پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی اس پریس کانفرنس سے دو نہایت عمدہ پیغامات برامد ہوئے جو 21 اگست 2017 کی سہ پہر راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔
میجر جنرل آصف غفور نے گرفتار ہونے والے دو مبینہ دہشت گردوں کے اعترافی بیانات کی وڈیو دکھائی۔ دونوں دہشت گردوں نے بتایا کہ انہیں کافی عرصہ پہلے راولپنڈی لایا گیا تھا۔ 2013 میں عاشورہ 10 محرم کے موقع پر انہیں راجہ بازار میں مسجد پر حملہ کرنے کا حکم ملا۔ انہیں سیاہ لباس پہنایا گیا تا کہ حملہ آوروں کو شیعہ مسلمان سمجھا جائے اور اشتعال پھیلا کر فرقہ وارانہ قتل و غارت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ عین اس وقت جب عاشورہ کا جلوس مسجد کے قریب بہنچ چکا تھا، دہشت گردوں نے اہل سنت مسلمانوں کی مسجد میں گھس کر حملہ کر دیا۔ کئی افراد شہید ہوئے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اس حملے کا مقصد پاکستان میں فرقہ وارانہ نفرت کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ مقصد پورا نہ ہو سکا۔
اس پریس کانفرنس کے نتیجے میں ایک واضح اور خوشگوار پیغام پاکستان کے بدخواہوں کو جائے گا کہ پاکستان کی ریاست کا کوئی حصہ فرقہ وارانہ سوچ نہیں رکھتا۔
اسی پریس کانفرنس میں ایک موقع پر فوج کے ترجمان نے پاکستان کے مسلمان اور غیر مسلمان شہریوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سب کا ہے۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ جن شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے وہ اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کہ کوئی مسلمان شہری۔ میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان کو ایک مسلمان ملک قرار دیا۔ انہوں نے ان 59 غیرمسلم پاکستانیوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے دفاع وطن کی خاطر جان قربان کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے ایک طاقتور ریاستی ادارے کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر امتیاز، تفریق اور تفرقے کی گنجائش نہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا ” پاکستان پوری قوم کا ہے، ہم سب پاکستانی ہیں اور مل کر ملک کا دفاع کریں گے”۔
آج کل امریکا میں مذہب، نسل، ثقافت اور رنگ کی بنیاد پر نفرت، تعصب اور تفرقے کی بحث زوروں پر ہے۔ حیران کن طور پر پرتگال میں 18 برس قبل بنائی جائے والی ایک مختصر اشتہاری فلم بے حد مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ 56 سیکنڈ کی اس فلم کا عنوان ہے “ذلیل کون؟”
ایک گوری خاتون ہوائی جہاز میں داخل ہوتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ والی نشست پر ایک سیاہ فام نوجوان مسافر پہلے سے بیٹھا ہے۔ سفید فام عورت نفرت سے منہ پھیر کر ایر ہوسٹس کو بلاتی ہے اور اپنی نشست تبدیل کرنے کے لئے کہتی ہے۔ ایر ہوسٹس اسے بتاتی ہے کہ اکانومی کلاس کی نشستیں بھر چکی ہیں تاہم وہ جہاز کے کپتان سے بات کرتی ہے۔
دیکھنے والا تجسس میں ہے کہ نفرت اور تعصب کے ایسے گھٹیا اظہار کو کیسے مسترد کیا جائے گا۔
دوسرے ہی لمحے ایر ہوسٹس کاک پٹ سے نکل کر معزز گوری خاتون کے پاس آتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ جہاز کے پائلٹ نے نشست تبدیل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ فرسٹ کلاس میں ایک نشست موجود ہے۔ مستعد پائلٹ نے نہایت افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کسی مسافر کو ایسے ذلیل انسان کے ساتھ سفر کرنا پڑے۔ گوری خاتون کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور وہ اٹھ کر فرسٹ کلاس کی طرف جانا چاہتی ہے مگر ایر ہوسٹس اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے نہایت ادب سے سیاہ فام مسافر سے کہتی ہے۔
“آئیے جناب۔۔۔”