ڈاکٹر عارف علوی کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد طاقت کے سب مراکز پر تحریک انصاف کا قبضہ مکمل ہو چکاہے۔ اس کے ساتھ ہی طاقت کی تکون یعنی فوج، عدلیہ اور جمہور کے ’تعاون‘ کی نادر مثال پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی قوت اور عمران خان کی وزارت عظمی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اصولی طور پر اب ملک میں اصلاح اور ترقی کے لئے کام کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی اختلاف، نہ طاقت کے مراکز کی چومکھی اور نہ ہی بد اعتمادی کی فضا۔ ڈاکٹر علوی کی حلف وفاداری کی تقریب میں ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔ اور وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوگی۔ یہ معاملہ اپنی جگہ پر حیرت و استعجاب کا سبب بنا رہے گا کہ ملک میں جمہوریت کی ضمانت بھی فوج کے سربراہ سے حاصل کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی، سیاست دانوں کی جاں فشانی اور تدبر اس کا ثبوت نہیں بنتے۔ نہ ہی عوام کی خواہش اور کوشش اس سلسلہ میں بارآور ہوتی ہے۔ عوامی حکمرانی کا خواب بھی اسی وقت تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہے جب پاک فوج اس خواب کو پورا ہونے کا موقع دے۔ عمران خان کا وزیر اعظم بننا اور تحریک انصاف کا مرکز کے علاوہ صوبوں اور صدارت پر قبضہ کرنا اسی معجز نمائی کا معمولی سا نمونہ ہے۔
اس کے باوجود اس وقت ملک میں صرف جمہوریت اور بنیادی آزادیوں پر ہی سوالیہ نشان موجود نہیں ہے بلکہ ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان طویل جد و جہد اور واضح اور دوٹوک دعوؤں کے ساتھ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے اطوار اور طرز عمل سے کسی طور یہ نظر نہیں آیا کہ وہ ایک ٹھوس ایجنڈا کے ساتھ اقتدار تک پہنچے ہیں اور اب بلاتکان اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کا آغاز کرچکے ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی تین ہفتے ہی مکمل ہوئے ہیں اور اس مختصر مدت میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع کرنا ناجائز اور بے بنیاد بات ہوگی۔ تاہم کابینہ سازی سے لے کر، پنجاب میں حکومت بنانے اور بلوچستان میں تعاون حاصل کرنے کے اقدامات کسی نئے سیاسی مزاج کا پتہ نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم سے لے کر وزیر خارجہ و وزیر خزانہ کے علاوہ دیگر عمائیدین بہ اصرار یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سابقہ حکمرانوں نے کون سی بے اعتدالیاں کی تھیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی گزشتہ پانچ برس کے دوران یہ کہانیاں اتنی بار سنا چکے ہیں کہ وہ اب بچے بچے کو ازبر ہو چکی ہیں۔ اسی لئے سوشل میڈیا سے لے کر عام مباحث میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کے ذکر کی بجائے سیاست دانوں کی بدعنوانی اور لوٹ مار کے قصے عام ہیں۔ یہ تاثر قوی تر کیا جارہا ہے کہ اگر سابقہ حکمرانوں کو سزائیں دی جائیں اور ان کی لوٹ مار سے حاصل کی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لائی جائے تو ملک کو درپیش معاشی مسائل فوری طور پر حل ہو جائیں گے۔
دنیا کے معتبر ماہرین معیشت اس سیاسی رویہ سے اتفاق نہیں کریں گے۔ کیوں کہ معاشی مسائل حل کرنے کے لئے سابقہ حکمرانوں کو کوسنے کی بجائے نئے مثبت فیصلے کرنے اور ملکی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں البتہ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکمران جماعت جلد ہی جب یہ سمجھنے کے قابل ہوجائے گی کہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں ہے بلکہ اس پر ملکی معاملات چلانے اور درپیش چیلنجز کا جواب تلاش کرنے کی ذمہ داری عائد ہے ۔ اب اسے خود ہی راستہ کھوجنا ہے اور اس پر چلتے ہوئے قوم کو کامرانی کی منازل تک لے کر جانا ہے۔ اسی صورت میں عمران خان اور تحریک انصاف سے کارہائے نمایاں کی توقع کی جاسکے گی۔ جب تک سابقہ حکمرانوں کے خلاف فضا سازگار کرنے کا کام کیا جاتا رہے گا، ملکی مسائل منہ پھاڑے کھڑے رہیں گے ۔ لیکن تادیر عوام کا پیٹ نعروں سے نہیں بھرا جاسکتا۔
حال ہی میں ترکی کے صدر طیب اردآن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک امریکی پادری انڈریو برونسن کی ترکی میں حراست کے سوال پر تنازعہ اور امریکی پابندیوں کے سبب ترک لیرے کی قدر میں خطرناک کمی سے معاشی بحران پیدا ہؤا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ترک نژاد امریکی ماہر معیشت اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں معاشیات کے پروفیسر درون عجم اوگلو نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ترکی کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ملکی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی معیشت پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے ذریعے ہی ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے۔
ترکی کی حکمران پارٹی اے کے پی کے ابتدائی سالوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ 2002 سے 2006 کے دوران اس پارٹی کی مقبولیت کی وجہ سے فوج کی معاملات پر گرفت کمزور ہوئی، شہری آزادیوں کو یقینی بنایا گیا اور چھوٹے سرمایہ داروں کو ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقع نصیب ہؤا۔ حکومت نے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کرتے ہوئے سرکاری معاملات میں بدعنوانی کی روک تھام کی۔ اس طرح ملکی پیدا وار میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ درون اوگلو کا کہنا ہے کہ ترک معیشت میں ترقی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ جسٹس ایند ڈیویلپمنٹ پارٹی کے کسی نابغہ نے کوئی حیرت انگیز پالیسیاں نافذ کردی تھیں۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ معاشرہ میں آزادی عام ہونے ، اداروں کے استحکام اور حکومت کے اخلاص کے سبب معاشی اشاریے پیداوار میں اضافہ کا سبب بنے تھے جو ان برسوں میں ساڑھے سات فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
ترک امریکی ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ جس طرح سیاست دانوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا ، اسی طرح سیاست دانوں ہی کا رویہ ملک میں معاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ ترک لیرے کی قدر میں کمی کو صرف صدر ٹرمپ کے غصیلے ٹویٹ پیغامات یا چند فیصلوں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اس کو وسیع تر پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ترکی میں میڈیا پر پابندی ہے، سیاسی آزادیاں محدود ہیں، عدالتیں مفلوج ہیں اور اختیارات ایک صدر کے ہاتھ میں مرکوز ہو چکے ہیں۔ اب سرمایہ دار ترقی کرنے کے لئے محنت کرنے کی بجائے حکمران اے کے پی کے عہدے داروں سے مراسم استوار کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ مراعات اور سہولتیں حاصل کی جاسکیں۔ اس کے اثرات معاشی انحطاط کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لئے ترکی کو 2000 کی دہائی میں اختیار کی گئی حکمت عملی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ شہری آزادیوں کو یقینی بنایا جائے، میڈیا آزاد ہو، عدالتیں خود مختار ہوں اور لوگوں کو سیاسی خیالات کی وجہ سے ہراساں کرنے کا سلسلہ بند ہوجائے تو سرمایہ دار کا اعتماد واپس آنا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح ملک کا نظام بہتر طور سے میرٹ کی بنیاد پر کام کرسکے گا۔ اس بنیادی تبدیلی کے بغیر معاشی احیا کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
درون عجم اوگلو نے ترک معیشت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے پاکستان میں اقتصادی مشاورتی کمیٹی سے نکالے جانے والے پاکستانی نژاد امریکی پروفیسر عاطف میاں نے انہیں پاکستان کی معاشی اصلاح کے لئے بھی اہم قرار دیا ہے۔ عاطف میاں یوم آزادی کے حوالے سے ایک مضمون میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے قرضے تو لئے لیکن ان کی ادائیگی کے لئے قومی پیداوری صلاحیت میں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عاطف میاں اسی تناظر میں سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کو مہلک سمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس منصوبہ کو ایسی مقدس گائے کا درجہ دے دیا گیا ہے کہ اس کے بارے میں بات کرنے والا مطعون قرار پاتا ہے۔
سی پیک کے بیشتر معاملات خفیہ ہیں اور منصوبوں ، قرضوں ، ان کی شرائط اور پابندیوں کے بارے میں معلومات عام جائزہ کے لئے دستیاب نہیں ہیں۔ چین ان منصوبوں میں سرمایہ کاری تو کررہا ہے لیکن یہ سرمایہ لگاتے ہوئے اس نے ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے چینی کمپنیوں کو استعمال کرنے کی پابندی لگا کر اجارہ داری بھی قائم کی ہے۔ اس طرح بظاہر کم شرح سود پر دئیے جانے والے قرضے بھی مقابلہ بازی نہ ہونے کی وجہ سے نہایت مہنگے ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ چینی کمپنیاں اپنے کام کے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دام وصول کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان منصوبوں سے ملک کی پیدا واری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہو پایا ہے لیکن قرضے 62 ارب ڈالر سے بڑھ کر 90 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ موجودہ حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرح سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتی ہے اور نئی معاشی ترجیحات پر کام کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود ملکی معیشت اور سیاست کے لئے سب سے اہم سی پیک منصوبہ پر نظر ثانی کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد کا دورہ کرنے والے چینی وزیر خارجہ وانگ ای کو یقین دلایا ہے کہ سی پیک ملک کی نئی حکومت کی بھی اولین ترجیح ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ماہرین کا معاشی یا سیاسی تجزیہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح اس منصوبہ کو ملکی معیشت کے لئے لازم و ملزوم سمجھنے پر مجبور ہے۔
پاک فوج کے موجودہ اور سابقہ سربراہ متعدد بار اعلان کرچکے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ پر میرٹ کی بنیاد پر مباحث کی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکی۔ نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ سے دوری اور دیگر معاشی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان اگرچہ سی پیک سے استفادہ کرسکتا ہے لیکن اس منصوبہ کے حوالے سے چین کو حتمی اختیار دینا بھی کسی طرح قومی مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ چین کو پاکستان سے بھی زیادہ سی پیک مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اس کا ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ تشنہ تکمیل رہے گا۔
اقتصادی کونسل سے عاطف میاں کی علیحدگی پر بات کرتے ہوئے یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ سی پیک کے ناقد ہیں اور چینی سرمایہ کاری کے منفی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں کیا انہیں صرف احمدی عقیدہ ہی کی وجہ سے اس کونسل سے نکالا گیا ہے یا درپردہ کچھ دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے۔ عمران خان کی حکومت جب ان مجبوریوں کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کی کوشش کرے گی تب ہی معلوم ہو گا کہ عمران خان کی حکومت معاشی اصلاح کے کسی انقلابی منصوبہ پر عمل کر سکتی ہے یا نہیں ۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ