نیویارک سے واپسی پر وطن کی سچائیاں وزیراعظم کی منتظر تھیں۔ کامیاب دورے کے دوران خدمات سرانجام دینے والی سفیر ملیحہ لودھی کو اچانک فارغ کرنے کے اقدام سے ان ’سچائیوں‘ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا آغاز ہوا ہے ۔ اب نوید دی جا رہی ہے کہ وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔
ان تبدیلیوں کی وجہ تسمیہ صرف یہ ہے کہ جو بھی ڈیلیور نہیں کرے گا، اسے کابینہ میں رہنے کا حق نہیں۔ تکلف برطرف اس آئینے میں سب سے پہلے عمران خان کو خود اپنا عکس دیکھنا چاہئے۔ اگر تقریریں کرنا اور ایک خطاب کی بنیاد پر پروپیگنڈا کا طوفان بپا کرنا ہی کامیابی ہے پھر تو تحریک انصاف کی حکومت کو دنیا کی بہترین حکومت، عمران خان کو سب سے زیادہ عوام دوست رہنما اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہئے۔ لیکن کوئی کامیابی محض تقریریں کرنے یا ان کا ڈھنڈورا پیٹنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ عمران خان کو جلدہی اس سچائی کا سامنا کرلینا چاہئے کہ وہ بہت دیر تک پروپیگنڈا کے شور اور مقبولیت کے زعم میں حکومت پر اپنی گرفت برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت گرانا یا مڈ ٹرم انتخاب کروانا شاید مسئلہ کا مناسب حل نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا آشیانہ شاخ نازک پر بنا ہے ۔ ہوا کے معمولی تھپیڑے سے اس کے ڈھے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس آشیانے کی حفاظت ہر جمہور پسند کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ عمران خان چونکہ عام انتخابات میں حصہ لے کر اور لوگوں سے ووٹ مانگ کر اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس لئے انہیں بھی جمہوریت دوست سمجھنا چاہئے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہیں یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ جمہوریت کا نام لے کر آمریت مسلط کرنا اور آزادیوں کو سلب کرنا، نہ قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان ہتھکنڈوں سے کوئی منتخب لیڈر بہت دیر تک اقتدار پر تسلط برقرار رکھ سکتا ہے۔
اپوزیشن لیڈروں کے علاوہ میڈیا خاص طور سے عمران خان اور ان کی حکومت کے نشانے پر ہے۔ مزاج نازک پر گراں گزرنے والی معمولی سی خبر، تبصرے یا رائے پر پوری حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ چند روز پہلے معمول کا ایک کارٹون شائع کرنے پر انگریزی روزنامہ نیشن کو حکومت کے اس تند و سخت گیر رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبار کو اپنے ایک ادارتی فیصلہ پر معافی مانگنے اور اس کارٹون کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے پر مجبور کیا گیا۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ کارٹونسٹ خالد حسین کے کارٹون بنانے پر پابندی عائد کردی گئی۔
ہوسکتا ہے کہ حکومت کی ناراضی صرف ایک کارٹون تک ہی محدود ہو اور وہ اس کے خالق کے پیٹ پر لات مارنے کا اہتمام نہ کرنا چاہتی ہو۔ اور مستعد مالکان نے حکومت کے عتاب سے بچنے کے لئے ایسے ’نا اہل‘ کارٹونسٹ کو خود ہی اس کام سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہو جس کی تخلیق حکمرانوں کی جبیں پر شکن لانے کا سبب بنی تھی۔ تاہم اس کی ذمہ داری بہر حال حکومت پر ہی عائد ہوگی جس کے کارپرداز وزیر اعظم کے ایک معمولی خاکے کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکے۔ سیاسی مخالفین کو ہمہ قسم مغلظات سنانے کے عادی عمران خان کو ضرور غور کرنا چاہئے کہ آزادی صحافت کے خلاف اس قسم کے آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کر کے وہ کس منہ سے احتساب اور جوابدہی کی بات کر سکتے ہیں۔ حساب مانگنے والے کا اپنا دامن صاف ہونا چاہئے اور اسے ہر وقت جوابدہی اور مخالف رائے سننے کے لئے آمادہ و تیار رہنا چاہئے۔
عمران خان مثالی جمہوریت کے لئے برطانیہ کی مثال بڑے شوق سے دیتے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم بورس جانسن کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اور اخبارات جس طرح اس کی گت بناتے ہیں، کیا عمران خان پاکستان میں میڈیا کو ایسی ہی آزادی دینے اور اس حق کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں؟ عمران خان کی حکومت تو ان کے اپنے ہی کزن، دوست و سابق دست راست حفیظ اللہ نیازی کی تنقید برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ جس طرح عمران خان کی جنرل اسمبلی میں بلند آہنگ تقریر دنیا کی سیاست کا رخ نہیں بدل سکتی، اسی طرح ان کے خلاف ان کے کزن کی تلخ باتیں حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ پھر بھی حکومت کی شہ پر پاکستان الیکٹرانک اتھارٹی (پیمرا) نے حکم جاری کیا ہے کہ ’ناروا ‘ گفتگو کرنے پر ایک ماہ تک حفیظ نیازی کسی ٹی وی چینل پر کسی پروگرام میں شامل نہیں ہوسکتے۔ جس پروگرام میں کی گئی گفتگو پر حفیظ نیازی کو یہ سزا دی گئی ہے، وہ چونکہ جیو نیوز پر ٹیلی کاسٹ ہؤا تھا لہذا اس چینل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر حفیظ اللہ نیازی کی ’غلط بیانی‘ کی معافی مانگے ۔ بصورت دیگر چینل کو دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔
عمران خان غور فرمائیں۔ ان کی حکومت کے ایک ادارے نے وزیر اعظم کی شان میں گستاخی کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ اس مضحکہ خیزی سے یہ سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ مخالف آوازوں کو دبایا تو نہیں جا سکتا لیکن نظام کے اہلکاروں کو اس کام پر لگا کر خود اپنا مذاق بنوانے کا اہتمام ضرور کیا جا سکتا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی نے ہو سکتا ہے ایسی باتیں کہی ہوں جو واقعاتی لحاظ سے درست نہ ہوں لیکن ان کی تردید کر کے یا اس گفتگو کو نظر انداز کر کے وزیر اعظم اپنی جمہوریت پسندی اور اس حوصلہ مندی کا ثبوت دے سکتے تھے کہ وہ اختلاف رائے کو سننے کا وہی حوصلہ رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ ان کے برطانوی ہم منصب کو مجبوراً یا سیاسی تربیت کے طور پر کرنا پڑتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت ایک طرف معاشی اور سیاسی طور سے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام ہو رہی ہے اور بہتری کا کوئی روڈ میپ بھی سامنے لانے میں ناکام ہے تو دوسری طرف اس پر میڈیا کی بندش اور آزادی رائے کو محدود کرنے کا سنگین الزام عائد ہو رہا ہے۔ ملک میں ہزاروں صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں۔ آج ہی ملتان سے روزنامہ دنیا کو بند کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے درجنوں صحافیوں اور سینکڑوں دیگر کارکنوں سے روزگار کا وسیلہ چھین لیا گیا ہے۔ ایک سرمایہ دار گروپ کی طرف سے یہ عذر تراشنا آسان ہے کہ کوئی ادارہ مالی لحاظ سے منفعت بخش نہیں تھا لیکن جمہوریت کے نام پر کام کرنے والی حکومت کے لئے اخباری کارکنوں کے خلاف یہ ظلم کرنے والے سرمایہ داروں کی سرزنش نہ کرنا اور حالات کار کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنا خوش آئیند نہیں ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مختلف واقعات کا سہارا لے کر عمران خان کی مقبولیت برقرار اور اس کا گراف اونچا رکھنے کے لئے میڈیا مینیجمنٹ اور انٹرنیٹ مہم جوئی سے کام لیا جارہا ہے۔ پہلے چھے ماہ تو سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانی کا ذکر کرکے اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا۔ حالانکہ مقدمے نیب قائم کر رہا تھا اور ان پر فیصلے عدالتوں کو کرنا ہیں۔ البتہ حکومت نے سیاسی مفاد کے لئے احتساب کے اس عمل کی اونر شپ لے کر، اسے اس حد تک مشکوک اور جانبدار بنا دیا ہے کہ اب ملک کے چیف جسٹس بھی اسے داغدار کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اور جیلوں میں بند سیاست دان ضمانت کروانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر عمران خان اس صورت حال کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں تو انہیں اپنے میڈیا مشیروں کی اہلیت اور وفاداری پر شبہ کرنا چاہئے۔
کرپشن اور این آر او کے نعروں کا بخار کچھ دھیما پڑا تو جولائی میں دورہ امریکہ اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف قرار دے کر کپتان کی سفارتی مہارت، اعتماد اور انگریزی دانی کا سکہ جمانے کی مہم شروع کردی گئی۔ اگست میں نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے جابرانہ اقدام اور کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کرنے کی حکمت عملی کے بعد بھارت اور مودی کے خلاف جذباتی کیفیت کو عمران خان کو اونچا اڑنے کا ماہر ثابت کرنے کا مفید مطلب آلہ سمجھا جا رہا ہے۔
جنرل اسمبلی کی تقریر ہو یا اس پر توصیف کے ڈونگرے برسانے کا جوش و خروش، کیا حکومت اور وزیر اعظم یہ سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ اقوام متحدہ سے واپسی کے ایک ہی روز بعد یو این او میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو ہٹانے سے کیا تاثر قوی ہو گا؟ یہی کہ ملیحہ لودھی وزیر اعظم کا دورہ اقوام متحدہ حسب توقع مینیج نہیں کرسکیں اور موجودہ مشکل اور پیچیدہ سفارتی بحران میں مناسب کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں۔ یعنی وزیر اعظم کا دورہ ان کی امیدوں کے مطابق کامیاب نہیں رہا۔
عمران خان اپنی حکومت کے اس ’افلاطون‘ کو تلاش کریں جو ان سے اس قسم کے فیصلے کرواتا ہے۔ ان کی ناکامی ثابت کرنے کے لئے مخالفین کی کیا ضرورت ہے؟ ملیحہ لودھی برطرف، حفیظ اللہ نیازی پابند… ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا…
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)