چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈی والا کے خلاف سینیٹ میں پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریکیں ناکام ہو گئی ہیں۔ تاہم ان دونوں قراردادوں پر ہونے والی رائے شماری نے سینیٹ میں حکومت کی طاقت کا پول کھولنے کے علاوہ اس کی اخلاقی پستی کو بھی آشکار کیا ہے۔
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 104 رکنی سینیٹ میں 36 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے سینیٹرز کی تعداد 67 ہے۔ ان میں سے دو سینیٹرز کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جس نے رائے شماری سے پہلے ہی ان قرار دادوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور اس کے سینیٹرز اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری تنویرملک علالت کے سبب بیرون ملک ہیں اور وہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ کل ایک سو سینیٹرز اجلاس میں موجود تھے جن میں سے اپوزیشن کے مجموعی طور پر 64 ارکان تھے جنہوں نے پریذائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف کے استفسار پر کھڑے ہو کر چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت اور تائید کی۔
اس کے بعد سینیٹ رولز کے مطابق خفیہ رائے شماری میں چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لئے راجہ ظفر الحق کی پیش کی گئی قرار داد کو 50 ووٹ ملے جبکہ قرارداد کی مخالفت میں 45 ووٹ ڈالے گئے۔ 5 ووٹ کسی نہ کسی نقص کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے۔ یوں صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد عدم اعتماد کو ایوان کی اکثریت یعنی 53 ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ اس لئے یہ قرارداد ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد اسی طریقہ کے مطابق قائد ایوان شبلی فراز کی طرف سے صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی قرار داد کی ضد میں ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈی والا کے خلاف پیش کی گئی قرار داد پر رائے شماری ہوئی۔ اپوزیشن نے اپنی قرارداد مسترد ہونے کے بعد رائے شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حاضر ارکان میں سے صرف 32 سینیٹرز نے سلیم مانڈی والا کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت کی۔ اس طرح یہ قرارداد بھی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
چئیر میں سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ناکام تحریک اس حوالے سے بھی یادگار رہے گی کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کے چئیرمین کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ قرارداد صادق سنجرانی کے خلاف کسی ذاتی شکایت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اپوزیشن نے گزشتہ ماہ حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں پر احتجاج کرنے کے لئے چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے اور اپوزیشن کے میر حاصل بزنجو کو نیا چئیرمین منتخب کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس حقیقت کے علاوہ کہ سینیٹ میں اس سے پہلے کبھی چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی گئی تھی، یہ تحریک کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی۔ اپوزیشن کو سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے اور اپنی مرضی کا چئیرمین لانا اس کا حق بھی ہے۔ تاہم گزشتہ سال مارچ میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیاسی حساب برابر کرنے کے لئے صادق سنجرانی جیسے غیر معروف سینیٹر کو تحریک انصاف کے ساتھ مل کر منتخب کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
سنجرانی بلوچستان کی سیاست سے مسلم لیگ (ن) کو باہر نکالنے کے لئے کی گئی سازشوں کے بعد آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد اور عمران کی کی ناکام اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن کی دوسری سیاسی جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی مایوسی اور پریشانی لاحق ہے۔ حکومت کی سخت گیر حکمت عملی کی وجہ سے آصف زرداری اس وقت نیب کی حراست میں ہیں جبکہ نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں 7 سال کی قید بھگت رہے ہیں۔
اپوزیشن کی طرف سے احتجاجاً صادق سنجرانی کے خلاف تحریک لانے کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان نے چئیرمین سینیٹ سے ملاقات کی اور انہیں اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلایا۔ یہ معاملہ صرف اخلاقی اور اصولی حمایت تک محدود نہیں رہا بلکہ سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز کی قیاد ت میں اپوزیشن کو ناکام بنانے کو مشن بنا لیا گیا۔ وزیر اعظم نے اس غیر معمولی منصوبہ کی مکمل حمایت کی اور اپوزیشن کے سینیٹرز کو اپنی اعلانیہ پوزیشن کے برعکس ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔
یہ معلومات تو ابھی سامنے نہیں ہیں کہ اس لین دین میں کیا سودے بازی ہوئی اور کس کو اپنی جماعت سے بے وفائی اور عہد کی خلاف ورزی کرنے پر کیا انعام دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تاہم وفاداریاں تبدیل کرنے والے عناصر سے بھری پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ گزشتہ برس عمرا ن خان خود خیبر پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان پر سینیٹ انتخاب میں بکنے کا الزام عائد کرچکے ہیں۔ اس بار حکومت اور عمران خان کے مخالف یہ الزام عائد کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ گزشتہ روز ہی متنبہ کرچکے تھے کہ سینیٹ میں صادق سنجرانی کو بچانے کے لئے ہارس ٹریڈنگ کی جائے گی۔ آج کی رائے شماری اس شبہ کو تقویت دیتی ہے۔
سینیٹ میں چئیرمین کے تبدیل ہونے سے حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے یہ بات ناقابل فہم رہے گی کہ عمران خان نے کیوں غیر ضروری طور پر صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کو ذاتی انا کا مسئلہ بنایا اور اپوزیشن کے سینیٹرز کو تحریص یا دباؤ کے ذریعے اپوزیشن پارٹیوں کے متفقہ فیصلہ کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح اس نے اپوزیشن پر سیاسی سبقت حاصل کرلی ہے تو یہ اس کی بڑی بھول ہے۔
اپوزیشن اگر سینیٹ میں چئیرمین تبدیل کروانے میں کامیاب ہوجاتی تو یہ حیران کن واقعہ نہ ہوتا۔ سب جانتے ہیں کہ اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے جبکہ حکومتی اتحاد کو صرف 36 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم خفیہ رائے شماری میں جس طرح اپوزیشن کی اکثریت کو ’ناکافی‘ بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اس سے حکومت کی نیت، طریقہ کار اور سیاست دانوں کی اخلاقی و سیاسی حیثیت کے بارے میں متعدد سوال سامنے آئیں گے۔
حکومت کو اس کامیابی سے اپوزیشن کے خلاف چند بیان دینے کے علاوہ کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا۔ بلکہ اس پر سیاسی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ اپوزیشن جائز طریقے سے اپنا احتجاج رجسٹر کروانے میں ناکام ہونے کے بعد احتجاج اور مظاہروں کا راستہ اختیار کرے گی۔ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں اور آزادی اظہار پر سخت گیر پابندیوں کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہونا فطری ہے۔ اپوزیشن اب عوامی جذبات کو سامنے لانے کے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرسکتی ہے جس سے حکومت کو زیادہ پریشان کن صورت حال کا سامنا ہو گا۔ لیکن سڑکوں گلیوں پر ہونے والے اس تصادم میں ملک و قوم کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سینیٹ میں چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے خلاف قرار دادوں پر رائے شماری کے دوران شفاف اور دیانت دار انہ سیاست کے بارے میں حکومت کے دعوؤں کی نفی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے اور سیاسی کامیابی کے لئے کوئی بھی ہتھکنڈا اختیار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے مظاہر اگرچہ عمران خان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں کے ماضی پر نظر ڈالنے سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن سینیٹ چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد کے معاملہ پر خاموش رہنے اور پوزیشن کو غصہ نکالنے کا موقع دینے کی بجائے جس طرح حکومت نے اپوزیشن کی کوشش کو ناکام بنایا ہے اس کے بعد عمران خان سیاست میں کسی ارفع اخلاقی سطح کا دعویٰ نہیں کرسکیں گے۔
صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہو جانے کے بعد حکومت کے نمائندے ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف اپوزیشن کی ضد میں لائی گئی قرارداد واپس لے کر اپنی اخلاقی سیاسی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کرسکتے تھے۔ لیکن شبلی فراز نے یہ قرارداد پیش کرنے اور اس پر رائے شماری کو ضروری سمجھا۔ اس طرح ایک تو حکومت نے سیاسی تصادم جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے، دوسرے سینیٹ میں اس کی سیاسی قوت کا پول بھی سب کے سامنے کھل گیا ہے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد حکومت کی قرارداد کو حکمران اتحاد میں شامل تمام 36 ووٹ بھی نہیں مل سکے۔ یہ قرار داد صرف 32 سینیٹرز کی حمایت حاصل کرسکی۔
حکومت نے ایک غیر اہم معاملہ پر جوڑ توڑ اور سیاسی زور آزمائی کی۔ درجن بھر سینیٹرز نے پارٹی پالیسی اور اپنے اعلان کے برعکس ووٹ دے کر ملکی سیاسی اشرافیہ کی اخلاقی گراوٹ اور سیاست کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی حرص کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے۔ خفیہ رائے شماری میں پارٹی لائن سے انحراف کرنے والے سینیٹرز نے اپنے اعلان کے برعکس ووٹ دے کر یہ واضح کیا ہے کہ وہ ذاتی مفاد کے لئے جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ جب تک ایسے عناصر ملکی سیاست میں موجود رہیں گے، جمہوریت کا سفر مشکلات کا سامنا کرتا رہے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)