پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہزاروں قیمتی جانیں شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور قوم اب تک وحشی درندوں کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوئی۔ کرنے کے بہت سے کام باقی ہیں مگر ایسے ماحول میں کرکٹ فیور نے پاکستانیوں کو کچھ لمحات کیلئے سارے غم بھلا دیئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ورلڈ الیون کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے اسٹار ورلڈ الیون کا حصہ ہیں اور کسی نے بھی ان کھلاڑیوں کو ”ریلو کٹا“ کہنے کی جسارت نہیں کی۔ فاف ڈپلولیسی ، ہاشم آملہ ، عمران طاہر، تمیم اقبال ، تھسارا پریرا ، بین کٹنگ ، ٹم پین سمیت اسی پائے کے دیگر کھلاڑیوں کی دنیا بھر میں ایک ساکھ ہے اور یہ تمام کھلاڑی اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کے علاوہ غیر ملکی لیگز میں بھی نمایاں طور پر حصہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ان سپر اسٹار کی آمد پاکستان کے ساتھ ساتھ کھیل کی بھی جیت ہے۔
ورلڈ الیون کی آمد سے قبل زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی۔ اگرچہ اس سیریز میں آئی سی سی کی نمائندگی شامل نہیں تھی تاہم اہل پاکستان نے زمبابوین کھلاڑیوں کا پرجوش استقبال کیا۔ انہیں پاکستانیوں کی روایتی محبت اور خلوص سے نوازا۔ اس کے بعد پاکستان سپر لیگ کے فائنل معرکے میں کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی پاکستان آئے اور اہل پاکستان کا دل جیتا اور اپنا دل بھی پاکستانیوں کے حوالے کر گئے۔ بے شمار محبتیں سمیٹیں اور بے پناہ پیار اپنے ہمراہ لے گئے۔ اب قذافی اسٹیڈیم میں آئی سی سی ورلڈ الیون ٹیم اتری ہے جسے آئی سی سی کی تائید حاصل ہے۔ اس طرح گویا پاکستان میں آفیشلی بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہوئی ہے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا مرحلہ اسی شہر میں سر ہوا ہے جہاں دہشتگردوں نے سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنایا تھا۔اب اسی داتا کی نگری میں پاکستانیوں کے من پسند کھیل کی واپسی یقینی طور پر دہشت گردوں کی واضح شکست ہے۔ کئی لوگ ورلڈ الیون کی آمد کو پیسے کا کرشمہ قرار دے رہے ہیں مگر یہ سوچ سراسر منفی ہے۔ بین الاقوامی سپر اسٹار خصوصاً ہاشم آملہ ، عمران طاہر جیسے مسلمان کھلاڑی اور فاف ڈوپلیسی جیسے سپر اسٹار صرف رقم کیلئے زندگیاں داو¿ پر لگانے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ یہ ان کھلاڑیوں کی انسانیت ، کرکٹ اور پاکستان سے محبت ہے جو انہیں دہشت گردی سے متاثرہ ملک میں کھینچ لائی ہے۔ ایسے کھلاڑیوں کی آمد کھیل کی جیت اور دہشت گردوں کی ہار ہے اور یہی سچ ہے ۔
فیس بک کمینٹ