بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے سیکولر ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ یہ مطالبہ ایک طرف علاقے میں کشیدگی برقرار رکھنے کے لئے بھارتی حکمرانوں کی حکمت عملی کا آئینہ دار ہے تو اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس پالیسی کا بھی پرتو ہے جو انہوں نے ملک کی فوج کو سیاست میں گھسیٹنے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے کے لئے شروع کررکھی ہے۔ دو سینئر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کی تقرری بھی اسی خواہش و پالیسی کا نتیجہ تھی۔
جنرل بپن راوت نے اپنی تقرری کے بعد سے نریندر مودی کی حکومت کو سیاسی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے بھارتی فوج کی روایت کے برعکس جنرل راوت اکثر پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے سیاسی بیان جاری کرتے ہیں۔ اس بیان بازی کا مقصد نریندر مودی کی حکومت کو سیاسی سہارا دینے کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ان کا تازہ بیان بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جو بظاہر انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے امن کی پیشکش اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے بات چیت شروع کرنے کے اصرار کے جواب میں دیا ہے۔
بھارت کی سیاسی حکومت اپنے فوجی سربراہ کو ایک سیاسی مؤقف سامنے لانے کے لئے استعمال کرتے ہوئے دراصل اپنی کمزوری کا اعلان کررہی ہے۔ اس طریقہ کار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارتی حکمران جماعت کو پاکستان کے بارے میں اپنی ہٹ دھرمی اور کمزور سیاسی مؤقف کا احساس ہے۔ اسی لئے فوج کے سربراہ کی اعانت کے ذریعے اسے ٹھوس اور قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
بھارتی حکمرانوں نے پاکستان پر سیاسی اور سفارتی دباؤبڑھانے کے لئے ستمبر 2016 میں سرجیکل اسٹرائیک کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اس مقصد کے لئے ایک فوجی جرنیل کی پریس کانفرنس کے ذریعے اس جھوٹے الزام کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس طرح فوج کو ملکی سیاستدانوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی کا آغاز ہؤا تھا۔ بھارتی فوج پر کشمیر میں جارحیت اور انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں۔
بھارتی بحریہ ممبئی حملوں کی روک تھام میں بھی ناکام رہی تھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد سمندری راستے سے ممبئی میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد 2 جنوری 2016 ا ور اسی سال 18 ستمبر کو اوڑی کے فوجی اڈوں پر دہشت گرد حملوں نے بھی بھارتی فوج کی دفاعی صلاحیتوں کا پول کھولا تھا۔ اس طرح بھارت کی فوجی قیادت کو بھی اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے لئے سیاسی لیڈروں کی اعانت و ہمدردی کی اتنی ہی ضرورت رہنے لگی ہے جتنی اب پاکستان کے ساتھ تصادم کی کیفیت کو برقرار رکھنے کے لئے نریندر مودی کی حکومت کو فوج کی سیاسی امداد کی خواہش ہے۔
سرجیکل اسٹرائیک جیسے ڈرامائی الزام اور اس کے بعد بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت کے تند و تیز پاکستان مخالف بیانات اسی سلسلہ کی کڑی رہے ہیں۔ تاہم جنرل راوت کا تازہ بیان پاکستان سے زیادہ خود بھارتی سیاست اور جمہوریت کے لئے چیلنج ہونا چاہیے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز لینے والے ملک کو سوچنا پڑے گا کہ کیا وہ اپنی فوج کے سربراہ کو ایک ایسا بیان دینے کی اجازت دے سکتا ہے جو تمام عالمی اصولوں اور بین الملکی تعلقات کے بارے میں مسلمہ سفارتی روایات سے متصادم ہے۔
جنرل بپن راوت نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کی 135 ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اگر انڈیا سے تعلقات بہتر بنانا ہے تو اسے ایک اسلامی ملک کی جگہ سیکولر ملک بنناپڑے گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے انڈین آرمی چیف کے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’پاکستان کو اپنی اندرونی حالت دیکھنی ہو گی۔ پاکستان نے خود کو اسلامی ریاست بنا لیا ہے۔ اس میں دوسروں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب تک پاکستان سیکولر ریاست نہیں بنتا، بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہوسکتے‘ ۔
بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی چونکا دینے والا ہے کہ کسی بھارتی سیاست دان نے آج تک دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے کبھی ایسی انگشت نمائی کرنے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان کے عوام اور ان کے نمائیندے اپنے ملک میں کون سا نظام نافذ کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔ نہ ہی یہ اصول خود مختار ملکوں کے باہمی تعلقات کے حوالہ سے بنیاد کی حیثیت سے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اگر ریاستی نظریاتی اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوارکیے جائیں تو ریاستوں کی خود مختاری کے بنیادی عالمگیر اصول کی از سر نو تشریح کرنا پڑے گی۔ بھارتی حکومت اگر اس اصول کو لے کر آگے بڑھے گی تو وہ سعودی عرب اور ایران جیسے خالص اسلامی نظام کے دعوے دار ملکوں کے ساتھ کس طرح تعلقات استوار کرسکے گی۔
نریندر مودی اس وقت جی۔ 20 کے اجلاس کے لئے ارجنٹائین کے شہر بونس آئرس میں ہیں۔ وہاں انہوں نے سب سے پہلے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے تاکہ بھارت تیل کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے نئے ذرائع تک رسائی حاصل کر سکے۔ بھارت انرجی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایران سے تیل حاصل کرتا ہے۔ ایران پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف از سر نو اقتصادی پابندیاں عائد ہونے کے بعد بھارت نے ایران سے تیل خریدنے اور اس کی چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کرنے کے لئے خصوصی استثنیٰ حاصل کیا تھا۔
چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہ بھارت کے لئے افغانستان تک رسائی اور وہاں اپنی اجناس اور برآمدات بھیجنے کا واحدقابل عمل متبادل ہے۔ بھارتی حکومت چاہ بہار بندرگاہ کو وسعت دے کر پاکستان کے راستوں کی بجائے ایران کے راستے افغانستان تک رسائی کا بند و بست کررہی ہے۔ اگر جنرل بپن راوت کے بیان کردہ اصول کو رہنما اصول مان لیا گیا تو ایران سے بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اسلامی نظام ترک کرکے ایک ایسے سیکولر نظام پر عمل کرنا شروع کرے جس کی توثیق بھارتی فوج بھی کرسکے۔
جنرل بپن راوت کا یہ مطالبہ سیاسی گرم جوشی اور نریندر مودی سے یک جہتی دکھانے کی کوشش میں دیا گیا ایسا بیان ہے جو بھارتی فوجی سربراہ کی مبلغ سیاسی اور سفارتی صلاحیت کا پول بھی کھولتا ہے۔ اس بیان سے ایک طرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی تعلقات کی نزاکتوں سے یکسر نابلد ہیں تو دوسری طرف یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج پاکستان کے ساتھ کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ حجت اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دوری قائم رکھنے پر اصرار کرتی ہے تاکہ ملک کی ہندو اکثریت کو مطمئن کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے مذہبی قوم پرستی پر مبنی بیانیہ کو تقویت دی جاسکے۔
بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کی فوج عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے۔ اس کا سربراہ اگر دوسرے ملکوں کی خودمختاری و نظام حکومت اور علاقے میں امن کے بارے میں اس قسم کی ناقابل قبول شرائط بیان کرے گا تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتہا پسندی کے رجحانات بھارت کے عوامی جذبات میں ہی سرایت نہیں کررہے بلکہ اس ملک کی سیاسی کے بعد فوجی قیادت بھی اب ایسی قوم پرستی کی راہ پر گامزن ہورہی ہے جو علاقائی امن کے لئے اندیشہ ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارت میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران مذہبی انتہا پسندی نے فروغ حاصل کیا ہے۔ نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو قوم پرستی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اس کے لیڈر فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مسلمانوں پر حملے تو روز کا معمول ہیں لیکن بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی سے دوسرے عقائد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر زیادتی اور ظلم کی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔
1984 میں سابقہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ملک بھر میں مسلح جتھوں نے سکھ شہریوں کا قتل عام شروع کیا تھا۔ خود مختارانہ جائزہ لینے والے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس قتل و غارت گری میں 8 ہزار سکھ قتلکیے گئے جن میں سے اڑھائی ہزار کے لگ بھگ صرف دارالحکومت نئی دہلی میں مارے گئے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی 2002 میں جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات میں بارہ سو کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس بربریت کے دوران مسلمان خاندانوں کو گھروں میں زندہ جلا دینے کے متعدد واقعات بھی پیش آئے تھے۔ نریندر مودی پر ان مسلم کش فسادات کا براہ راست الزام عائد ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ انہیں ویزا دینے پر بھی آمادہ نہیں تھا۔
اس ٹریک ریکارڈ کے حامل ملک کی فوج کا سربراہ نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے ملک کو سیکولر اور پاکستان کو مذہبی قرار دے کر اپنی حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ سیاسی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بیان دراصل جنرل راوت اور ان کے سیاسی ناخدا ؤں کا دوسرے ملکوں پر تسلط حاصل کرنے کے خواب کو ظاہر کرتا ہے۔ سیکولر ازم کے ان دعوے داروں کو دوسرے ملکوں کے معاملات میں جھانکنے سے پہلے اپنے ملک کی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور کشمیری عوام کو حق خود اختیاری دینے کا حوصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ