اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جنوبی پنجاب اور سابقہ ریاست بہاول پور کے دو صوبے بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے تحریک انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اب عوام سے کیے گئے مطالبہ سے پیچھے ہٹنے کی بجائے اس سلسلہ میں عملی اقدام کرے، مسلم لیگ (ن) اس کی مکمل حمایت کرے گی۔ شہباز شریف دس برس تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں لیکن انہوں نے اس صوبے کی آبادی اور وسعت کے باوجود اسے تقسیم کرنے کی کسی تجویز کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔
پیپلز پارٹی کے بعد اس سال جولائی میں ہونے والے انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے اس علاقے سے سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انتخابات کے دوران تو یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ انتخاب جیتنے کے بعد تحریک انصاف سب سے پہلے یہی کام کرے گی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سابقہ حکومتوں کی طرح تحریک انصاف بھی اس مطالبہ کو ٹالنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
انتخاب سے پہلے جب مسلم لیگ (ن) کو دباﺅمیں لانے کی درپردہ کوششیں عروج پر تھیں تو اچانک اس پارٹی کے متعدد ارکان نے جنوبی پنجاب میں بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے سرائیکی محاذ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان جو ایک دہائی تک اس پارٹی کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تھے، لیکن انہیں نہ تو پارٹی قیادت سے اس سوال پر بات کرنے کی توفیق ہوئی تھی اور نہ ہی پنجاب اسمبلی یا قومی اسمبلی میں اس بارے میں کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کے لئے سیاسی ماحول خراب ہوتے ہی ان موقع پرست لوگوں کو جنوبی پنجاب کی محرومیاں یاد آگئیں۔ تاہم علاقہ سے محبت اور عوام کی مشکلات کا درد صرف چند ہفتے تک ہی قائم رہ سکا اور جس مقصد کے لئے سرائیکی صوبہ کے ان نام نہاد حامیوں کو مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوکر ایک سیاسی اتحاد بنانے پر آمادہ کیا گیا تھا، اس کی حتمی تکمیل کے لئے یہ پورا گروہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ اب اس گروپ کے ارکان کو علیحدہ صوبہ کا مطالبہ یاد نہیں ہے کیوں کہ وہ اقتدار میں حسب توفیق حصہ حاصل کرچکے ہیں۔
وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے جنوبی پنجاب سے سیاسی محبت کا ثبوت دینے کے لئے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر گویا جنوبی پنجاب کی تمام محرومیاں دور کردیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی ساری مشکلوں کا حل ایک ایسے وزیر اعلیٰ کی صورت فراہم کردیا جو بقول عمران خان ایک ایسے گاو?ں سے تعلق رکھتا ہے جہاں بجلی تک نہیں ہے، اس لئے وہ عوام کے مسائل کو اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن عثمان بزدار کی ترجیحات میں بھی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بناناشامل نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی کامیابی میں جنوبی پنجاب کارڈ نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن ہر سابقہ سیاسی جماعت کی طرح اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے لئے بھی اس اہم معاملہ پر پیش رفت ممکن نہیں تھی۔ اس لئے بظاہر قومی اور پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے کی بنیاد پر اس معاملہ کو چھیڑنے کی بجائے بعض انتظامی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کی اشک شوئی کی جاسکے۔ لیکن اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔
نیا صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح متعلقہ صوبہ کی اسمبلی سے بھی اس آئینی ترمیم کی منظوری لینا ضروری ہوگا۔ تحریک انصف کو چونکہ نہ تو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں وہ اتحادیوں و اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) کی اعانت کے بغیر یہ تجویز منظور کروانے کی پوزیشن میں ہے، اس لئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں ایسے اقدام کی کوشش وقت کا ضیاع ہوگا۔
خاص طور سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے مطالبہ پر سیاست کرنے والے بھی دراصل اسے عوام کو سیاسی لحاظ سے فروخت کرکے فائدہ تو لینا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی اس مقصد کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیوں کہ بڑا صوبے ہونے کی وجہ سے مسائل کا شکار عام لوگ ہوتے ہیں۔ مفاد پرست اشرافیہ کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ عام لوگوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے کے لئے عملی اقداماتکیے جائیں۔
اب اپنے دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے والے شہباز شریف اس مسئلہ کو اچھال کر پنجاب کے اصل ہیرو بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب ملتان سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی عامر ڈوگر نے شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے اس کردار کی طرف اشارہ کرنے کو کوشش کی تو انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے جواب دیاکہ ’ماضی کی باتیں نہ کی جائیں ورنہ پنڈورا بکس کھل جائے گا‘۔ اگر شہباز شریف کو اپنے ماضی کے کردار پر فخر نہیں ہٍے اور نہ ہی وہ اس پر شرمندہ ہیں تو آخر اس موقع پر جب ملک میں نئے صوبے بنانے کے علاوہ بھی سیاسی عوامی حکمرانی کو درپیش دیگر متعدد چیلنجز موجود ہیں تو انہیں اپوزیشن لیڈر اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے صدر کے طور پرپنجاب کی تقسیم کے سوال پر بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
اس کی ایک ہی وجہ بیان کی جا سکتی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے حال ہی میں نیب میں جاری مقدمات کے حوالے سے مشاورت کی ہے اور سوموار کو نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسز میں غیر موافق فیصلہ آنے کی صورت میں عوامی رابطہ مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آئینی حکمرانی اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے اصولوں پر سیاست کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کررہی ہے۔ اس صورت میں اسے کسی بھی عوامی رابطہ مہم کے لئے بعض ایسے سیاسی معاملات کی ضرورت ہوگی جن سے عوام جذباتی طور سے وابستہ ہوں۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا معاملہ ایسی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔
ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ پیچیدہ اور مشکل ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں کے علاوہ سندھ میں کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کا آئین چونکہ وفاقی ہے جس میں تمام صوبائی اکائیوں کو سینیٹ میں مساوی نمایندگی دی گئی ہے۔ اگر پنجاب میں ایک یا اس سے زیادہ صوبے قائم ہوتے ہیں تو صرف صوبے کی ساخت ہی تبدیل نہیں ہو گی بلکہ سینیٹ میں بھی نئے صوبوں کو مساوی نمائیندگی دینے کا سوال پیدا ہوگا۔
موجودہ پنجاب کے تین صوبے بننے کی صورت میں اگر سینیٹ میں اس خطہ کو موجودہ 25 کی بجائے 75 نشستیں حاصل ہوگئیں تو سینیٹ کی نشستوں کو ایک سو سے بڑھا کر ڈیڑھ سو کرنے کے باوجود موجودہ پنجاب سے کے علاقے کو ایوان بالا میں نصف نشستیں حاصل ہو جائیں گی۔ اس صورت حال کا باقی صوبوں کی سیاست پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔ عام طور سے سندھ سمیت باقی سب چھوٹے صوبے پنجاب کو اپنے مسائل کا سبب قرار دیتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور اور اس خطہ کے لوگوں نے خود کو بیورو کریسی اور فوج میں نمائیندگی کی بنیاد پر دوسرے صوبوں پر مسلط کیا ہو?ا ہے۔
نئے صوبوں کا قیام ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ ملک میں نئے صوبے بنانے سے عوام کو مقامی سطح پر انتظامی سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ بائیس کروڑ آبادی کے ملک کو بہتر انتظام میسر آسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے مسئلہ کے تمام پہلوﺅں پر مباحث اور معلومات کی فراہمی کے ذریعے رائے بنانا اور عوام کو آگاہی دینا بہت ضروری ہے۔ ماضی قریب سے لے کر اب تک سیاسی جماعتیں اس سوال پر سیاست تو کرتی رہی ہیں لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہوم ورک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ صوبوں کو وسائل اور اختیارات کا معاملہ پاکستان میں شروع سے وجہ نزاع بنا رہا ہے۔ جب موجودہ صوبوں کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے تو ایک یا دو نئے صوبے بننے سے سامنے آنے والے چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے گا۔ کوئی سیاسی لیڈر یا پارٹی اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کی پارٹی پنجاب کی انتظامی تقسیم کے لئے تجویز پیش کرے گی۔ حکومت کو اس تجویز کی حمایت کرکے انتخابات میں عوام سے کیے گئے وعدہ کو پورا کرنا چاہیے۔ حیرت ہے کہ پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے جو کام مسلم لیگ (ن) خود طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کرنے میں ناکام رہی ہے، اب وہ تحریک انصاف کے کندھے پر بندق رکھ کر کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے جو اشارے دیے ہیں ان کے مطابق سابق بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانے کے علاوہ سرائیکی بیلٹ پر مشتمل اضلاع کا ایک نیا صوبہ بنانے کی تجویز سامنے لائی جائے گی۔
اس قسم کی تجویز سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے، مزید اختلاف اور سیاسی انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ جنوبی پنجاب کے حامی ریاست بہاولپور کے علاقوں کو اپنے مجوزہ صوبہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی واضح ہو تا ہے کہ شہباز شریف کسی عوامی مطالبہ کی تکمیل کے لئے فن تقریر کو استعمال نہیں کررہے بلکہ وہ پنجاب کی تقسیم کے سوال پر ایک طرف خود کوئی مقبول سیاسی نعرہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اس بنیاد پر حکمران جماعت اور اتحاد میں افتراق پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اہم اور دیرنہ سیاسی مطالبات کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ خواہ کسی لیڈر یا جماعت کی طرف سے سامنے آئے اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ پنجاب میں نئے صوبے قائم کرنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے سے پہلے عوامی رائے ہموار کرنے اور وہ اصول طے کرنے کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر نئے صوبے قائم ہوں گے۔ یہ تفہیم پیدا کرنے سے پہلے صوبے بنانے کی سب باتیں سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ