ملکی سیاسی حالات کے پیشِ نظر کالم نگاروں کی موجیں ہو چکی ہیں۔ ہر لمحہ بدلتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے لکھنے والوں کے لیے اتنی آسانیاں ہو گئی ہیں کہ اب بہت سے موضوع بھی قلم کاروں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سے پاناما کیس کا فیصلہ آیا ہے۔ تب سے لے کر اب تک ہر کالم نگار، سیاست دان اور سیاسی تجزیہ کار دور کی کوڑی لاتے ہیں اور پھر بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔ اسی گھڑمس میں نئے وزیراعظم نے حلف اٹھا لیا ہے تو بے شمار لکھنے والے اب ان کے جہاز کی سیر کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسی طرح بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی پر بار بار ضمیر کو آزاد کرنے کا جو دورہ پڑتا ہے وہ بھی کئی کالم کے موضوع ہیں۔ اس کے ساتھ جاوید ہاشمی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جس طرح بدتمیزی کی اس پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی خاموشی پر ایک کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ جنوبی پنجاب کے سینئر سیاست دان ریاض حسین پیرزادہ کو وفاقی کابینہ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا یہ بھی ایک کالم بنتا ہے۔ یہ تمام موضوع اپنی جگہ پر اہم ہوں گے لیکن 3 اگست 2017ءکی دوپہر جب مَیں فیس بک پر بیٹھا اپنے بدصورت فیس کو جھوٹ موٹ کا لیپ کر کے خوبصورت بنانے کی ناکام کوشش کر رہا تھی کہ تین احباب کی ایک ہی افسوسناک پوسٹ نے مجھے افسردہ کر دیا۔ وہ پوسٹ پاکستان کے نامور سرجن پروفیسر ڈاکٹر سیّد ظفر حیدر (سابق پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور) کے انتقال کے متعلق تھی۔ مَیں نے حسب توفیق ہر پوسٹ پر ان کے درجات کی بلندی کی دُعا کی اور پھر ان کے بارے میں لوگوں کی رائے پڑھنے لگا تو معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر موجود نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ان کا اور ان کے خانوادے کا ہمارے ملک پر کتنا بڑا احسان ہے۔ وہ اپنے شعبے کے ایک ایسے فرد تھے جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق حویلی لکھا سیر والہ سے تھا۔ سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سیّد افضل حیدر ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفر حیدر کا شمار ان ڈاکٹروں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے پیشے کے وقار میں اضافہ کیا۔ وہ نشتر ہسپتال و کالج ملتان میں کم و بیش چالیس برس تعینات رہے تھے۔ اسی کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عباس حیدر نے ملتان کے ڈینٹل کالج کے قیام کے لیے کامیاب کوششیں کیں۔ یوں دیکھا جائے تو یہ تینوں بھائی ہی اپنے اپنے شعبوں میں یکتا ہیں۔ اس سب کے باوجود مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ مَیں روزانہ پانچ قومی اخبارات کے مطالعہ سے دن کا آغاز کرتا ہوں۔ اگلے دن یعنی 4 اگست کے کسی بھی اخبار میں ان کے انتقال کی سنگل کالمی خبر کو جگہ نہ ملی۔ تمام اخبارات عائشہ گلالئی اور اس طرح کے دیگر موضوعات کو خبر بنا کر اپنا قومی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی کو کیا معلوم کہ لاہور شہر سے 3 اگست کو طب کا ایک ایسا عہد رزقِ خاک ہوا جس نے اپنی مہارت کی بدولت ہزاروں لوگوں کو نئی زندگی عطا کیا۔ وہ تھائی رائیڈ سرجری کے ماہر جانے جاتے تھے۔ ملتان میں اپنے قیام کے دوران بے شمار نوجوانوں کو سرجری کی تعلیم دی۔ ان کے نمایاں شاگردوں میں یوں تو بے شمار نام ہیں جو پوری دنیا میں ان کا نام روشن کر رہے ہیں لیکن ملتان میں ان کے شاگردوں میں ایک شاگرد پروفیسر ڈاکٹر سیّد حامد علی شاہ آج کل ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹر سیّد حامد علی شاہ کی کہانی بھی پڑھ لیں۔ جب تک وہ نشتر ہسپتال میں پروفیسر تھے تو نشتر ہسپتال کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ پوری زندگی پرائیویٹ کلینک نہ کیا۔ اگر کوئی شام کو ان کے گھر چیک اپ کے لیے آ جاتا تو آتے ہی مریض کو کہتے پرائیویٹ دکھانے کیوں آئے ہو؟ صبح وارڈ میں آ جانا وہاں بھی مَیں ہی چیک اپ کرتا ہوں۔ اگر مریض ضد کرتا کہ مَیں پرائیویٹ دکھانا ہے تو پھر دریافت کرتے کہ اگر تم سرکاری ملازم ہو تو مجھ سے واپسی پر رسید لے کر جانا تاکہ تم اپنے محکمہ سے فیس کلیم کر سکو۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر حامد علی شاہ نے گزر اوقات کے لیے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کمرہ لے رکھا ہے۔ سینئر ترین سرجن ہونے کے باوجود ان کی فیس شہر کے جونیئر ڈاکٹرز سے کہیں کم ہے جبکہ دوسری جانب یہ صورت حال بھی ملاحظہ فرمائیں جب کسی مریض کا آپریشن کرتے ہیں تو شاہ صاحب دو رکعت نماز حاجب برائے صحت یابی کے بھی پڑھتے ہیں۔ کیا آج کے دور میں ایسا کہیں پر ڈاکٹر موجود ہے؟ یقینا یہ سب تربیت ڈاکٹر ظفر حیدر کی ہی ہے۔
ڈاکٹر سیّد ظفر حیدر نے اپنی پروفیشنل زندگی بہت بھرپور گزاری۔ ہر لحاظ سے انہوں نے اپنے شعبہ میں بہترین خدمات انجام دیں۔ اسلام آباد میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔ دورانِ ملازمت وہ سخت گیر استاد مشہور تھے۔ کولیگز انہیں کمانڈو سرجن کہا کرتے تھے۔ جن دنوں نشتر کالج و ہسپتال سے وابستہ تھے تو ان کے شاگردوں کی یہ جرا¿ت نہیں ہوتی تھی کہ ان کے سامنے لب کشائی کریں۔ پرائیویٹ کلینک انہوں نے کبھی نہ کیا۔ بس سرکار جو تنخواہ دیتی تھی اُسی پر گزر اوقات کیا۔ ملتان کے نامور فزیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد علی (جو اُن کے شاگرد ہیں) بتاتے ہیں جب ہم نشتر کالج میں پڑھتے تھے تو ہمیں سب سے زیادہ خوف ڈاکٹر ظفر حیدر سے آتا تھا۔ وہ کلاس میں ہوتے یا وارڈ میں ان کا ڈسپلن دیدنی تھا۔ ہر طالب علم سے ایک جیسا رویہ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے کچھ شاگردوں نے سوچا کہ ان کے استاد ڈاکٹر ظفر حیدر اپنے شاگردوں سے تو بہت سخت رویہ رکھتے ہیں تو کیا وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے ان کے چند شاگرد نشتر ہسپتال میں موجود ان کے گھر گئے تو وہاں پر ایک پیارا بچہ بے بی سائیکل چلا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ان کو ڈاکٹر ظفر حیدر کی آواز آئی تو وہ بچہ (جو بعد میں ڈاکٹر علی حیدر کے نام سے معروف ہوا) فوراً گھر چلا گیا۔ یعنی جو ڈسپلن ڈاکٹر ظفر حیدر نے کالج و ہسپتال میں قائم کر رکھا تھا وہی سب کچھ ان کے گھر میں بھی دکھائی دیا۔
ڈاکٹر ظفر حیدر اپنی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد لاہور میں پرسکون انداز میں رہ رہے تھے۔ ان کا اکلوتا بیٹا ڈاکٹر علی حیدر آئی ریٹینا سرجری میں ڈگری لے کر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا تھا۔ ہر ہفتے اپنے آبائی شہر حویلی لکھا جا کر لوگوں کا مفت معائنہ کرتا۔ وہ پاکستان کا پہلا ماہر امراضِ چشم تھا جس نے ریٹینا سرجری میں مہارت حاصل کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہاتھوں میں خوب شفا دے رکھی تھی۔ شادی بھی دنیا کے نامور نیورو سرجن ڈاکٹر افتخار علی راجہ کی بیٹی ڈاکٹر فاطمہ کے ساتھ ہوئی۔ اﷲ نے بیٹیوں جیسی اولاد کی نعمت سے نوازا۔ ڈاکٹر علی حیدر 13 فروری 2013ءکو اپنے بیٹے کو ایچی سن کالج چھوڑنے گیا تو کالج کے گیٹ کے باہر ملک دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ ڈاکٹر علی حیدر اپنے بیٹے سمیت موقع پر شہید ہو گیا اور یوں فروری کی ایک سرد صبح نے ڈاکٹر ظفر حیدر سے ان کی اکلوتی اولات کا چراغ گل کر دیا۔ ڈاکٹر ظفر حیدر کے گھر سے بیک وقت دو جنازے اٹھائے گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ظفر حیدر اپنے شہید بیٹے اور شہید پوتے کے جنازے پر صرف رسول اکرم کو پکارتے رہے:
واہ محمدا – واہ محمدا
ڈاکٹر محمد علی ملتان سے ان کے شہداءکی تعزیت کے لیے لاہور ڈاکٹر ظفر حیدر کے گھر گئے تو ضعیف العمر ڈاکٹر ظفر حیدر صدمے کی وجہ سے اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نے اپنا تعارف کرایا تو ان کو پہچان نہ سکے۔ شاگرد نے اپنے استاد سے عظیم نقصان کا افسوس کیا تو جواب میں ملک کے نامور ماہر تعلیم اور سرجن نے کہا میرا تو گھر ختم ہو گیا مَیں اس کا کیا ذکر کروں۔ لیکن ڈاکٹر علی حیدر کے جانے سے پاکستان کا جو نقصان ہوا اس کی تلافی کبھی نہ ہو سکے تھی۔ اور یہ کہہ کر ڈاکٹر ظفر حیدر نے سر جھکا لیا اور خاموش ہو گئے۔(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ