ممکنہ طور پر سوموار کو نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسز کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ موجودہ ملکی حالات میں اس بات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ انہیں ان مقدمات میں سزا دی جائے گی۔ اس طرح نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر مہر لگانے کے علاوہ یہ طے کیا جائے گا کہ بدعنوانی کے بیانیہ پر آمرانہ طرز حکومت کی جو بساط بچھائی گئی ہے اس نے اپنا پہلا ہدف حاصل کرلیا ہے۔
یوں بھی وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کو احتساب کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں دیں گے۔ گو کہ استفسار کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھی بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ یہ ’این آر او‘ یا رعایت کون مانگ رہا ہے؟ اس کے علاوہ عمران خان بطور منتخب وزیر اعظم کس بنیاد پر کسی بھی شخص کو خواہ وہ سابق وزیر اعظم یا صدر ہو یا کوئی عام آدمی ’رعایت‘ دینے یعنی اس کے گناہ معاف کرکے اسے سزا سے بچانے کا اقدام کرسکتے ہیں؟ وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ ملک میں کسی نے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر دولت بنائی ہو یا ملک کا کوئی دوسرا قانون توڑتے ہوئے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو، اسے سزا دلوانے کا کام متعلقہ اداروں کو سرانجام دینا ہوتا ہے۔ عمران خان پولیس کی خود مختاری اور عدالتوں کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسی ریاست میں وزیر اعظم کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان اور ان کے رفقا نے سیاسی رہنماو¿ں کی نام نہاد کرپشن کے بارے میں جو واویلا مچایا ہے، وہ احتساب کے لئے قائم کئے گئے ’آئینی ‘ ادارے نیب کی خود مختاری اور ملک کی عدالتوں کے غیر جانبدارانہ کردار پر براہ راست سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ جو آئیڈیل صورت حال عمران خان اپنی قیادت میں اہل پاکستان کو باور کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اس میں تو ملک کا وزیر اعظم مرغی کی چوری پر بھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ مدینہ جیسی اس ریاست میں تو پولیس کا متعلقہ افسر ہی جرم کی نوعیت اور وقوعہ کا جائزہ لے کر مقدمہ قائم کرنے اور اسے عدالت تک بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ کرے گا۔ اور عدالت تمام شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی کہ متعلقہ شخص کو کیا سزا دی جا سکتی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم جو اس وقت مدینہ جیسی ریاست کا خواب دکھا کر اپنے سوا سب کو چور ڈاکو ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے، خود بھی کسی عدالت کے طلب کرنے پر پس و پیش نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی مقدمہ میں کسی جج سے التوا، تاخیر یا رعایت کی استدعا کرے گا۔ وہ آئین میں وزیر اعظم کو ملنے والے استثنیٰ کو استعمال کرنے کی خواہش بھی نہیں کرے گا۔
کیا عمران خان یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ کتنے مقدموں میں نامزد ہیں اور ان میں کتنے مقدمات میں وہ خود پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرچکے ہیں۔ عمران خان اگست میں وزیر اعظم بنے ہیں لیکن اس سے پہلے بھی انہوں نے صرف اپنی سیاسی حیثیت کی وجہ سے کبھی پولیس یا عدالتوں کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ ان جیسے ’اعلیٰ رتبے‘ کے لیڈر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ کیا مملکت پاکستان کو ریاست مدینہ کا نمونہ بنانے والے وزیر اعظم یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ کب حضرت عمر ? کی قائم کردہ روایت پر عمل کرتے ہوئے، خود کوکسی عام جج کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے تاکہ ان کے ساتھ ’انصاف‘ کیا جا سکے۔ عمران خان خود بھی جانتے ہوں گے کہ 2018 میں مال غنیمت میں سے اپنے حق سے بڑی چادر ملنے پر جوابدہی جیسے قصے تقریر کی لذت کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ کوئی لیڈر اپنی اس کمفرٹ زون سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہے جو اسے معاشرتی، سیاسی یا مالی حیثیت کی وجہ سے حاصل ہوچکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان تو اس پولیس افسر پر حملہ کے بارے میں بھی شرمندگی محسوس کرنے یا معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے جس پر دھرنا 2014 کے دوران ان کے حامیوں نے حملہ کرنے زد وکوب کیا تھا اور عمران خان نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے عدالت سے خود کو مقدمہ سے خارج کر دینے کی استدعا کی تھی۔ کیا اقتدار ملنے اور مدینہ جیسی ریاست قائم کرنے کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے عمران خان کو اب ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو سے معافی مانگنے اور اپنے ساتھیوں کی غلطی اور قانون شکنی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں؟ ایسی سب باتوں کو غیر ضروری اور کتابی کہہ کر ضرور مسترد کیا جا سکتا ہے لیکن پھر عمران خان کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ انصاف فراہم کرنے، پاکستان کو خوشحال ریاست بنانے اور مدینہ کی ریاست کا احیا کرنے کی باتیں بھی کتابی اور سیاسی نعرے بازی ہیں۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا ہر لیڈر دوسرے سیاست دانوں کو چور اور ڈاکو قرار دینے کا اعلان کرتا ہے۔ مذہب کو سیاسی کامیابی اور ایجنڈے کی تکمیل کا ہتھکنڈا بنانے والے وزیر اعظم کو کیا یہ خبر ہے کہ کسی بھی شخص پر دو ٹوک ثبوت یا عینی گواہ ہوئے بغیر کوئی الزام عائد کرنا بہتان کے زمرے میں آتا ہے جس کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ جس ایک ریفرنس میں انہیں سزا دی گئی ہے، اس میں بھی ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو¿ا ہے۔ اسی طرح آصف زرداری ماضی میں کرپشن کے متعدد الزامات سے بری ہو چکے ہیں۔ اب بھی ان پر منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ابھی تک نہ چارج فریم کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت نے شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر کیا ہے۔ ان حالات میں ملک کے حکمرانوں کی طرف سے سیاسی مخالفین پر تہمتیں عائد کرنے کا رویہ کون سے اعلیٰ اخلاقی اصول کی بنیاد پر درست کہا جاسکتا ہے۔
عمران خان کے لئے تو یہ صورت حال باعث عبرت ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر رہنے کے بعد بھی، کبھی بھی انہیں چور ڈاکو قرار دے کر مجمع سے تالیاں پٹوائی جاسکتی ہیں۔ کیا عمران خان نہیں جانتے کہ انہیں بھی ایک دن سابق وزیر اعظم ہونا ہے۔ کیا انہیں اس بات کا یقین ہے کہ الزامات کی وہ بوچھاڑ جو وہ اپنے سیاسی مخالفین پر کرتے ہوئے ملک میں ہیجان، بے یقینی، محاذ آرائی اور سیاسی انتقام کی جس روایت کو استوار کرنے میں آلہ کار بن رہے ہیں، مستقبل میں وہ خود اس سے محفوظ رہیں گے؟ عمران خان کو جاننا چاہئے کہ اگر خدا نخواستہ تاریخ کبھی انہیں اس مقام تک لائی جہاں اس وقت نواز شریف اور آصف زرداری کھڑے ہیں تو ان کے خلاف الزامات کی نوعیت اتنی شرمناک ہو سکتی ہے کہ کرپشن کے الزامات اس کے مقابلے میں معمولی دکھائی دیں گے۔ عمران خان کو جاننا چاہئے کہ وہ خود شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ باری کررہے ہیں۔ یہ پتھر شیشے سے بنی ان کی پناہ گاہ پر بھی گرائے جا سکتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ نواز شریف اور آصف زرداری بھی کبھی ایسے ہی آئینہ خانوں میں خود کو محفوظ و مامون سمجھتے تھے۔
اس وقت نواز شریف کے بعد شہباز شریف اور مسلم لیگ کے دیگر ناپسندیدہ رہنماو¿ں کے علاوہ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کو سبق سکھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کو سزا ملنے کے بعد ملک میں اس منصوبہ کے آخری باب کا آغاز دیکھنے میں آ سکتا ہے جس کا باقاعدہ آغاز ایوب خان کے ایبڈو قوانین کے تحت کیا گیا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے بھی سیاست دانوں کے ذریعے بدعنوانی کے الزامات میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے تجربات شروع ہوچکے تھے اور غلام محمد جیسے سویلین صدر نے ملک سے جمہوریت کا جنازہ نکالنے کی پوری کوشش کی تھی۔ 65 برس بعد ان حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اکتوبر 1958 میں قومی بہبود کے جس مشن کا اعلان مارشل لا کی صورت میں کیا گیا تھا، اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے منصوبہ بندی بہت پہلے سے کی جا رہی تھی۔ اسے جدید عمرانی محاورہ میں پائلٹ پراجیکٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس تیاری کے بعد نافذ ہونے والے مارشل لا کی کوکھ سے 1969 کا مارشل لا برآمد ہو¿ا جس نے دو برس بعد قائد اعظم کے پاکستان کو دفن کر دیا۔
ملک چار فوجی حکومتیں دیکھنے کے باوجود کرپشن سے پاک نہیں ہو سکا لیکن پوری مستقل مزاجی سے الزام عائد کرکے قومی مفاد کا تحفظ کرنے کی حکمت عملی جاری و ساری رہی ہے۔ حیرت صرف اس بات پر ہے کہ جو کام مارشل لا کی شمشیر برہنہ کے ساتھ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا، وہ ریشمی دستانے پہن کر، جمہوریت اور انصاف کا نعرہ لگا کر کیسے مکمل ہو سکے گا۔ کرپشن کا الزام ایک ایسا منتر ہے جس کا جادو صرف اس حد تک کام کرتا ہے کہ کسی ایک خاص گروہ کو ایک خاص وقت میں نیچا دکھا سکے تاکہ معاملات کو انہی خطوط پر چلایا جاسکے جو قومی مفاد کے ایجنڈے کے لئے تشکیل دئیے جا چکے ہیں۔
اس تجربہ پر عمل کرنے والے اس قدر حوصلہ مند ہیں کہ وہ بار بار کی ناکامیوں سے بھی مایوس یا شرمندہ نہیں ہوتے۔ اسی لئے پرانے ڈرامے کا نیا ایڈیشن پرجوش عمران خان کے ذریعے عوام کو فروخت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن کیا عمران خان کو یہ پتہ نہیں کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو جیل میں ڈالنے کے بعد بھی لوگوں کو بھوک لگے گی اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ کیا کبھی کوئی کچھ توجہ اس طرف مبذول کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔
عام لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہ ہوئے تو گلیوں سڑکوں پر ہائے ہائے اور مردہ باد کے نعرے بلند ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ البتہ اب یہ لاحقہ ایوب خان کے نام کے ساتھ نہیں لگے گا۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ