔
بھائی نے فیسیں جمع کروائیں، رسیدیں لیں۔ لیجیے جناب ہم باقاعدہ طریقے سے میڈیکل کالج میں داخل ہو چکے تھے۔ کلاسیں اگلے دن سے شروع ہونی تھیں۔ اگلے دن؟ کہاں رہیں گے ہم؟
جب ان خیالات کا اظہار اونچی آواز میں کیا تو فرزانہ کے نانا نے بتایا کہ وہ ابھی ہوسٹل دیکھنے جا رہے ہیں اور وہیں فرزانہ کو چھوڑ کر واپس جائیں گے۔ یہ سن کر ہمیں خیال آیا ایک سے دو بھلے اور ہم بھی ان کے ساتھ ہوسٹل تک چل دیے۔
ہوسٹل قریب ہی وارث روڈ پہ تھا۔ دس منٹ میں ہی پہنچ گئے۔ گیٹ سے داخل ہوئے، سامنے گھنے درختوں کے بیچوں بیچ بنی سڑک ایک تین منزلہ بلڈنگ تک جا رہی تھی۔ یہ بی بلاک تھا۔ بی بلاک پہنچنے پر وارڈن سے ملاقات ہوئی۔ گھریلو نظر آتی سرخ و سفید فربہ سی خاتون، سر پہ چادر اوڑھے، گراؤنڈ فلور پہ بنے اپنے فلیٹ سے باہر آئیں جہاں وہ اپنی بچی اور شوہر کے ساتھ مقیم تھیں۔ فیس پیمنٹ کی رسید دیکھی اور ایک منجی ہمیں اور ایک فرزانہ کو الاٹ کر دی۔
جی۔ آپ کے کان نہیں بج رہے۔ درست سنا آپ نے منجی جسے اردو میں چارپائی کہا جاتا ہے۔
قصہ یہ تھا کہ نئی آنے والیوں کو ہال نما کمروں میں ٹھہرا یا جاتا تھا جہاں پندرہ بیس چارپائیاں لگی ہوتی تھیں۔ جو بھی لڑکی آتی، چارپائی دے دی جاتی۔ اوپر وہ کیا بچھائے یہ وہ جانے اور چارپائی جانے۔
اب قصہ یوں تھا کہ ہمارے پاس تو بستر ہی نہیں تھا جو چارپائی پہ بچھاتے، جس طرح لشتم پشتم پہنچے تھے وہ ہم لکھ چکے ہیں۔ چلو کوئی بات نہیں کسی رشتے دار سے مانگتے ہیں بستر، ہم نے فوراً پلاننگ کر کے خود کو تسلی دی۔ ویسے ابا بھی کہہ چکے تھے کہ وہ اپنے کزن کو ہماری آمد کے بارے میں فون کر دیں گے اور ابتدائی ایک دو دن ہم ان کے گھر ٹھہر سکتے ہیں۔ بھائی نے ہمیں وہاں چھوڑ کر واپس جانا تھا سو سامان ہوسٹل کی منجی کے پاس رکھا، بیچ میں سے ضروری چیزیں نکالیں، ایک دو جوڑے کپڑے لیے اور بھائی کے ساتھ موہنی روڈ روانہ ہو گئے۔
فرزانہ پوری تیاری کے ساتھ آئیں تھیں سو وہ ہوسٹل میں ہی رک گئیں۔ نانا ابا بھی واپس جانے کی تیاری میں تھے۔ لڑکیاں آ رہی تھیں، جا رہی تھیں۔ ڈائننگ روم سے برتن ٹکرانے کی آوازیں آ رہی تھیں جنہیں سن کر ہمارے پیٹ نے ہمیں بتایا کہ ہم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔
کر لیں گے پیٹ پوجا بھی۔ نئی جگہ کو سمجھ تو لیں ذرا۔
(بشکریہ:ہم سب )
فیس بک کمینٹ