ممبئی حملوں کی دسویں برسی کے موقع پر امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان حملوں میں ملوث سب عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے ایک بار پھرپاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ان حملوں میں ملوث لوگوں کو سزائیں دینے میں معاونت کرے۔ بھارت اور امریکہ لشکر طیبہ اور اس کے سربراہ حافظ محمد سعید پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
امریکہ نے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں پر نقد انعامات کا اعلان بھی کیا ہؤا ہے تاہم امریکی دباؤ اور بھارتی مطالبے کے باوجود پاکستان حافظ سعید سمیت ان افراد کو عدالتی کٹہرے میں لانے میں کامیاب نہیں ہؤا جو مبینہ طور پر ممبئی حملوں میں ملوث تھے۔ دس برس قبل ہونے والے ان حملوں میں ممبئی شہر چار روز تک دہشت گردوں کے نشانے پر رہا تھا اور ان میں 9 حملہ آوروں سمیت پونے دو سو کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے تھے جن کا تعلق بھارت کے علاوہ متعدد دوسرے ملکوں سے تھا۔ ان حملوں میں مارے جانے والوں میں 6 امریکی شہری بھی شامل تھے۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے آج شمالی وزیرستان کا دورہ کیا اور پاک فوج کے دفتر تعلقات عامہ کے اعلان کے مطابق کہا ہے کہ ’پاکستان مستقبل میں کبھی بھی مسلط کی ہوئی جنگ نہیں لڑے گا‘ ۔ وزیر اعظم نے دہشتگردی کے خلاف پاک فوج کی کامیابیوں کو دہرانے کے علاوہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے بارے میں حکومت کا مؤقف بھی دہرایا ہے۔ امریکہ کے مطالبہ اور وزیر اعظم کے ارشادات میں یوں تو ایک ہی موضوع پر ایک سی بات کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر کام ہونا چاہیے لیکن ان دونوں پیغامات کا مفہوم جداگانہ ہے۔
اس بُعد کو ختم کیے بغیر پاکستان کی سیاسی اور سفارتی مشکلات ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان کو شکوہ رہتا ہے کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف اس کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ کے دوران ہی کراچی اور ضلع اورکزئی میں ہونے والے حملوں کے بعد فوج اور حکومت کو بھی تسلیم کرنا پڑا تھا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم جب امریکہ یا دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے تو اسے پاکستان کی نیت پر شبہ قرار دے کر قومی حمیت کا سوال بنا لیا جاتا ہے۔
اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے آج مسلط کردہ جنگ نہ لڑنے کی جو بات کی ہے وہ بھی پاکستان کے ماضی میں بیان کردہ مؤقف کے برعکس ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کے اپنے تحفظ اور مفاد کی جنگ ہے۔ وہ کسی دوسرے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے اس جد و جہد میں شریک نہیں ہے۔ اس پاکستانی مؤقف کو اگر وزیر اعظم عمران خان کے تازہ بیان کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہو نا چاہیے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ماضی میں پاکستان نے افغانستان میں اتحادی افواج کا سہولت کار بن کر امریکہ یا بیرونی طاقتوں کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
اب حکومت اس قسم کی غلطی نہ کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ جب ہم ملک کے عوام کے علاوہ دنیا کے لوگوں پر یہ واضح کرنے میں ناکام رہیں گے کہ دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ ہے یا ہم اس میں اس ملوث کردیے گئے ہیں تو پاکستان کی شہرت تو داؤ پر لگی رہے گی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عمران خان کے سیاسی مؤقف اور حکمت عملی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی جاسکتی کہ موجودہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ سمجھتی ہے اور اسی لئے ایسی غلطی نہ دہرانے کا قصد بھی کیا جارہا ہے۔ اس میں البتہ یوں الجھن پیدا ہوتی ہے کہ وزیر اعظم کے اسی بیان میں ایک ایسی جنگ میں قربانیوں اور کامیابی کی توصیف کا مطالبہ بھی سامنے آتا ہے جو بقول ان کے پاکستان پر مسلط کی گئی تھی اور جس میں اسے جانی، مالی اور سیاسی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔
یہ گنجلک سوال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ قومی ضرورت ہے یا عالمی دباؤ کے نتیجہ میں ہم پر مسلط ہوئی تھی۔ یہ دراصل سوچ کے دو طریقے ہیں۔ پاکستان کی حکومت مستقل طور سے اس دوراہے پر کھڑی رہی ہے۔ اسی لئے ملک کی رائے عامہ بھی یہ سمجھنے میں غلطی کرتی رہی ہے کہ دہشت گرد قومی مفاد کے علمبردار ہیں یا عوام اور نظام کے دشمن ہیں جو انسانی جانوں سے کھیل کر شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنے رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا بار بار اعلان سامنے آنے کے باوجود یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ جو جنگ اس ملک و قوم کا مسئلہ ہی نہیں تھی، اس میں کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟
سرکاری اور قومی سطح پر موجود اسی کنفیوژن کی وجہ سے یہ بھی طے نہیں ہوسکا ہے کہ ممبئی حملوں یا بھارت جیسے ازلی دشمن ملک کی سرزمین پر اس کے مفادات کے خلاف دیگر دہشت گرد کارروائیاں کرنے والے عناصر ملک و قوم کے دشمن ہیں یا انہوں نے قومی مفاد کا تحفظ کیا تھا۔ نہ ہی یہ طے ہوسکا ہے کہ ان عناصر کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک روا رکھا جائے یا محسن سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھایا جائے۔ لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ اور جیش محمد جیسی تنظیموں اور ان کے سربراہوں حافظ سعید اور مولانا اظہر مسعود کے بارے میں ہمارے اسی غیر واضح رویہ کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم پر شبہ کیا جاتا ہے اور پاکستان کا نام مستقل طور سے دہشت گردوں کے سرپرست میں شمار ہوتا ہے جبکہ ہم خود کو دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کرنے والا ملک قرار دیتے ہیں۔ ان متضاد آرا کے بیچ سادہ سا سوال تو صرف اتنا ہی ہے کہ حافظ سعید جیسے لوگ اس ملک کے ہیرو ہیں یا ملکی پالیسی اور مفاد کے خلاف کام کرنے والے ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل عالمی دباؤ اور نکتہ چینی کا سامنا کررہا ہے۔
وزیر اعظم کی ایک تقریر یا بیرونی جنگ میں آلہ کار نہ بننے کا کوئی اعلان بھی اس غیر واضح تصویر کو نکھارنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ پاکستان کے قول و فعل کا تضاد اس کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنا رہا ہے۔ اسی قسم کی مشکل اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور پھر امریکی حملہ میں اس کی ہلاکت کے حوالے سے بھی موجود ہے یا پیدا کردی گئی ہے۔ پاکستان نے 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے اس واقعہ سے لاعلمی اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کیا تھا۔
ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کا مؤقف رہا ہے کہ اسے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔ تاہم حال ہی میں وزارت خارجہ کی سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے اور اسے ہلاک کرنے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ اس لئے صدر ٹرمپ کی طرف سے اس پر اسامہ کو محفوظ رکھنے کا الزام درست نہیں۔
جوش میں غیر حقیقی باتیں کرنے کی شہرت رکھنے والے امریکی صدر کے الزامات کا جواب دینے کے لئے پاکستان کو اچانک سات سال پرانا مؤقف تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس نئے مؤقف کے بعد فطری طور سے یہ شبہ سر اٹھانے لگتا ہے کہ پاکستان کا اصل کردار کیا ہے۔ وہ اسامہ کا سہولت کار تھا یا اس کے خلاف سرگرم عمل تھا تاکہ امریکہ اپنے دشمن کو پکڑیا ہلاک کرسکے۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اگرچہ امریکہ نے پاکستانی حکومت و فوج کی رضامندی کے بغیر اس کی سرحد میں داخل ہوکر ایک خفیہ مشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا لیکن پاکستان نے اس حرکت پر کبھی امریکہ سے احتجاج نہیں کیا۔ ایسی صورت میں مسلط شدہ جنگ نہ لڑنے کے دعوؤں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
کچھ ایسی ہی غیر واضح حکمت عملی حال ہی میں لبیک تحریک نامی مذہبی سیاسی گروہ کے بارے میں دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ برس اس تحریک کے دو تین ہزار کارکنوں نے ایک بے بنیاد معاملہ پر فیض آباد دھرنا کی صورت میں وفاقی حکومت کو عملی طور سے جزو معطل بنا دیا تھا۔ اس وقت برسر اقتدار پارٹی تحریک انصاف اس دھرنا کی حامی تھی اور ملکی فوج کے سربراہ نے علی الاعلان وزیر اعظم کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھاتھا کہ فوج اپنے لوگوں پر تشدد نہیں کرسکتی۔
تاہم جب وہی گروہ اسی معاملہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسی پارٹی کی حکومت کے خلاف میدان میں اترنے کی کوشش کررہا تھا جسے تمام طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے تو اس کی قیادت کو حفاظتی تحویل میں لینے کے ایک اقدام سے اس منظم اور ریاست سے بھی بڑی دکھائی دینے والی جماعت کا شیرازہ بکھرتا نظر آتا ہے۔ مختلف جتھے اور افراد تحریک لبیک اور اس کی نادان قیادت سے لاتعلقی کا اعلان کرکے اس گروہ کی اصل طاقت کا پول کھول رہے ہیں۔ ایسے میں سوال تو پیدا ہو گا کہ کیا پاکستانی عوام میں اپنے رسول ﷺ کے لئے محبت کم ہو گئی ہے یا عشق رسول ﷺ کے دعوے دار جھوٹے اور دغا باز تھے۔
جن گروہوں پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، ان کی اصل طاقت بھی دراصل وہی ادارے ہیں جو کل تک تحریک لبیک کی پشت پر کھڑے تھے۔ کیا امریکی وزیر خارجہ کی نئی اپیل اور تحریک لبیک کے خلاف ’کامیاب آپریشن‘ کے بعد حکومت ہمسایہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث لوگوں اور گروہوں کے خلاف بھی میدان عمل میں نکلے گی یا ان کے خلاف ریاستی طاقت کا اظہار اب بھی قومی مفاد کے خلاف قرار پائے گا۔
عمران خان اس سوال کا جواب تلاش کرلیں تب ہی ان کی اس بات کو تسلیم کیا جاسکے گا کہ پاکستان آئندہ کبھی مسلط کردہ جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ ابھی تک تو ہمیں یہی خبر نہیں ہے کہ کون سی جنگ ہماری ہے اور کون سی پرائی۔ کون ہمارا دوست ہے اور کب کون سا دوست، دشمن کا روپ دھار سکتا ہے؟
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ