سیاست پر بہت کم لکھتا ہوں، چنانچہ بہت کم سیاست دانوں سے میرے تعلقات ہیں، تاہم پرویز رشید اور عرفان صدیقی سے محبت بھرے تعلقات کا فی دیرینہ ہیں اور الحمد للہ ان میں کبھی دراڑ نہیں آئی، پرویز رشید بہت انقلابی ہیں، کسی زمانے میں لیفٹ کی تنظیموں سے وابستہ بھی رہے ہیں، پھر انہوں نے محسوس کیا کہ نواز شریف اگرچہ سکہ بند انقلابی نہیں مگر وہ ملک کے ان حالات میں ایسی تبدیلی لا سکتے ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے ہاںخوفناک حد تک سماجی اور معاشی اونچ نیچ پائی جاتی ہے، بائیں بازو کی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں معاشرے میں یہ تبدیلی نہیں لا سکتیں، چنانچہ پرویز رشید نے اپنے لئے وہ راستہ پسند کیا جو حسن پیرزادہ نے اختیار کیا تھا۔پیر صاحب بہت بڑے انقلابی تھے ، میں انہیں ٹی ہائوس میں بیٹھے دیکھا کرتا تھا، مگر جانتا نہیں تھا کہ یہ کتنے بڑے آدمی ہیں، انہوں نے مسلم لیگ (ن) غالباً جوائن نہیں کی مگر میاں فیملی سے دیرینہ روابط کی بنا پر ان کے گھر کے فرد کی حیثیت رکھتے تھے، پیر صاحب نے مزدوروں کی فلاح و بہود کیلئے بہت سی تجاویز میاں نواز شریف کو پیش کیں اور ان پر عمل بھی ہوا۔ یہ درویش صفت انسان شادمان لاہور کے قبرستان میں دفن ہے۔ ذکر پرویز رشید کا ہو رہا تھا، انہوں نے پارٹی جوائن کی اور اپنا سب کچھ پارٹی پر قربان کردیا، ان کی اپنی فیکٹری تھی غالباً اپنا گھر بھی تھا، اب دونوں نہیں ہیں صرف یہی نہیں انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق وہ راستہ اختیار کیا جس کیلئے انہیں آگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا وہ بیمار پڑ گئے اس کے بعد پہلے امریکہ گئے وہاں سے یو کے آگئے اور میاں صاحب کی جلاوطنی کا عرصہ انکے ساتھ گزارا، وہ اگر چاہتے تو دوسرے لاکھوں پاکستانیوں کی طرح برطانیہ کی ’’دو شوہریت‘‘ حاصلکرسکتے تھے مگر جب میاں صاحب نے پاکستان واپسی کا ارادہ کیا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر ان کے ساتھ جہاز میں بیٹھ گئے،لاہور یا اسلام آباد ایئر پورٹ پر میاں صاحب کو گرفتار کرلیا گیا، مجھے یاد نہیں کہ پرویز رشید پر کیا گزری۔
بہرحال اسکے بعد سے چند ماہ پہلے تک انکے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا، اب کہیں جا کر انہیں سینیٹر بنایا گیا ہے۔ سینٹ کا اجلاس نہ ہو رہاہو تو وہ زیادہ تر مریم نواز شریف کے ساتھ نظر آتے ہیں، انہیں یقیناً یہ موقع ملتا ہوگا کہ گاہے گاہے اپنا مشورہ چیف منسٹر کے ساتھ شیئر کرتے ہوں، شاید اس لئے کہ وہ اپنے آپ کسی معاملے میں دخل دینے کے قائل نہیں، ان سے پوچھیں تو اپنی رائے دیتے ہیں اور ہاں پرویز رشید نہ اپنے کسی کام آتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے۔ یہ بالکل وکھری ٹائپ کا آدمی ہے، چنانچہ پارٹی میں ان کے نقش قدم پر چلنے والے بہت کم ہیں۔
میرے دوسرے دوست عرفان صدیقی ہیں۔ وہ بلند پایہ شاعر، کالم نگار اور دانشور ہیں ان سے بھی میری نیاز مندی اس وقت سے ہے جب وہ مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار نہیں تھے چنانچہ میں ایک دفعہ اسلام آباد گیا تو انہوں نے اپنی نیک کمائی سے مجھے ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں کھانا کھلایا تھا، اب ایک دفعہ پھر اسلام آباد جاکر انہیں آزمائوں گا۔ میں عرفان صدیقی کا کوئی کالم کبھی مس نہیں کرتا، وہ کم لفظوں میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں، اسی طرح جب مختلف ٹی وی چینلز پر انہیں کسی مسئلے پر اظہار خیال کیلئے بلایا جاتا ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) کا نقطہ نظر بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان لمحوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کئی مشکل مراحل سے بھی آسانی سے گزرجانا دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ ایک دفعہ پولیس ان کے گھر پہنچ گئی اور انہیں اس وقت گرفتار کیا جب قلم ان کے ہاتھوں میں تھا، چنانچہ اخباروں میں شائع شدہ تصویر دیکھی ان کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں ہتھکڑی تھی۔ جو سچے اہل قلم ہوتے ہیں ان کیلئے یہ ہتھکڑی ان کا زیور ہوتی ہے، ایک زمانے میں قلم اور ہتھکڑی ایک ہی پیج پر ہوتے تھے۔
عرفان صدیقی ان دنوں سینیٹر ہیں اور پرویز رشید کی طرح پارٹی کی اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں شریک ہوتے ہیں، سننے میں آیا ہے کہ میاں نواز شریف کی تقریروں کے نکات بھی برادر لکھتے چلے آ رہے ہیں، جب میں الحمرا آرٹس کونسل کا چیئرمین تھا میں نے ایک انٹرنیشنل ادبی کانفرنس میں میاں صاحب سے صدارت کی درخواست کی ، میاں صاحب نے کہا اگر تقریر آپ لکھ کر دیں گے تو آئوں گا، میں نے بیسیوں اوراق پر کچھ الفاظ لکھے اور پھاڑتا چلا گیا کہ میرے لئے کسی کے خیالات لکھنا ممکن نہیں، چنانچہ میں ناکام رہا اور میاں صاحب اس کانفرنس میں نہیں آئے، میں شرط جو پوری نہیں کرسکاتھا۔ مگر ایک اور موقع پر وہ غیر مشروط طور پر آئے اور ادیبوں میں گھُل مل گئے۔ عرفان صدیقی وہی الفاظ لکھتے ہیں جو ان کے دل میں ہوتے ہیں، خواہ وہ فرمائش پر لکھیں یا اس کے بغیر، میں ان دنوں عرفان صدیقی کی شاگردی میں آنے کی سوچ رہا ہوں۔ مجھ میں اور عرفان صدیقی میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم دونوں لیکچرر رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ ان کے شاگردوں میں آج کے جرنیل بھی ہیں اور میرے شاگردوں میں کسی جنرل سٹور میں کام کرنے والے مسکین سے لوگ ،جو جب ملتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ وہ اس مقام تک میری دعاؤں ہی سے پہنچے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) میں ان دو دوستوں کے علاوہ احسن اقبال، خرم دستگیر، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، طلال چودھری، ایاز صادق اور کچھ دوسرے مسلم لیگی سیاست دانوں سے بھی تعلق خاطر ہے، مگر بہت عرصے سے ان کی زیارت نہیں ہوئی تاہم ملنے نہ ملنے سے کیا فرق پڑتا ہے، دل میں جگہ ہونی چاہئے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ