الحمرا لاہور میں عطاء الحق قاسمی نے جشنِ انتظار حسین کرایا۔ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ عاشقان انتظار حسین کی اُردو سننے کے منتظر رہے کہ مداح نے انتظار حسین سے سوال کیا ’’اتنا عرصہ لاہور میں رہنے کے باوجود آپ کے لباس، گفتگو اور تحریر سے دلی اور لکھنؤ نہیں گیا۔‘‘ سوال سنتے ہی سفید پاجامے اور کرتے میں ملبوس مسکراتے ہوئے بولے ’’نئیں ایسی کوئی گل نئیں مینوں ہن کجھ کجھ پنجابی بولنی آ گئی اے۔‘‘ یہ سنتے ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اگلے ہی لمحے انتظار حسین پھر اُردو میں بات کرنے لگے۔ انتظار حسین اگرچہ بھارت سے آ گئے تھے لیکن ان کی یادوں میں وہاں کے لوگ موسم، رسومات، تہوار، لہجے اور مکان ہمیشہ موجود رہے۔ انتظار حسین کو پڑھتے ہوئے پوری توجہ درکار ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے نیر مسعود بھی اپنے قاری کو کچھ اس طرح ساتھ لے کر چلتے کہ ان کے لکھے ہوئے لفظوں کی انگلی چھوٹنے کو جی نہیں چاہتا۔
یہ ساری تمہید ہم نے نیر مسعود کو یاد کرنے کے لیے اس لیے باندھی ہے کہ وہ طویل علالت کے بعد 24 جولائی 2017ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ نیر مسعود اُردو کے نامور ادیب نقاد اور محقق پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے بیٹے تھے جن کے علمی و ادبی مقام کو دیکھتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ 16 نومبر 1936ء کو پیدا ہونے والے نیر مسعود نے 1957ء میں فارسی ادب میں ایم۔اے اور اس کے بعد فارسی اور اُردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتب کی تعداد یوں تو بہت زیادہ ہے لیکن اس وقت جو ذہن میں آ رہی ہیں ان میں عطرِ کافور، سیمیا، طاؤس چمن کی مینا، ادبستان (خاکے)، افسانے کی تلاش، منتخب مضامین میر انیس، مرثیہ خوانی کا فن، رجب علی بیگ سرور، کافکا کے منتخب افسانے، جدید فارسی افسانے، تعبیر غالب، معرکۂ انیس و دبیر اور مجموعہ نیر مسعود شامل ہیں۔
نیر مسعود لکھنؤ کے عاشق تھے اس بارے میں وہ خود کہتے تھے:
’’مَیں لکھنؤ سے کبھی باہر نہیں گیا۔ جن دنوں اُردو میں پی ایچ ڈی کرنے الہ آباد رہا تو مَیں ہر ماہ لکھنؤ آ جاتا تھا حالانکہ الہ آباد میں میری حقیقی بہن کا گھر تھا اور وہ میرا خیال بھی بہت رکھتی تھی۔ مَیں جیسے ہی لکھنؤ سے باہر آتا تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے میرا دل لکھنؤ ہی میں رہ گیا ہے زندگی میں ایک مرتبہ ایران گیا وہ بھی سولہ سترہ دنوں کے لیے ورنہ جب بھی کبھی لکھنؤ سے باہر آیا تو زیادہ سے زیادہ پانچ چھ دن باہر رہا۔ ساری زندگی لکھنؤ اور اپنے گھر ’’ادبستان‘‘ میں گزر گئی۔ مَیں نے جو بھی لکھا اسی گھر میں بیٹھ کر لکھا۔ حتیٰ کہ پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی الہ آباد میں نہیں لکھ سکتا تھا۔ وہاں سے حوالے لکھ کر گھر آ جاتا اور پھر لکھنؤ میں آ کر اس کو تحریر کرتا۔ اسی طرح جب کوئی افسانہ شروع کرتا اور درمیان میں کہیں دوسرے شہر کام جانا پڑتا تو وہ افسانہ واپس آ کر مکمل کرتا۔ مَیں اپنے آپ کو گھر گھسنا سمجھتا ہوں جو ہر وقت گھر کی محبت میں مبتلا رہتا ہے۔‘‘
اب یہا ں پر ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں نیر مسعود کا عاشق کیسے بنا یعنی ملتان شہر میں رہنے والا جس کی مادری زبان پنجابی ہو وہ لکھنؤ میں مقیم ایک خوبصورت نثر لکھنے والے کا عاشق کیسے بن گیا؟ قصہ کچھ یوں ہے کہ اچھی کتاب کی تلاش میں ہر وقت سرگرداں رہتا ہوں۔ کراچی سے اجمل کمال اپنے نام کی طرح کمال کا ایک جریدہ ’’آج‘‘ شائع کرتے ہیں۔ مَیں نے نیر مسعود کی خوبصورت تحریریں آج میں پڑھیں تو یہ عادت ہو گئی کہ جہاں ان کی کوئی تحریر یا کتاب دکھائی دیتی تو مَیں سب کام چھوڑ کر نیر مسعود کی تحریروں کا مطالعہ کرتا۔ پھر گاہے گاہے رضا علی عابدی، علامہ قبلہ سیّد عقیل الغروی اور پروفیسر ڈاکٹر ابرار عبدالسلام سے ان کی تخلیقات کی بابت بات چیت ہوتی رہتی۔ جناب رضا علی عابدی کو نیر مسعود کے انتقال کی خبر ملی تو انہوں نے ان کی میر انیس پر لکھی کتاب پر ایک لائن میں تبصرہ کچھ یوں کیا: ’’میر انیس کی جیسی سوانح انہوں نے لکھی کون لکھ پائے گا۔ بہت یاد آئیں گے۔‘‘
نیر مسعود خود تو چلے گئے لیکن اپنے افسانوں، خاکوں اور تنقید کی شکل میں ایک اثاثہ چھوڑ گئے جو انہیں کبھی بھی ہم سے جدا نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنے آبائی گھر ادبستان، اپنے والد گرامی سیّد مسعود حسن رضوی پر جس طرح کے خاکے لکھے اس طرح کے خاکے شاید ہی اب کوئی اور لکھ سکے گا۔ جب ان کے والد کا وقت آخر آیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا:
کسی نے مول نہ پوچھا دلِ شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
نیر مسعود نے یہ شعر ان کے لیے لکھے ہر خاکے میں حوالے کے طور پر دیا۔ نیر مسعود نے اپنی زندگی میں جو تنقیدی کام کیا وہ بھی اپنی طرز کا الگ کام ہے۔ ان کے مضامین کے موضوعات ایسے ہیں جن پر پہلے کسی نے قلم نہیں اٹھایا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے ہر مضمون کی تحقیق پر الگ سے ایک تحقیق ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر لکھنؤ کا عروج و زوال، واجد علی شاہ اختر، میر ببر علی انیس، میر کا مسکن اور مدفن، رجب علی بیگ سرور کے نثری اسالیب، توبۃ النصوح منظوم، زعفرجن اور دیگر مقالے اتنے اہم ہیں کہ اسے ایم۔اے اُردو کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ میرے لیے ’’توبۃ النصوح منظوم‘‘ ہونا ایک خبر تھی۔ جب نیر مسعود کا یہ مقالہ پڑھا تو معلوم ہوا ڈپٹی نذیر احمد کے مشہور زمانہ ناول توبۃ النصوح کو سیّد امیر حسن فروغ لکھنوی، مرزا محمد جعفر اوج (فرزندِ مرزا دبیر) اور میر بادشاہ علی بقا (فرزندِ میر وزیر علی صبا) کے شاگرد اور حیدرآباد میں ہائیکورٹ کے وکیل تھے۔ انہوں نے 1908-09ء میں اس ناول کو مثنوی کی شکل میں نظم کیا جس کا نام ’’مفادِ آخرت‘‘ رکھا گیا۔ جس کو 1918ء میں مولوی غلام عباس مہتمم امامیہ جنرل بک ایجنسی لاہور نے جارج اسٹیم پریس سے شائع کرایا۔
نیر مسعود کی والدہ گرامی کا جب انتقال ہوا تو ان کے والد سید مسعود حسن رضوی ادیب نے ان کے بارے میں کہا
مٹی سے بچاتے ہیں سدا جس کا تنِ پاک
اُس گل پہ گرا دیتے ہیں خود سینکڑوں من خاک
اب جب نیر مسعود کا انتقال ہوا تو ان کو جب لکھنؤ کے کربلا منشی فضل حسین وکٹوریہ گنج میں انہی کے والد کے پہلو میں دفن کیا گیا تو یقیناًقبرستان میں موجود تمام احباب کے لب پر مندرجہ بالا شعر ہو گا۔ یاد رہے یہ وہی قبرستان ہے جہاں پر یگانہ چنگیزی بھی دفن ہیں کہ نیر مسعود اُسی قبرستان کا حصہ بنے جہاں پر علم و ادب کی نامور شخصیات آسودہ خاک ہیں۔ یعنی لکھنؤ کا عاشق لکھنؤ کی پہچان بننے والوں کے ساتھ اگلی منازل طے کرے گا۔
فیس بک کمینٹ