کئی ماہ کے اندازوں اور قیاس آرائیوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج صبح افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس تقریر میں بیان کی گئی باتوں سے بعض واضح نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ 16 برس پرانی اس جنگ کو ختم کرنے اور افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے تقریر میں اس تبدیلی قلب کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ صدر بن کر حالات کو دیکھنا اور فیصلہ کرنا مختلف تجربہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسروں کی جنگ نہ لڑنے کے عزم کا اعلان کرنے والے صدر نے افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ انہوں نے اس کی تعداد کا اعلان نہیں کیا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ایسے معاملات میں قبل از وقت اعلان کرنے سے دشمن چوکنا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اسے حیران کرنے اور اصل حکمت عملی کو پوشیدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ صدر ٹرمپ کی سادہ لوحی کہی جائے گی کیونکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ خبریں سامنے آ رہی تھیں کہ امریکہ مزید 4 ہزار فوجی افغانستان بھیجے گا۔ اب پینٹا گون کے ذرائع یہ تعداد 3900 بتا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ امریکہ جو جنگ ایک لاکھ فوجیوں کی مدد سے جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا، اس میں چند ہزار مزید فوجی بھیجنے سے کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کا اعتراف حقیقت دراصل یہ نکتہ سامنے لاتا ہے کہ امریکہ کی صدارت پر فائز ہونے والا شخص بھی خواہ اس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہو اور وہ ضدی اور منہ زور بھی ہو واشنگٹن کی بیورو کریسی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پر مارنے کی تاب نہیں رکھتا۔ اسے وہی کرنا ہوگا جو فوج کے طاقتور حلقے ضروری سمجھتے ہیں۔ سابق صدر باراک اوباما نے 2008 میں پہلی بار صدر بننے کے بعد سب سے پہلے گوانتاناموبے کا قید خانہ بند کرنے اور اسیر قیدیوں کو مختلف ملکوں میں منتقل کرنے کے حکم نامہ پر دستخط کئے تھے۔ اس سال جنوری میں جب وہ صدارت کے منصب سے سبکدوش ہوئے تب بھی گوانتاناموبے کا عقوبت خانہ پوری طرح بند نہیں کیا جا سکا تھا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے انتخاب سے پہلے جو بھی دعوے کئے ہوں اور وہ امریکی معیشت کو ترقی دینے کےلئے خواہ بیرون ملک فوجی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بارے میں کیسی ہی خواہش کیوں نہ رکھتے ہوں، وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ افغانستان کی جنگ بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ کوئی امریکی صدر قومی اتفاق رائے پیدا کئے بغیر اسے ختم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن کسی بھی صدر کےلئے خواہ وہ کیسا ہی درشت رویہ رکھتا ہو اور کتنے ہی خطرناک اقدامات کرنے کا یقین دلاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جنگ کو جیتنا بھی ممکن نہیں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو افغان پالیسی پر کی جانے والی تقریر میں یہ جواب دینے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ آخر اس جنگ میں کامیابی سے وہ کیا مراد لیتے ہیں۔ ان کا گلہ ہے کہ پاکستان ان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے جو امریکیوں کو ہلاک کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ تو پاکستان کو دھمکیاں دینے کی بجائے امریکہ کو اپنے فوجی افغانستان سے واپس بلا لینے چاہئیں۔ اس طرح وہ بے مقصد افغان جنگ میں ہلاک نہیں ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں لیکن وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ بلکہ افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے سب سے بڑے حامی اپنے معاون خصوصی سٹیو بینن کو وہائٹ ہاؤس سے رخصت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ امریکہ یہ جنگ جیتنا چاہتا ہے یا اسے جیت سکتا ہے۔ افغانستان سے فوجیں نکالنے کے حامیوں کی طرح وہاں فوج تعینات رکھنے والے ماہرین، سیاستدان اور فوجی لیڈر بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ اسی طرح افغانستان کو خوشحالی اور جمہوریت کے سفر پر گامزن کرنا بھی ٹرمپ کا مقصد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ان کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ آج صبح کی گئی تقریر میں خود ہی واضح کر چکے ہیں کہ دور دراز ملکوں میں جمہوریت لانا ان کا مقصد نہیں ہے۔ وہ صرف دہشت گردوں کو مارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن افغان طالبان ان معنوں میں دہشت گرد نہیں ہیں کہ وہ بہرطور امریکہ یا مغربی ممالک میں دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں یا کسی مغربی ملک میں خلافت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوں۔ جیسے دعوے شام و عراق کے گروہ داعش کی طرف سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ طالبان کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے البتہ وہ افغانستان کی حکومت کو ناکام بنانے کےلئے دہشت گردی کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ معصوم انسانی جانوں کو ضائع کرتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کا اصل مسئلہ تو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔ پھر وہ افغانستان کی جنگ کیوں جیتنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک نعرہ ہے جو دنیا بھر کے علاوہ امریکی عوام کو فریب دینے کےلئے لگایا جاتا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی بہانے افغانستان میں فوجی موجودگی چاہتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت امریکی فوج کو افغانستان میں قبول نہیں کرے گی۔ اس لئے امریکہ کابل میں وہی حکومت برقرار رکھنے پر اصرار کرتا ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے اور اسے اس ملک میں فوجی کارروائی کا حق دیتی رہے۔ وسطی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے امریکہ، افغانستان میں فوجی اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو صدر اشرف غنی کی طرح طالبان بھی امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے امریکی صدر کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ عالمی سفارت کاری میں وسیع تجربہ رکھنے والے اشرف غنی کیا نہیں جانتے کہ مزید چند ہزار فوجی ان کے ملک کو محفوظ نہیں بنا سکتے۔ اگر وہ اپنے ملک میں امن بحال کرنا چاہتے ہیں تو وہ امریکہ سے درخواست کریں کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلا لے اور ملکی معاملات سے افغان حکومت اور عوام کو نمٹنے دیا جائے۔ طالبان ایسی صورت میں فوری طور پر مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں گے۔ طالبان کا مسئلہ اقتدار کا حصول ہے۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ جان گئے ہیں کہ اب شاید افغانستان میں تن تنہا حکومت کا خواب پورا نہ ہو سکے۔ اسی لئے وہ شراکت اقتدار پر بھی راضی ہیں۔ کابل کے حکمران جانتے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کو اقتدار میں حصہ دینا پڑے گا۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ان گروہوں اور افراد کےلئے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس طرح وہ ان اربوں ڈالر سے محروم ہو جائیں گے جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر افغانستان وصول کرتا ہے اور جنہیں بدعنوان سیاستدان مختلف وار لارڈز اور مافیا گروہوں کی مدد سے مل کر خرد برد کرتے ہیں۔ امریکی فوج واپس چلی گئی تو طالبان کو شریک اقتدار کرنے کے علاوہ اس کثیر امداد سے بھی محروم ہونا پڑے گا جس کے سہارے ملک میں لوٹ کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ اشرف غنی ہوں یا عبداللہ عبداللہ ، وہ ایسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔ اسی لئے نہ افغانستان میں امن قائم ہوگا اور نہ امریکی افواج وہاں سے نکالی جائیں گی۔
اس خطے میں روس اور چین کے علاوہ ایران کا اثر و رسوخ اور مفادات بڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ دس برس کے دوران زمینی حقائق میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس لئے یہ بات حیرت کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں تند و تیز جملوں پر اسلام آباد نے تو اپنا ردعمل نہیں دیا لیکن بیجنگ نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ اب اس خطہ میں غیر متعلق ہو چکا ہے۔ تاہم اپنے وسائل اور طاقت کے زور پر وہ افغان سرزمین پر موجود رہنا چاہتا ہے۔ تاکہ اس خطہ پر روس اور چین کے ساتھ وہ بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتا رہے۔ ایسے میں جنگ کا خاتمہ اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکی فوج کو افغانستان میں قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی یہی اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ اعلان ڈرامائی انتظار کے بغیر بھی کیا جا سکتا تھا۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران بار بار افغناستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی جائزہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پھر جولائی میں نئی پالیسی سامنے لانے کا اعلان ہوا۔ اس اعلان میں کئی بار تاخیر کی گئی اور ایک ہفتہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے حوالے سے سنسنی خیزی پیدا کی جا رہی تھی۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ٹرمپ نے بالآخر اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے دیرینہ پالیسی جاری رہے گی۔
پاکستان کو متنبہ کرنا اور اس کی امداد بند کرنے کا دعویٰ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ کسی امریکی صدر نے پہلی بار براہ راست پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ سنگین نتائج کی دھمکی رہی سہی فوجی و معاشی امداد بند کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم اس صورت میں افغانستان میں امریکی و اتحادی فوج کو رسد کی فراہمی میں پاکستان بھی اس طرح تعاون نہیں کرے گا جو وہ اب تک کرتا رہا ہے۔ پاکستان راہداری کی صورت میں محاصل کا تقاضہ کرکے امریکی امداد کے نقصان کو پورا کر سکتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی فوج سرحدی علاقوں میں پاکستان کے اندر کارروائی کر سکتی ہے۔ تاہم یہ ہتھکنڈے صرف دباؤ ڈالنے کےلئے ہوں گے تاکہ امریکی عوام کو چند برس بعد بتایا جا سکے کہ امریکہ تو ناکام نہیں ہوا۔ بس پاکستان کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ افغانستان میں امن بحال نہیں کر پایا۔ امریکہ کےلئے پاکستان سرحدوں پر حملے کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اول تو اسے پھر پاک فوج سے براہ راست مقابلہ کرنا پڑے گا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بڑی حد تک دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرکے وہاں حملے کرنے کا جواز ختم کر دیا گیا ہے۔
(بشکریہ:کارواب۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ