نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں قتل عام کے اندوہناک واقعہ کے بعد دنیا بھر سے ہمدردی اور یک جہتی کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں میں ہزاروں لوگوں نے مرنے والوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے اجتماعات منعقدکیے ہیں۔ کرائسٹ چرچ میں پولیس نے اگرچہ ابھی تک لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا ہے لیکن اس کے باوجود شہر کے لوگ بڑی تعداد میں لوگ مسجد النور کے سامنے جمع ہوئے اور نسل پرست دہشت گردی کے اس بھیانک واقعہ کی مذمت کی اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔
مغربی دنیا کے بیشتر شہروں میں مساجد کے باہر لوگوں نے انفرادی طور پر بڑی تعداد میں پھولوں کے گلدستے پہنچائے اور ہم آہنگی اور باہمی احترام کے پیغامات لکھ کر رکھے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مساجد کے باہر خاص طور سے ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں گلدستے رکھے گئے ہیں اور اسکول کے بچوں سے لے کر معمر شہریوں تک نے نجی نوعیت کے پیغامات اور ڈرائینگز کے ذریعے کرائسٹ چرچ کے دہشت گرد کی نفرت، دہشت اور انتہا پسندی کو مسترد کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ آپ ہم میں سے ہی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا ایرڈن نے گزشتہ روز ہی اعلان کیا تھا کہ ’جو لوگ اس سانحہ سے متاثر ہوئے ہیں، انہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا تھا۔ وہ ہم میں سے تھے۔ لیکن جس شخص نے اس یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کرائسٹ چرچ میں پچاس لوگوں کو شہید کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ ۔
آج نیوزی لینڈ کے متعدد شہروں میں لوگوں نے جمع ہو کر اپنی وزیر اعظم کے پیغام یک جہتی کی توثیق کی۔ نوجوانوں نے جو بینر اٹھائے ہوئے تھے، ان میں مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس مفہوم کی عبارت درج تھی: ’دہشت گردی جیت نہیں سکتی۔ آپ اور ہم ایک ہیں‘ ۔ اسی طرح دنیا بھر کے لیڈروں نے کرائسٹ چرچ کے سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے عوام، حکومت اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم ایرڈن کو ٹیلی فون کرکے اس سانحہ پر دکھ کا اظہار کیا اور ایک ٹوئٹر پیغام میں بھی اس واقعہ کی مذمت کی۔
تاہم اس کے ساتھ ہی وہائٹ ہاؤس میں میڈیا کے براہ راست سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی صدر نے اس خیال کو مسترد کیاکہ دنیا میں سفید فام نسل پرستی ایک بڑھتا ہؤا خطرہ ہے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ’کیا دنیا میں سفید فام قوم پرستی میں اضافہ ہو رہا ہے؟ ‘ ۔ اس سوال کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’نہیں میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ چند لوگ ہیں جو سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ یہ خوفناک رجحان ہے‘ ۔
اس حملہ میں ملوث برینٹن ٹورینٹ نے دہشت گردی سے پہلے جو منشور شائع کیا تھا، اس میں اس نے ٹرمپ کو سفید فام بالادستی کی امید قرار دیا تھا اور اس کی حمایت کرنے والی ایک خاتون کو اپنا ہیرو بتایا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے سنگین واقعہ کے بعد صدر ٹرمپ نے جس طرح محض افسوس کرنے تک اکتفا کیا ہے اور اسے نسل پرست دہشت گردی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، اس سے مبصرین اور امریکہ میں صدر کے ناقدین نے مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مسلمان دشمن بیانیہ کو مقبولیت کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہی مزاج کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر حملہ کاسبب بنا ہے۔
ایک طرف دنیا بھر کی حکومتوں اور ممالک کے سربراہ اس المیہ پر افسوس کا اظہار کرکے حملہ آور کی حرکت کو مسترد کررہے ہیں لیکن مغربی دنیا میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ٹورینٹ کے سفاکانہ حملہ کا ’جواز‘ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص آسٹریلیا کا سینیٹر فریزر ایننگ ہے۔ اس نے آج کینیبرا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہمارے ملکوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والا خوف اس حملہ کی وجہ بنا ہے‘ ۔ اس پر ایک نوجوان نے ناراض ہو کر اس پر انڈا پھینکا جس کے جواب میں سینیٹر نے نوجوان کو گھونسہ دے مارا۔ پولیس نے نوجوان کو حراست میں لے لیا۔
دنیا بھر سے کرائسٹ چرچ سانحہ پر دکھ، غم، یک جہتی اور دہشت کو مسترد کرنے کے اظہار کے باوجود جب دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر سفید فام نسل پرستی اور دہشت گردی کے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا اور سینیٹر ایننگ جیسے سیاسی لیڈر موجود ہوں گے جو دہشت گردی اور انسانوں کو بے رحمی اور بھیانک طریقے سے قتل کرنے والے اقدام کا عذر تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ خود تشدد کا مظاہرہ کریں گے اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے تو دہشت گردی کے حوالے سے بحث کو بامعنی اور مثبت انداز میں آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
نیوزی لینڈ کی حکومت اور وزیر اعظم نے نہایت جرات مندی سے اس سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا ہے اور ملک کے عوام نے مسلمانوں کو گلے لگا کر اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرکے محبت اور باہمی احترام کا پیغام دیا ہے۔ انتہا پسند نظریا ت کا پرچار کرنے والے عناصر اور ایک خاص عقیدہ یا اقلیت کو سیاسی مقبولیت کے لئے استعمال کرنے والے لیڈر اس مثبت پیغام کو ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس مزاج کے سدباب کے لئے مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر مہم جوئی کی ضرورت ہوگی تاکہ عقیدہ اور نسل کی بنیاد پر تفریق اور نفرت کا سدباب کیا جاسکے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر طیب اردوان اور ایرانی صدر حسن روحانی سمیت متعدد مسلمان لیڈروں نے اس موقع پر یہ پیغام عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘ ۔ یہ لیڈر نیوزی لینڈ میں ایک سفید فام نسل پرست اور فسطائی کی حرکت کو اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان لیڈر یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ مغربی ملکو ں میں اسلامو فوبیا یا مسلمانوں کے خلاف نفرت کے خلاف کام کیا جائے۔ یہ پیغام معاشروں میں مساوی حقوق کے لئے کام کرنے والے سیاسی کارکن اور انسانی اقدار کے لئے سرگرم تنظیمیں ہمیشہ سے عام کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ تاہم کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی کے بعد صرف مغربی ممالک کے خلاف پوائینٹ اسکورنگ یا انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش سے افہام و تفہیم اور مساوات کا بنیادی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویوں اور اپنے معاشروں میں اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر بھی غور کرنا ہو گا۔ محبت اور باہمی احترام کا پیغام کبھی یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔ مسلمان ایک خاص واقعہ کے بعد ’مظلوم‘ ہونے کا دعویٰ کرکے سارا الزام مغرب اور سفید فام نسل پرستوں کو نہیں دے سکتے۔ انہیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نعرے مقبول ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست دان انہیں برتنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ان عوامل میں مسلمان ممالک کے علاوہ مغربی ممالک میں آباد مسلمان آبادیوں کو بھی اپنے کردار پر بھی غور کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔
یہ درست ہے کہ نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ میں نسل پرستانہ دہشت کی افسوسناک مثال قائم ہوئی ہے اور اس ذہنیت کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ مغربی رائے بنانے والوں اور سیاسی لیڈروں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو آسٹریلین سینیٹر فریزر ایننگ کی طرح برنٹین ٹورینٹ کی دہشت گردی اور سفاکی کی دلیل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی لوگ اور مزاج کسی ’مسلمان‘ کی دہشت گردی کو اسلام کا پیغام اور مسلمانوں کا طریقہ قرار دیتے دیر نہیں کرتے۔ اب یہ عناصر حملہ آور کو ذہنی طور سے ناقص یا ’تنہا فرد‘ قرار دے کر خود کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کریں گے۔
مسلمانوں کو البتہ اس قسم کے انتہا پسند مزاج کے نمائیندوں کے طرز عمل کو مثال بنانے کی بجائے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا کسی مسلمان دہشت گرد کے خود کش حملہ یا قتل و غارتگری کے بعد تمام مسلمان اسی طرح اس رویہ کو مسترد کرتے ہیں جس طرح نیوزی لینڈ اور مغربی ممالک کے عوام کی بڑی اکثریت کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد اس کی مذمت کے لئے سامنے آئی ہے؟ مسلمانوں میں اب تک دہشت گرد گروہوں کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو دہشت گردی کو مغربی ممالک کی بالادستی کے خلاف مجبور وں کی آواز سمجھتے ہیں اور حملہ آوروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں، خواتین، مردوں اور اسکول کے بچوں نے پھولوں، خطوں اور مسلمانوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اظہار ہمدردی کرکے انہیں گلے لگایا ہے اور کہا ہے کہ ’آپ اور ہم ایک ہیں‘ ۔ سوچنا چاہیے کہ اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے بعد کیا مسلمان ملکوں میں بھی ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں؟
دہشت گردی انسانیت کی دشمن ہے۔ یہ بے گناہ لوگوں کی جان لیتی ہے۔ کسی بھی عقیدہ یا نظریہ کی بنیاد پر یہ راستہ اختیار کرنے والا انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کے فعل کو ’سمجھنے‘ کی ہرکوشش ناقابل قبول ہونی چاہیے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اور لوگ اس حوالے سے سرخرو ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو ایسی سرخروئی کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔
جس طرح ایک مسلمان دہشت گرد کے بھیانک کردار کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو مجرم قرار دینے کی ذہنیت کو قبول نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح اب بعض مسلمانوں کا یہ مؤقف درست نہیں ہوسکتا کہ تمام عیسائی دہشت گرد ہیں یا تمام سفید فام انسانیت دشمن ہیں۔ اور مغربی ممالک مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش میں مصروف ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ