شاہ محمود قریشی نے کوٹھوں چڑھی بات کو آخر اچک ہی لیا اور عید الفطر کے موقع پر دورہ ملتان کے دوران میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ اس انکار کو شاہ محمود قریشی کی قلندرانہ بے نیازی کا ایک پہلو سمجھنا چاہئے کیوں کہ یہ شان استغنا بڑی محنت سے مقدر والوں ہی کو ملتی ہے۔
البتہ حاسدوں اور بال کی کھال اتارنے والوں کے لئے شاہ محمود قریشی کی حکمت سے بھری باتوں میں سمجھنے کے کئی پہلو ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ تحریک انصاف اور اتحادیوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس لئے انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح سیاسی بیانات میں الفاظ کا چناؤ بھی کم اہم نہیں ہوتا۔ اب ساری زندگی اس دشت کی سیاحی میں گزار دینے کے بعد شاہ محمود قریشی کو ان دونوں مواقع کو مناسب طریقے سے نمٹنے کا گر تو ضرور آ گیا ہوگا۔
نومبر 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوتے وقت انہیں یہ تو بخوبی اندازہ تھا کہ وہ ایک فرد کی مقبولیت کے نام پر کھڑی تحریک انصاف میں کبھی بھی وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہو سکیں گے۔ وہ پیپلز پارٹی میں وزیر خارجہ کے عہدے پر ہی فائز تھے جب انہیں کسی ’روحانی‘ اشارے کی وجہ سے اس کرسی کو ٹھکراتے ہوئے اپوزیشن کی سیاست کرنے کا شوق چرایا اور وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تحریک انصاف سات برس بعد ملک میں اقتدار سنبھالے گی اور عمران خان وزیر اعظم بن جائیں گے۔ لیکن اب وزارت عظمیٰ کو حقیر جان کر مسترد کرنے والے شاہ محمود قریشی پر ضرور ’مستقبل بعید‘ میں رونما ہونے والا یہ واقعہ القا ہو چکا تھا۔
2011 میں شاہ محمود قریشی عام لوگوں کے برعکس جس طرح یہ جانتے تھے کہ مستقبل میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ سکتا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی باور کرتے تھے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے پاس ان سے بہتر کون امیدوار ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں وزیر اعظم حقیقی سیاسی طاقت تخت لاہور پر دسترس سے ہی حاصل کرتا ہے۔ اسی لئے نواز شریف نے کبھی اس تخت پر اپنے بھائی شہباز شریف کے علاوہ کسی کو نہیں بٹھایا۔ شاہ محمود نے وزارت خارجہ چھوڑ کر عمران خان کا نائب بننے کا فیصلہ، دوبارہ وزیر خارجہ بننے کے لئے تو نہیں کیا ہو گا۔
ان کی نگاہیں اسی تخت پر تھیں جس کے سہارے ہی عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر اپنی شان و شوکت کو چار چاند لگانے تھے۔ اب الیکشن کے دن ایسا کیا ہؤا اور کس نے کیا کہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کے رکن تو بن گئے لیکن پنجاب اسمبلی کی نشست پر ہار گئے۔ گزشتہ برس کے دوران ملتان کی قدیمی گدی کے اس وارث نے اس معاملہ پر ضرور غور و فکر کیا ہوگا اور کچھ نتائج بھی اخذ کئے ہوں گے۔
جہانگیر ترین کو شق 62 اور 63 کے تحت نااہل ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں کی طرح عملی امور اور سرکاری اجلاسوں سے دور رہنے کا مشورہ جس خلوص اور پارٹی سے محبت کی بنیاد پر دیا گیا تھا، اس کے بعض رموز و اسرار تو کوڑھ مغز مبصرین کو بھی سمجھ آ گئے ہوں گے۔ لیکن جب ہونہار شاہ محمود وزارت عظمی کو ایک ’اصول‘ کی بنیاد پر ٹھکرانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس کے پس پردہ کہانی کے امین وہ خود ہی ہیں۔ البتہ وقت کے ساتھ اس کی پرتیں بھی کھلنا شروع ہو جائیں گی۔
ایک پہلو تو بہرحال ابھی سے نمایاں ہے کہ سیاست میں افواہوں کی تردید کرنے کا مقصد ان کی تصدیق کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے طاقت کے مراکز میں اگر عمران خان کا متبادل تلاش کرنے کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیوں کے متعلق پھیلنے والی افواہوں کو کوئی ذمہ دار سیاست دان قابل توجہ نہیں سمجھتا تھا تو وہ اب ضرور اس پر غور کرے گا۔ جب شاہ محمود قریشی جیسا سیانا سیاست دان ان افواہوں کی تردید کرنا ضروری سمجھتا ہو تو اس کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ شاہ صاحب کو شبہ ہے کہ تحریک انصاف میں مائنس ون کے فارمولے پر غور کرنے والے یا اسے مسلط کرنے والے انہیں نظر انداز کررہے ہیں۔ تو اس بیان کے ذریعے وہ یہ خواہش مناسب جگہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ‘۔ اس کی دوسری وجہ تحریک انصاف کے حلقو ں اور حکومت میں پکنے والی کھچڑی کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے کے توڑ کر یہ بتانا مقصود ہے کہ ’عمران خان پر اعتبار تو کرلیا گیا لیکن دیکھ لیں وہ اس قابل بھی ہیں‘۔
یہ بھی قرین قیاس ہے بلکہ زیادہ ممکنات میں سے ہے کہ شاہ محمود قریشی اس عاجزانہ بیان سے یہ دونوں مقاصد ہی حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ کیوں کہ مائنس ون کا فارمولا بھی عمران خان سے متعلق ہے اور تحریک انصاف اور حکومت کے اندرونی انتشار اور کشمکش کے معاملہ میں بھی ذمہ داری کا سارا بوجھ عمران خان کے سر پر ہی لادا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی وزیر اعظم نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے دراصل اس بوجھ کو اپنے سر سے دور کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہ سچ کون نہیں جانتا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی جسے سابق صدر آصف زرادری نے ان سنہری الفاظ میں بیان کردیا تھا کہ ’سیاسی بیان کلام الٰہی نہیں ہوتا کہ اسے تبدیل نہ کیا جاسکے‘۔ کون جانے کہ اگر قوم پر آج سے بھی برا وقت آن پڑا تو مجذوب صفت شاہ محمود قریشی کو قوم پر رحم کھاتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے اس بوجھ کو اٹھانے پر رضا مند ہی ہونا پڑے، جس سے بریت کا اعلان وہ اس وقت نہایت بے نیازی سے کر رہے ہیں۔
’بیٹی کو کہنا اور بہو کو سنانا‘ کا محاورہ تو سب نے ہی سنا ہوگا۔ ملکی سیاست اور وزیر اعظم کا امید وار نہ ہونے کے بیان میں شاہ محمود قریشی نے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کردیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک میں انتشار اور بحران پیدا کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔ اپوزیشن نے اگر بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس سے ملک کو نقصان ہوگا اور جمہوریت کا راستہ کھوٹا ہوجائے گا۔ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس کے احتجاج سے مسئلہ حل ہوجائے گا تو وہ ضرور ایسا کرے۔ لیکن سوچ تو لیں کہ اگر ملک میں احتجاج ہوگا تو پھر ملک میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کے خیال میں اپوزیشن کو ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے جن کی وجہ سے ملکی مفادات کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اس کے ساتھہ ہی انہوں نے یہ سوال داغ کر گویا اپوزیشن کی امیدوں پر پانی ہی پھیر دیا کہ ’کیا اس احتجاج سے معیشت اور ادارے مضبوط ہوں گے؟ ‘ معیشت اور اداروں کو مضبوط کرنا صرف اپوزیشن کی ذمہ داری تو نہیں ہوسکتی۔ سیاسی بحران کی صورت میں حکومت پر اس انتشار سے بچنے کا راستہ تلاش کرنے کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوگی۔ یہی وہ پیغام ہے جو حکومت یا عمران خان کو ’بہو‘ بن کر شاہ محمود قریشی کے بیان میں سے سمجھنا ہوگا۔
سب جانتے ہیں کہ ملک کا موجودہ سیاسی انتشار اپوزیشن کی خواہش سے زیادہ اس کی مجبوری کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے کیوں کہ حکومت اور اس کے سربراہ اپوزیشن کو چوروں کا ٹولہ قرار دے کر کسی قسم کا پارلیمانی مفاہمانہ طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ عمران خان کی اس حکمت عملی پر اگر خلائی مخلوق متفق نہیں ہے تو پھر دیکھنا پڑے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں ایسا کون ہے جو اپوزیشن کے غصہ کو کم کرسکتا ہے۔ لاریب شاہ محمود قریشی کا نام گرامی زبان پر آئے گا۔
اس تناظر میں زیر بحث بیان کو ’وزیر اعظم شاہ محمود قریشی ‘ کا منشور بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے تو دوست دشمن سب اتفاق کریں گے کہ ملک کو سیاسی اتفاق رائے کی جس قدر ضرورت اس وقت ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ