تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بیچ اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ میں کسی کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں۔ بچت کے نام پر تیارکیے جانے والے اس سالانہ تخمینہ میں ہر شعبہ زندگی اور بنیادی ضرورت کی تمام اشیا پر محاصل اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
نیا بجٹ 7 کھرب 22 ارب روپے مالیت کا ہے جو سابقہ بجٹ کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔ بجٹ خسارہ کا تخمینہ 3137 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ حکومت آئندہ مالی سال کے دوران 5500 ارب روپے کے ٹیکس اور محاصل جمع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ تخمینہ بھی سابقہ بجٹ کے 4000 ارب روپے کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہے۔ حکومت گزرنے والے مالی سال کے دوران محاصل سے ہونے والی آمدنی کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس لئے یہ سوال اپنی جگہ پر جواب طلب رہے گا کہ نئے بجٹ میں آمدنی کے اہداف کیسے پورےکیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ آمدنی اور اخراجات میں بڑھتا ہؤا خسارہ کس طرح پورا ہو گا۔ ملک میں سیاسی انتشار کے علاوہ معیشت کے مختلف شعبوں میں انحطاط کے آثار ہیں۔ بجٹ سے پہلے پیش کیے جانے والے اکنامک سروے میں قومی پیداوار کی شرح میں اضافہ مقررہ ہدف کے مقابلے میں سوا تین فیصد بتایا گیا ہے۔ ملک کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی وجہ سے آئندہ برس کے دوران پیداواری صلاحیت مزید متاثر ہوگی۔ عام طور سے قیاس کیا جارہا ہے کہ جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح تین فیصد سے کم ہوجائے گی۔
بجٹ کے حجم اور آمدنی میں اضافہ کی شرح کو اگر روپے کی گرتی ہوئی قیمت اور ملک میں افراط زر کی شرح کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بڑھے ہوئے اعداد و شمار معیشت کے حجم میں حقیقی اضافہ کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والا فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس مائل بہ زوال معاشی تصویر کو اگر ملک کی آبادی میں اضافے اور اس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو عام شہری کو آئندہ مالی سال کے دوران کم وسائل میسر ہونے کی خبر دی گئی ہے جبکہ محاصل کی شرح بڑھا کر ملک کے اکثر لوگوں کے بوجھ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بجٹ ہرگز عوام دوست نہیں۔ اس سے پیدا ہونے والا بحران کسی بھی حکومت کے لئے زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے محصولات نے بجٹ پیش کرنا شروع کیا تو اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر آئے اور بجٹ تقریر کے دوران مسلسل ہنگامہ ہوتا رہا۔ وزیر اعظم عمران خان اس موقع پر ایوان میں موجود تھے تاہم بجٹ پیش ہونے کے بعد اجلاس جمعہ تک مؤخر کردیا گیا اور کسی کو تقریر کرنے یا اعتراض کرنے اور اس کا جواب دینے کا موقع نہیں ملا۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا جواب دینے کے لئے رات 9 بجے قوم سے خطاب کرنے کا اعلان کیا تاکہ وہ بجٹ کی مشکلات کے بارے میں قوم کو آگاہ کرسکیں لیکن یہ خطاب نصف شب کے بعد شروع ہو سکا۔ حالانکہ اس میں بدعنوانی اور این آر او کے بارے میں وہی پرانا تصور پیش کیا گیا ہے جو اب عمران خان کی گفتگو کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔
قوم سے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ ’میرا نیا پاکستان ریاست مدینہ کے اصول پر کھڑا ہے۔ میرے الفاظ یاد رکھو‘ پاکستان ایک عظیم قوم بنے گا ’۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ کہاں ہے تمہارا نیا پاکستان؟ تو سمجھنا چاہیے کہ مدینہ کی ریاست بھی پہلے دن سے خوشحال نہیں تھی۔ بلکہ اسے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا گیا تھا۔ آج عدالتیں آزاد ہیں۔ نیب کا چئیرمین ہمارا نہیں ہے۔ ہم نے کسی کو مقرر نہیں کیا۔ یہ نیا پاکستان ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ آہستہ آہستہ تمام ادارے خود مختار ہوجائیں گے۔ نیب کے تمام مقدمے پرانے ہیں۔ جب پاناما کیس سامنے آیا یا شہباز شریف کے خلاف مقدمے بنے تو ہم اقتدار میں نہیں تھے۔ تو اب اپوزیشن کیوں شور مچاتی ہے؟ میری غلطی صرف یہ ہے کہ میں دباؤ میں نہیں آتا اور انہیں این آر او نہیں دیتا۔ کیوں کہ ملک پہلے ہی دو این آر او کی وجہ سے قرضوں میں ڈوبا ہے۔ لوگ چلاتے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف جیل میں ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے رہے ہیں۔ نواز شریف نے زرداری کو دو بار قید کیا تھا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو کیسے چلایا جائے۔ ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ این آر او ہی کی دین ہیں‘ ۔
ان الفاظ کے ساتھ وزیر اعظم نے نئے محاصل، بجٹ کے خطرناک خسارہ اور قومی پیداوار میں افسوسناک کمی جیسے مسائل سے گھبرائے ہوئے پاکستانی عوام کو ’اعتماد‘ میں لینے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن کے سیاسی لیڈر ہوں یا اقتصادی ماہرین، اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان گو کہ کبھی بھی معاشی لحاظ سے بہتری کی طرف گامزن نہیں تھا تاہم جس ابتری و بدحالی کا مظاہرہ گزشتہ دس ماہ کے دوران دیکھنے میں آیا ہے، اس کا بنیادی سبب حکومت کی نا اہلی، بدعملی، ہٹ دھرمی اور سیاسی و معاشی مسائل کو سمجھنے کی استطاعت سے محرومی ہے۔ البتہ قومی اسمبلی میں نہایت تشویشناک بجٹ دستاویز پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں سیاسی مخالفین کی بدعنوانی کے قصے اور مدینہ ریاست کا خواب دکھا کر عوام کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے۔ مقبول سیاست کا یہ نسخہ عمران خان نے ازبر کیا ہؤا ہے کہ عوام کو متاثر اور مسحور کرنے کے لئے مذہب کے نام پر ان کا جذباتی استحصال کیا جائے اور غصہ نکالنے کے لئے کوئی ولن پیش کردیا جائے تاکہ حکومت اور اس کا لیڈر عوام کے غیظ و غضب سے بچا رہے۔
اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے گا کہ کہ عمران خان اپنی جذباتی تقریر وں سے بھوکے عوام کو کب تک مسلسل فریب میں مبتلا رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔ تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران جس تسلسل سے حکومت کو اس کی معاشی اور سیاسی حکمت عملی کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے، حکومت نے اسی شدت سے اسی راستے پر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے آصف زرداری اور بجٹ پیش کرنے سے چند گھنٹے پہلے حمزہ شہباز کی گرفتاری جیسے واقعات اور ان پر حکومت کے وزرا کے زور دار بیانات سے کبھی تو یہ شبہ بھی ہونے لگتا ہے کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ باقی سب لوگ غلط ہوں اور کپتان ہی درست اندازہ قائم کر رہا ہو۔
یوں بھی عمران خان نے اب روحانی معاملات میں بھی دسترس حاصل کرلی ہے۔ وہ 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر عملی طور سے ناممکن کو ممکن بنانے کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ مخالفین تو اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن موجودہ حکومت کے سر پر سایہکیے ہوئے عسکری قیادت تو پوری طرح عمران خان کے وجدان اور ان کے خواب کے سچا ہونے پر اعتبارکیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں کمی کو بھی نہایت خوش دلی سے قبول کرلیا گیا اور اب ملک کی تمام اپوزیشن کے ساتھ براہ راست جنگ کے طریقہ کو بھی حکومت کی درست حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے۔
ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ سیاسی بے چینی اور معاشی اضطراب کے ماحول میں نہ پیداوار بڑھے گی، نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور نہ ہی حکومت کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا۔ لیکن عمران خان نے آج قوم کے نام اپنے خطاب میں ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے، جہاں چئیرمین نیب خودمختار اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اسی لئے حکومت جسٹس (ر) جاوید اقبال کی اخلاق باختگی کی ٹھوس شکایات کے باوجود ریفرنس بھیجنے پر آمادہ نہیں ہے اور ایک ایسے جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں دیر نہیں کی گئی جو اپنی پیشہ وارانہ لیاقت اور غیر جانبداری و جرات کی وجہ سے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے ملک بھر کے وکیل اس معاملہ پر سیخ پا ہیں۔ تاہم جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں تو محض ایک ریفرنس کی بنیاد پر تو ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی ’لیاقت اور خودمختاری‘ کا امتحان لینے کے لئے یہ ’مشکل امتحانی پرچہ‘ اسے روانہ کیا ہو۔
اس پرچہ کا جواب تو 14 جون کو سامنے آجائے گا لیکن گزشتہ دو روز کے واقعات اور آج بجٹ پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے انتخابی ریلی نما لب و لہجہ میں قوم سے خطاب سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سیاسی پنڈتوں کے سارے اندازے الٹے پڑ رہے ہیں۔ سول ملٹری اتحاد و اشتراک کا جو مظاہرہ قوم کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، مختصراً اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’تمام سابقہ قیادت کو غیر مؤثر کیا جائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں بدعنوانی کے مقدمات میں طویل سزائیں دلوا کر منظر سے غائب کردیا جائے۔ خاندانی سیاست کرنے والے نوجوان لیڈروں کو بھی مسترد کیا جائے۔ سیاست کو ان سے بھی پاک کرنا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ ان عناصر سے جان چھوٹ گئی تو ملک میں خود ہی سکون و اطمینان کی فضا واپس آجائے گی۔ پھر ترقی کا گھوڑا پوری رفتار سے دوڑنے لگے گا‘ ۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت، 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح بار بار ہارنے کے باوجود مقابلے میں جگہ بنائے رکھنے کی کوشش اور انتظار میں ہے۔ اسے امید ہے کہ ابتدائی آٹھ میچوں میں نصف ہارنے کے باوجود اسے فائنل کھیلنے اور جیتنے کا موقع مل جائے گا۔
عام لوگ یا مبصرین خواہ کرکٹ کی اس انہونی کو سیاست میں ممکن نہ سمجھتے ہوں لیکن ایک پیج والی قوتوں کو پورا بھروسہ ہے کہ عمراں خان کا عقل کل ہونے کا دعویٰ شک و شبے سے بالا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ