وزیر اعظم عمران خان تین روزہ دورہ پر براستہ دوحہ امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ وہاں پر تین مصروف دن گزاریں گے اور سوموار کو وہائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بالمشافہ گفتگو بھی کریں گے۔ اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات کو ابتدائی اور پہلی ملاقات بتایا گیا ہے جبکہ دوسری تفصیلی ملاقات کیبنٹ روم میں ہوگی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ دونوں طرف سے حکام بات چیت میں شریک ہوں گے۔ اس لئے اوول آفس کی ملاقات کو رسمی اور فوٹو سیشن کے لئے سجایا گیا اسٹیج بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
موجودہ پاکستانی حکومت نے گزشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا خیال ہے کہ وہ براہ راست بات چیت میں پاکستان کے ساتھ صدر ٹرمپ کی غلط فہمیوں کو دور کرسکتے ہیں اور انہیں اس خطہ کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرلیں گے۔ تاہم خبروں کے مطابق صدر ٹرمپ کو پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات پر راضی کرنے کے لئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کشنر کے ساتھ اپنی دوستی کے ذریعے صدر ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کیا۔
اس حوالے سے ری پبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست درخواست کی تھی کہ وہ پاکستانی وزیر اعظم کو واشنگٹن کا دورہ کرنے کی دعوت دیں۔ لنڈسے گراہم نے جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وہ عمران خان سے ہونے والی ملاقات سے متاثر ہوئے تھے۔ ملاقات کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر صدر ٹرمپ کبھی عمران خان سے ملیں اور وہ باتیں سنیں جو انہوں نے مجھ سے کی ہیں تو میرا خیال ہے کہ ان کی اس خطے میں دلچسپی بڑھ جائے گی‘ ۔
اس دورہ کو حقیقت بنانے کی وجہ کوئی بھی ہو لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان طالبان اور امریکی مندوب کے درمیان امن مذاکرات کا تسلسل اس دورہ کی بنیادی وجہ بنا ہے۔ افغانستان کے امن مذاکرات میں افغان طالبان کو مختلف امریکی شرائط ماننے پر آمادہ کرنے کے لئے پاکستان کی صلاحیت اور اس سے باندھی جانے والی توقعات ہی دراصل دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان اس اعلیٰ سطحی ملاقات میں بحث کا بنیادی نکتہ ہوں گی۔ ملاقات کی کامیابی یا خوشگوار ہونے کا تعلق بھی اسی بنیادی نکتہ سے ہو گا کہ پاکستانی وفد کتنی تفصیل اور گرمجوشی سے اس معاملہ پر اپنی خدمات فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا تا ہے۔ اس لئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی وزیر اعظم کے وفد میں شمولیت حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ افغانستان کے معاملات میں حکمت عملی اور اثر و رسوخ کا دارو مدار پاک فوج کی قیادت پر ہی ہے۔
عمران خان کے دورہ امریکہ سے ایک روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات اور وزیر اعظم کے دورہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے شاندار الفاظ میں خوشنما تصویر بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ شاہ محمود قریشی کی باتوں کی روشنی میں پاک امریکہ تعلقات اور عمران ٹرمپ ملاقات کو پرکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ملکوں نے اختلافات کو بھلا دیا ہے اور عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت اور ویژن کی بدولت ایسے اقداماتکیے ہیں کہ امریکہ کا انتہا پسند اور ہر دم بھڑک اٹھنے والا صدر بھی پاکستانی لیڈر سے ملاقات کا مشتاق ہؤا۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول ’اب پالیسی بدل چکی ہے اور پاک امریکہ تعلقات سفارتی تنہائی سے دعوت تک پہنچ چکے ہیں‘ ۔ ان باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ جیسے وزیر اعظم اور امریکی صدر کی ملاقات بجائے خود ہی کوئی مقصد ہو۔ حالانکہ اس دورہ اور صدر ٹرمپ کے ساتھ عمران خان کی ملاقات کو ان نتائج سے پرکھا جائے گا جو اس دورہ کے بعد سامنے آسکیں گے۔
شاہ محمود قریشی کی خوش بیانی کے مقابلے میں اگر عمران خان کے دورہ امریکہ کو چند روز پہلے گوجرانوالہ میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی گرفتاری پر امریکی صدر کے تبصرے کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کی ازحد خواہش پر ہو رہا ہے اور امریکی صدر اسے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور علاقے میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بدستور یہ مانتے ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے ہی افغانستان اور علاقے کے دیگر امور پر پاکستان کو ’راہ راست‘ پر لایا جاسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حافظ سعید کی گرفتاری کو امریکہ کی دس سالہ جد و جہد کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’گزشتہ دو سال میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ذبردست دباؤ کے سبب یہ گرفتاری ممکن ہوئی ہے‘ ۔ پاکستانی حکومت نے ٹرمپ کے اس سخت بیان کو اپنی سفارتی کامیابی اور توصیف سمجھتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بارے میں متبادل مؤقف سامنے نہ آنے کی صورت میں امریکی صدر کی رائے کو ہی درست تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس دورہ کو ممکن بنانے اور مختلف شعبوں میں پاکستانی مفادات کے خلاف ٹرمپ حکومت کی طرف سے روڑے اٹکانے کی حکمت عملی کو تبدیل کروانے کے لئے حافظ سعید کو گرفتار کرنا ضروری خیال کیا گیا تھا۔ اس گرفتاری کو پاکستان کی ’سفارتی کامیابی‘ کی قیمت بھی کہا جاسکتا ہے۔
گزشتہ سال نومبر تک پاکستان اور امریکہ کے درمیان علی الاعلان ضد اور مخاصمت کا رشتہ استوار تھا۔ اس وقت امریکی صدر نے متعدد ٹوئٹ پیغامات میں پاکستان پر امریکی امداد کے بدلے میں دھوکہ دینے کے الزامات کو دہرایا تھا۔ ان ٹوئٹ پیغامات میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے لیکن انہوں نے ہمیں کبھی نہیں بتایا کہ اسامہ بن لادن وہاں ہی رہتا ہے۔ بے وقوف! ‘ ۔ ایک اور ٹوئٹ میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’اب ہم پاکستان کو اربوں ڈالر نہیں دیں گے۔
کیوں کہ وہ ہم سے رقم لیتے ہیں اور ہمارے لئے کوئی کام نہیں کرتے۔ بن لادن کا معاملہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے اور افغانستان اس کی دوسری مثال۔ وہ ان بہت سے ملکوں میں سے ایک ہے جو امریکہ سے مدد لے کر جواب میں کچھ نہیں کرتے۔ اب یہ سب ختم کیا جارہا ہے‘ ۔ عمران خان نے ان ٹوئٹ الزامات کا جواب دے کر پاکستان کی طرف سے ترکی بہ ترکی جواب دینے کی شہرت حاصل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں‘ ۔
اب یہ صورت حال یوں تبدیل ہوچکی ہے کہ صدر ٹرمپ نے دسمبر میں پاکستانی وزیر اعظم کو ایک خط لکھا اور افغان مذاکرات کے لئے مدد فراہم کرنے کی درخواست کی۔ اس کے فوری بعد افغان طالبان نے دوحہ میں امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ بات چیت شروع کردی۔ اب تک ان مذاکرات کے متعدد ادوار ہوچکے ہیں اور بظاہر یہ بات چیت کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم نہ امریکہ ابھی تک غیر مشروط طور پر افغانستان سے فوجیں نکالنے پر آمادہ ہؤا ہے اور نہ ہی افغان طالبان امریکہ کی طرف سے افغان حکومت سے بات چیت کرنے اور موجودہ افغان آئین کو تسلیم کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔ طالبان کا مسلسل مطالبہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلامی آئین نافذ ہوگا۔
صدر ٹرمپ کو اگلے سال نئے انتخاب کا سامنا ہے۔ اس موقع پر وہ اپنے ووٹروں کو رجھانے کے لئے افغانستان سے امریکی افواج کی مکمل واپسی کا ’تحفہ‘ دینا چاہتے ہیں۔ امریکی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت اس سلسلہ میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان امریکہ سے قرض یا امداد نہیں مانگے گا لیکن پاکستانی وفد افغان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لئے امریکی عسکری امداد کی جزوی بحالی کے امکانات کو ضرور ٹٹولے گا۔ یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی رکی ہوئی رقوم ادا کی جائیں۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی بھارتی کوششوں کا سدباب کرنے کے لئے امریکی تعاون حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
یہ دورہ دو ممالک کے درمیان سرد مہری ختم کرنے کا اشارہ تو ہے لیکن اس کی کامیابی یا پاکستان کے لئے مثبت نتائج کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پاکستانی فوجی لیڈر افغان مذاکرات کے حوالے سے اپنی پٹاری سے کون سا نیا شعبدہ باہرنکالتے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)