وزیر اعظم عمران خان نے خالی خزانے میں مزید ڈالر لانے کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ’پاکستان بناﺅ سرٹیفکیٹ‘ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ اس ذریعہ سے سرمایہ حاصل کرنے کا کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ پاکستان لانے پر آمادہ کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ کو وزیر اعظم فنڈ میں تبدیل کرتے ہوئے، بیرون ملک مقیم پاکستانی نڑاد باشندوں سے ایک ہزار ڈالر فی کس چندہ دینے کی اپیل کی تھی۔ اس مقصد کے لئے پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے فنڈ میں رقم جمع کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔ پاکستان سے تحریک انصاف کے زعما بھی ان تقریبات میں شریک ہوئے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقوم جمع کی جا سکیں۔
اس فنڈ میں رقم جمع کرنے کے حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی نیت تو یقیناً ڈیم تعمیر کرنے کے لئے رقم جمع کرنے کی رہی ہو گی لیکن وزیر اعظم کے پیش نظر ملک کے تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائرسب سے بڑی تشویش کا سبب تھے۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ بیرون ملک پاکستانیوں میں ان کی ’اپیل اور مقبولیت‘ کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں آباد 70 لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی اتنا سرمایہ ضرور فراہم کردیں گے کہ ملک کو ایک برس تک ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں سہولت رہے گی۔
یہ عمران خان کی پہلی خود فریبی تھی۔ یہ امید کس حد تک بر آئی ہے، اس کا مشاہدہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جا کر کیا جا سکتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے علاوہ نو منتخب مقبول وزیر اعظم کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک اس فنڈ میں دس ارب روپے بھی جمع نہیں ہو سکے۔ عمران خان کو اپنی اپیل پر سامنے آنے والے ردعمل سے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ دوسرے ملکوں میں مقیم پاکستانی مزدوری کرنے کے لئے ملک سے باہر گئے ہیں۔ ان کی اکثریت ایک خوشحال زندگی ضرور گزارتی ہے لیکن ان کے پاس اتنا فالتو سرمایہ نہیں ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کی اپیل پر ملک کا خالی خزانہ بھرنے کے لئے جوق در جوق سامنے آ جائیں گے۔
پاکستانی تارکین وطن ہر سال 20 سے 30 ارب ڈالر کی خطیر رقوم وطن روانہ کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ پاکستانی برآمدات سے وصول ہونے والے زرمبادلہ سے بھی زیادہ ہے اور اس وقت پاکستان کی معاشی صورت حال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستانی باشندے یہ رقوم اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں لیکن یہ ترسیلات دو اعتبار سے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک تو ملک کی زر مبادلہ کی ضروریات پوری ہونے میں مدد ملتی ہے اور دوسرے یہ دولت مختلف گھرانوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی معیشت کا حصہ بنتی ہے جس سے معاشی سرگرمی پیدا ہوتی ہے، کاروبار میں بڑھاوا دیکھنے میں آتا ہے اور زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔
ملکی معیشت کے لئے تارکین وطن کی اس خدمت کے معاوضے کے طور پر یہ اہم ہے کہ انہیں بنیادی سہولتیں دی جائیں تاکہ اپنے وطن اور اس کی حکومت پر ان کے اعتبار میں اضافہ ہو سکے۔ تاہم ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کی حکومت بھی فی الوقت اس حوالے سے باتیں بنانے اور نعرے لگانے کے سوا کوئی خاص اقدام نہیں کر سکی۔
تارکین وطن پاکستانی حکومت سے کوئی خاص مطالبہ بھی نہیں کرتے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ یہ خواہش ہے کہ وطن واپس آنے پر امیگریشن میں سہولت سے باہر نکل سکیں، کسٹمز والے انہیں ملک میں آتے اور جاتے وقت بلاوجہ تنگ نہ کریں، اگر وہ ملک میں کوئی جائیداد خریدیں یا سرمایہ کاری کریں تو اسے تحفظ حاصل ہو اور اس پر ایسے عناصر قبضہ نہ کر لیں جن سے کوئی جائیداد واگزار کروانے میں دہائیاں بیت جائیں۔ اسی طرح ان کی خواہش ہے کہ انہیں نائیکوپ اور پاکستان اوریجن کارڈ آسانی سے حاصل ہوجائے۔ اس کا طریقہ کار سہل ہو اور اگر کسی سابقہ پاکستانی کے پاس نادرا کا کارڈ نہیں ہے تو اسے ویزا حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہو۔
یہ سارے معاملات انتظامی طریقہ کار کو بہتر بنا کر اور سادہ قانون سازی کے ذریعے حلکیے جا سکتے ہیں لیکن بلند بانگ دعوے اور وعدے کرنے والی حکومتیں یہ سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں کہ تارکین وطن جب پاکستان میں ہونے والے سلوک کا مقابلہ دوسرے ملکوں کے منظم اور منصفانہ نظام سے کرتے ہیں تو انہیں عملی تکلیف کے علاوہ ذہنی اور قلبی کرب سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔
موجودہ حکومت نے درآمد شدہ موبائل فون پر ڈیوٹی وصول کرنے کے نام پر جو پیچیدہ اور مشکل طریقہ کار وضع کیا ہے، وہ وطن آنے والے ہر پاکستانی کے چودہ طبق روشن کرنے کے لئے کافی ہے۔ اوّل تو یہ بات فطری ہے کہ بیرون ملک سے پاکستان آنے والا کوئی بھی شخص کم از کم دو موبائل ہمراہ لانا چاہے گا۔ ایک میں وہ اس ملک کی سم استعمال کرے گا جہاں سے وہ آتا ہے اور دوسرے میں پاکستانی سم ڈال کر پاکستان میں قیام کے دوران مواصلت کی سہولت حاصل کرے گا۔
تاہم نئے قواعد کے تحت اب صرف ایک موبائل کسی ڈیوٹی کے بغیر لانے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سم استعمال کرنے کے لئے موبائل کی رجسٹریشن ضروری قرار دے دی گئی ہے۔ اس کے لئے دستاویزات فراہم کرنے کاجو گورکھ دھندا ترتیب دیا گیا ہے، اس سے طویل سفر کے بعد پاکستان پہنچنے والے ہر مسافر کی مشکلات دو چند ہوگئی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وزیر اعظم اب ملک میں سیاحت کے فروغ کا ڈول ڈال رہے ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ کیا آن لائن ویزا کی سہولت ملنے سے سیاح پاکستان آنے کے لئے قطاریں بنانا شروع کر دیں گے؟ یا وہ کسی ایسے ملک جانے کا فیصلہ کریں گے جہاں انہیں سفر اور قیام کے لئے بنیادی سہولتیں بھی حاصل ہوں۔ وزیر اعظم اور ان کے ہونہار مشیر اگر اس سوال کے تناظر میں پاکستانی ہوائی اڈوں کی صورت حال اور پاکستان میں سفر، قیام اور قابل دید مقامات کی حالت زار کا مشاہدہ کر لیں تو اپنے اس بلند بانگ منصوبہ کی حقیقت خود ہی ان کے سامنے آشکار ہو جائے گی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم سمیت حکومت کے اہم ارکان خود فریبی کے سحر سے باہر نکلیں اور عملی اقدامات کرنے کی کوشش کریں۔
’پاکستان بناﺅ سرٹیفکیٹ‘ جاری کرنے کے موقع پر عمران خان کی باتیں ایک بار پھر یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے لائی ہیں کہ وزیر اعظم معروضی حالات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی بجائے، سابقہ حکمرانوں کو مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر بیک وقت اپنی مشکل اور کامیابی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ پھر ایسے عجیب و غریب منصوبے اور ترجیحات پیش کرتے ہیں کہ انسان دانتوں میں انگلی دبا لے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے آج فرمایا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے ’آسان‘ راستہ کو اختیار کرنے کی بجائے دوست ملکوں سے امداد لے کر معیشت کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا تھا کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کی بہتری کے لئے طویل المدت منصوبہ بنانا چاہتی ہے۔
زمینی حالات کی روشنی میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت تو آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا چاہتی تھی اور اس کا اعلان اسد عمر وزیر خزانہ بننے سے بھی پہلے کرتے رہے تھے لیکن جب آئی ایم ایف اور امریکہ سے موصول ہونے والے اشارے اس خواہش کے راستے کا پتھر بن گئے اور عرب ملکوں سے امداد ملنے کی امید پیدا ہوئی تو آئی ایم ایف کے بارے میں یہ تاثر دیا جانے لگا کہ وہ عوام دشمن شرائط عائد کرنا چاہتا ہے جس سے ملک کی خود مختاری متاثر ہوگی۔ یہ عوامی حکومت ایسی شرائط کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت یا وزیر خزانہ یہ بتانے پر تیار نہیں ہیں کہ آئی ایم ایف کی وہ کون سی شرائط ہیں جو عوام دشمن ہیں اور جن سے ملک کی خود مختاری پر سودے بازی کی کوشش کی جا رہی ہے؟ دوسری طرف آئی ایم ایف کے خلاف بیان بازی کرنے کے باوجود اس آپشن کو مسلسل کھلا رکھا گیا ہے۔
وزیر خزانہ یا وزیر اعظم اس حوالے سے معاشی مارکیٹ کی حساسیات کو سمجھنے سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ معیشت میں استحکام کے لئے نعرے لگانے اور شبہات پیدا کرنے کی بجائے یقین اور اعتماد کی فضا ضروری ہوتی ہے۔ جب حکومت خود ہی بے یقینی کا ماحول پیدا کرے گی تو ملکی معاشی استحکام اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے مشکلات سامنے آنا فطری امر ہے۔ حکومت کے نمائیندے سابقہ حکمرانوں کی گرفت کرنے کے شوق میں ایسے بیانات دینے کا سبب بن رہے ہیں جن سے سرمایہ کاروں کے خوف میں اضافہ ہوتا ہے۔
تارکین وطن پاکستانیوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کا منصوبہ پہلی بار متعارف کروایا گیا ہے لیکن مالی بانڈ کی بنیاد پر بیرون ملک سے سرمایہ اکٹھا کرنے کا کام سابقہ حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں۔ لیکن ایسے بانڈ عام طور سے مالی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کے لئے جاریکیے جاتے ہیں، جن کا ہدف بھی پہلے سے مقرر کر لیا جاتا ہے کہ اس منصوبہ سے کتنا سرمایہ اکٹھا کرنا مقصود ہے۔ ان بانڈز کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کار منافع کی شرح دیکھ کر بانڈ یا سرٹیفکیٹ خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اب خاص تارکین وطن کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اقدام سے یہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی مالی منڈیوں میں حکومت پاکستان کے جاریکیے گئے بانڈز کی فروخت آسان نہیں رہی جس کی وجہ سے اب حکومت تارکین وطن پاکستانیوں کی حب الوطنی کو ٹارگٹ کر کے سرمایہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ صورت حال وزیر اعظم کے دعوو?ں کے برعکس ترقی معکوس کی تصویر پیش کرتی ہے۔
پاکستان نے عرب ملکوں سے امدادی پیکیج کے نام پرقلیل المدت سرمایہ حاصل کیا ہے۔ تاہم حکومت ان شرائط اور مطالبوں کی فہرست سامنے لانے کے لئے تیار نہیں جو مجبوری کے عالم میں حاصل کی جانے والی اس امداد کے عوض پاکستان کو پورے کرنے پڑیں گے۔ اس قسم کے غیر تحریر شدہ معاہدوں یا وعدوں کے نتیجے میں ملکی خود مختاری اور مفادات پر علی الاعلانکیے جانے والے معاہدوں کے برعکس زیادہ ضرب پڑتی ہے۔ عرب ملکوں کی امداد کو برادر ملکوں کی سخاوت کہنا یا سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ البتہ حکومت فی الوقت اس بارے میں مہر بہ لب ہے۔
پاکستان کی اقتصادی مشکلات کے بارے میں کوئی شبہ نہیں لیکن ان کی ساری ذمہ داری کسی ایک سابقہ حکومت پر ڈالنا بھی حقیقت سے نگاہیں چرانا ہو گا۔ پاکستان کی معیشت کو پیداواری مندی کا سامنا ہے۔ قومی پیداوار میں اضافہ کے لئے نعروں کے مزاج اور خود فریبی سے نجات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے معاشی استحکام اور سیاسی بے چینی کو ختم کرنا اہم ہے۔
(بشکریہ: کار وان۔۔۔ناروے)