کہنے کو توسعادت حسن منٹو 11مئی 1912ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوااور محض بیالیس برس آٹھ ماہ کی’’ ملامت خیز‘‘ زندگی گذار کر 18جنوری 1955ء کواِس’’ جہانِ نیکوکاراں‘‘ کو اپنے جسمانی بوجھ سے آزاد کر گیامگر جاتے جاتے بائیس افسانوی مجموعے ، ایک نامکمل ناول ،ریڈیائی ڈراموں کے پانچ سلسلے، تین مجموعے مضامین کے اور دو کتابیں شخصی خاکہ جات کی اپنے ’’مذموم افکار ‘‘کی صورت’’ صالح اذہان‘‘ پر مستقل عذاب کے طور پر لاد گیا۔چاہئے تو تھا کہ شرابِ خانہ خراب کے سارے گناہ محض اِس سبب معاف کر دیے جاتے کہ اُس نے منٹو جیسے ’’سیاہ کار‘‘ کو اتنی مختصر عمر میں قبر کے اندر اتار دیا کہ جتنی عمرمیں ہماری ’’عالی دماغ ‘‘ شخصیات بالغ بھی نہیں ہو پاتیں مگر کیا کیجئے کہ اِس کے باوصف بھی شراب زندہ رہ کر بھی شراب رہی اور منٹومر کربھی سعادت حسن منٹوکہ جس نے اپنی قبر کے کتبے تک کو بھی معاف نہیں کیا اور لکھوا نا چاہا کہ ’’یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے ، کہانی کہنے کے تمام رموز و اسرار کے ساتھ،منوں مٹی تلے پڑا اَب بھی اِسی فکر میں سرگرداں کہ کون بڑا کہانی کار ہے، خدا یا وہ خود‘‘۔مگر اُس کے کتبے پر لکھا گیا ’’یہ سعادت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اَب بھی سمجھتا ہے کہ اُس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا‘‘۔
منٹو کواُس کی موت کی تصدیق کے بعد نہلایا، کفنایا اوردفنایا گیا۔اتنی مٹی ڈالی گئی کہ قبر سے باہر تک اُس کی رسائی ممکن نہ ہو سکے۔مگر 61 برس ہونے کو آئے، منٹو ہے کہ مرتاہی نہیں۔ قبر میں رزقِ خاک ہونے کے باوجود زندہ سلامت۔آئے روز مباحث کا موضوع، اسٹیج ڈراموں اور فلموں کا مرکزی کردار، ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کا عنوان اور ہر سال اُس پر لکھی جانے والی کتب کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔اُس کی اپنی کتابوں کے آئے روز شائع ہونے والے ایڈیشنز کی گنتی ممکن ہی نہیں رہی اور اُسے چھاپنے والے پبلشرز کی کمائی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اگرچہ 2012ء اُس کی سویں سالگرہ پر اُسے بعد از مرگ نشان امیتاز بھی دیا گیا اور یاد گاری ٹکٹ کا اجراء بھی ہوامگر اِس کے متوازی منٹو پر کئے جانے والے ’’قاتلانہ حملوں‘‘ کا سلسلہ بھی رکنے میں نہیں آ رہا۔لیکن یہ ’’سعادت‘‘ ابھی کسی ’’صالحِ فکر‘‘ کے حصے میں نہیں آ پارہی کہ جو اُس کی حتمی مرگ کا اہتمام کر سکے تاکہ سماج کی ’’پارسائی‘‘ کو لاحق اِ س اندیشہ ء مسلسل کے عذاب سے جان چھوٹے۔
سعادت حسن منٹو کے قابلِ گرفت گناہوں میں سرِ فہرست شراب نوشی نہیں بلکہ فحش نگاری تھی کہ جس کے سبب اُسے چھ بار مختلف مقدمات کی صورت عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔تین بار تقسیم ہند سے پہلے انڈیا میں اور تین بار پاکستان میں اُس کی ہجرت کے بعد۔شراب پینی تو منٹونے اِس لیے شروع کی کہ سر پر آسمان کی طرح مسلط غربت اورزمین پر شمشیر بکف سماج کے فوجداروں سے نبرد آزمائی کے وقفے میں سانس بحال کی جا سکے۔مگر یہ اور بات کہ مبینہ فحش نگاری کے معترضین اور بلا نوشی کے عذاب، دونوں کی ہلاکت خیزی کے گٹھ جوڑ نے منٹو کے سانس کی ڈور ہی کاٹ ڈالی۔کیا منٹوواقعی فحش نگار تھایا سماج کو فحاشی کی تعریف میں کسی تعصب یا کنفیوژن کا سامنا تھا، اِس کا جواب نہ تو چھ مقدمات کی سماعت میں سامنے آ سکااور نہ ہی اب تک کا کوئی نقاد پورے تیقن سے کوئی رائے قائم کر سکاہے ۔تو پھر ایسے میں بار بار اور ہربار ہر زمانے میں منٹو ہی معتوب اورقابلِ گردن زدنی کیوں۔
اپنے اوپر لگنے والے فحاشی کے الزامات کے جواب میں منٹوکا کہنا تھا کہ’’ اگر آپ اِن افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اُتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اِس لیے کہ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا ہے‘‘۔سوال یہاں اُس زاویۂ نگاہ اور اُس سمت کا ہے کہ جہاں سے منٹو کو اُس وقت کی مروج تہذیب ننگی دکھائی دیتی تھی مگر اُس عہد کے دوسرے ادیبوں، سماجی رہنماؤں اور علماء کو نہیں۔منٹو کے دیکھنے کی یہ سمت کچھ ایسی بھی ہٹ کر نہیں تھی۔ میرے نزدیک اُس کے کچھ اپنے ادیب دوستوں نے اُس کے فکری تناظراور اُس کی عقلی و معنوی گہرائی سے خوفزدہ ہو کر اُسے ایک طرف ’’چڑھ جا بچہ سُولی پر‘‘ کی ہلا شری پر لگا دیا اور دوسری جانب نہایت خفی انداز میں اُن تمام عناصر کو اُس کے خلاف صف بند کرنے کی سازش میں جُت گئے کہ جنہیں سعادت حسن منٹو کی فطری بے باکی اور صاف گوئی سے اپنی سماجی شناخت کے ساتھ ساتھ معاشی مفادات کا پندار بھی ڈولتا دکھائی دیتا تھا۔کہنے کو تو باری علیگ سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک سبھی منٹو کے بہی خواہ اور طرف دار تھے مگر زمینی حقائق کچھ اور بیان کرتے ہوئے قطعی طور پر اِس سے لگا نہیں کھاتے۔ اگرچہ اپنے معاصرین کے برعکس ڈی ایچ لارنس اور وکٹر ہیگوکے افکار سے شناسائی نے اُسے بھی اپنی تحریروں میں گھٹیا درجے کے رومانس کو موضوع بنانے کی بجائے سیاسی اور سماجی ممنوعات کو نشانے پہ رکھنا سکھا دیا تھا مگر اس کازمانہ اور مکانی پس منظر یعنی تقسیمِ ہند اور اُس کے بعد ہونے والی سیاسی و سماجی ڈاکہ زنی، دونوں اِس قسم کے ’’ممنوعہ‘‘ موضوعات کے لیے موزوں نہ تھے۔’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ جیسے افسانے ہوںیا’’گنجے فرشتے ‘‘ اور ’’انکل سام کے نام خطوط‘‘ جیسے خاکے اور مضامین ، یہ سبھی موضوعات لغوی اعتبار سے فحش نہ ہوتے ہوئے بھی متذکرہ سیاق و سباق میں یقیناًفحش ہی تھے۔’ ’مرلی کی دھن‘‘ میں منٹو کہتا ہے کہ ’’ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔پاکستان عالمِ وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھالیکن انسان اِن دونوں مملکتوں کا غلام تھا۔تعصب کا غلام، مذہبی جنون کا غلام، حیوانیت وبربریت کا غلام‘‘۔آپ خود سوچئے کہ اِن دونوں ملکوں کی انگریز سے آزادی کے ثمرات کو تعصب، مذہبی جنون اور حیوانیت وبربریت کی بھینٹ چڑھانے والے طبقات کی سازشوں کو ننگا کرنے والے سعادت حسن منٹو کو فحش نگاری کے الزام میں مسلسل ذہنی ایذا دے کر’’نذرِ شراب‘‘ نہ کیا جاتا تو بھلا اور کیا کیا جاتا۔
رہا سوال منٹو کے نہ مرنے کا تو اِس کے لیے ہمیں ’’سچائی ‘‘ اور ’’فحاشی‘‘کی تعریف کو ازسرنوطے کرنا ہوگا۔منٹو کو تاریخ کی ٹکٹکی پر اوندھے منہ باندھ کر اُس کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے والوں کی اب بھی کمی نہیں۔دیکھنا یہ ہو گا کہ منٹو کے جسم پر برسنے والے یہ چابک اب تک اُس کی کھال کیوں نہیں ادھیڑ پائے۔اُس کے نحیف بدن سے خون کیوں نہیں رس رہا۔نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذرنے کے باوجود اُس کا لاشہ ابھی تک زندگی کی حرارت سے دہک کیوں رہا ہے۔اُس کے افکارہر زمانے میں ہر ذی شعور کے شعور کی نمائندگی کیوں کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ ہر عہد سے عبارت کیوں کر ہوا۔یہ کیسا شخص ہے کہ جو ماضی بھی تھا، حال بھی ہے اور مسقبل بھی رہے گا۔وہ کیسی سچائی تھا کہ موت ہمیشہ اُس کے ’’تارا مسیحاؤں‘‘کا مقدر ٹھہری اوراُسے لحد میں اتارنے والے خود گمنامی کی قبروں میں اتر گئے۔اِن تمام سوالوں کا جواب بس اتنا ہے کہ منٹو سچ سوچتا اور سچ لکھتا تھا۔اُس کا ہنر سوسائٹی میں راسخ مفاد پرستی اور اُس کے ننگے پن کی پوری سچائی سے نشاندہی کرنا تھا۔اب اگر سماج کے ’’درزیوں‘‘ نے اپنے اپنے سیاہ مفادات کے تحت اپنی برہنہ تہذیب کو’’ چولی‘‘ نہیں پہنائی تومنٹو ہی معتوب کیوں۔منافقت کی اندھیر نگری میں اگر منٹو جیسے اجالے سے بچ کے رہنا ہے تو اِن نام نہاد درزیوں کو چولیاں سینے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ورنہ سوچ لیں کہ منٹو مرنے والا نہیں۔
فیس بک کمینٹ