درست فرمایا جناب مشتاق یوسفی صاحب نے کہ اسلام کے لیئے سب سے زیادہ قربانی بکروں نے دی ہے اور ہمارے ہاں تو بعض لوگ بکروں کی اس عظیم الشان قربانی کی اتنی زیادہ قدر کرتے ہیں کہ حرام ہے جو آج تک انہوں نے اس کا گوشت کسی ایرے غیرے کے ہاں بانٹا ۔۔ یا کہیں بھیجا ہو کہ مبادا لوگ اپنی لاعلمی کے سبب اس کی ناقدری نہ کر دیں۔اور دوستو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بکر عید تھی ہر طرف گوشت اور گوشت کے پکوان تھے ان کی اشتہا انگیز خوشبو تھی اور ہم ہیں دوستو والا معاملہ تھا اس لیئے دستر خوان پر انواع و اقسام کے پکوانوں کو دیکھ کر بندے کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ چنانچہ اس نے ایک نظر دستر خوان پر چنے ہوئے کھانوں کی طرف ڈالی اور پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا غنیم کے لشکر کی طرف بڑھنے لگا اور پھر وہاں پہنچ کر نعرہء تکبیر بلند کرتے ہوئے ان انواع و اقسام کے پکوانوں پر ٹوٹ پڑا۔ پھر بیچ میں وقفے کی خاطر رکا پانی پیا اور پھر پیٹ میں مزید گنجائش پیدا کرنے کی خاطر اس نے اپنا نالہ ڈھیلا کیا اور پھر کشتوں کے پشتے لگا تا ہوا دستر خوان کو فتح کر کے خود بغرضِ آرام وہیں ڈھیر ہو گیا ۔
کھانے کے ایک دو گھنٹے بعد تک کچھ نہ ہوا ۔ پھر آہستہ آہستہ بندے کو بے چینی شروع ہو گئی اور اس بے چینی کے شروع ہوتے ہی اس کے پیٹ میں گڑگڑاہٹ سی پیدا ہو گئی اور اسکے ساتھ ہی اس کو ایسے ایسے عجیب قسم کے ڈکار آنے شروع ہو گئے کہ ان آوازوں کو سن کر گھر والوں نے باقاعدہ اس کی طرف شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔اور پھر گھر والوں کی آنکھوں میں شک و شبہ کی پرچھائیوں کو دیکھ کر بندے کو ان آوازوں کے بارے ایک وضاحت نامہ جاری کرنا پڑا کہ یہ واقعی ڈکار تھے ۔
شام تک غریب کی طبیعت کچھ مزید بگڑ گئی ۔۔ اور پھر طبیعت میں گراوٹ کے سبب بندہ چارپائی پر آ رہا۔ موصوف کو چارپائی پر دیکھ کر اس کے گھر والوں کو کچھ تشویش لاحق ہوئی ۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے سرہانے دنیا کی ہر قسم کی معجون و پھکیوں کا ڈھیر لگ گیا اور حسبِ ہدایت کوئی پھکی اس نے سیون اپ میں نمک ڈال کر پی۔ تو کوئی معجون اللہ شافی اللہ کافی کا ورد کرتے ہوئے حلق سے نیچے اتاری ۔ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی افاقہ نہ ہو رہا تھا ۔ادھر بندے کی ناسازئ طبیعت کا سن کر محلے کی ویلی مائیاں بھی جوق در جوق بندے کے گھر آنا شروع ہو گئیں ان میں سب سے پہلے ماسی شیداں وارد ہوئی جس نے آتے ساتھ ہی اس کی کیس ہسٹری سنی اور پھر اس کی اماں سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔ ویسے تو بہن زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن پچھلے سال بلکل اسی طرح کا واقعہ اس کے بھانجے کے ساتھ بھی ہوا تھا اس نے بھی قربانی کا گوشت کھایا تھا اور پھر ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد اس کے بھی پیٹ میں شدید درد اُٹھا تھا اور پھر اگلے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کا انتقال ہو گیا تھا ماسی شیداں کی بات سن کر ڈر کے مارے بندے کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔۔۔۔ وہ ابھی ماسی شیداں کے دیئے ہوئے صدمے سے نہیں سنبھلا تھا کہ اوپر سے ماسی برکتے آ گئی اس نے بھی آتے ساتھ ہی اماں سے کیس ہسٹری سنی اور پھر وہ بندے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے تشویس بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔ زرا دیکھو تو بچے کا رنگ کتنا پیلا پڑ گیا ہے پھر اماں کو مخاطب کرتے ہوئے بولی بہن جی یا تو اس بچے کو نظر لگ گئی ہے یا پھر مخالفوں نے اس پر تعویز کروا دیئے ہیں پھر اس نے علاج تجویز کرتے ہوئے کہا کہ نظر بد کے لیئے اس کو سات سرخ مرچوں کی دھونی دو اور ردِ تعویز کے لیئے کدو پر 786 اور بیگن پر بسم اللہ لکھو ا کر اس کے سرہانے رکھ دو۔
مرچوں کی دھونی سے بندے کی حالت مزید خراب ہو گئی اس لیئے چار و نا چار اس کو محلے کے ایک نیم حکیم قسم کے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جایا گیا ان صاحب کو ڈاکٹر اس لیئے کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بیک وقت حکمت اور ہومیو پیتھی کا کورس کیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ بطور پارٹ ٹائم موصوف کی پنکچروں کی دکان بھی تھی خدمتِ خلق کی خاطر عید والے دن بھی ان کا کلینک و دکان کھلی تھی ۔ بندے کو جب ان کے کلینک لے جایا گیا تو اس وقت موصوف ایک موٹر سائیکل کو پنکچر لگا رہے تھے اپنے کلینک پر مریض کو دیکھ کر انہوں نے جلدی سے موٹر سائیکل کو پنکچر لگایا اور پھر ہاتھ دھو کر کلینک پر پہنچ گئے۔ کیس ہسٹری سننے کے بعد انہوں نے بندے کا ہاتھ پکڑا اور پھر بڑے غور کے ساتھ اس کی نبض کو دیکھنے لگے نبض دیکھتے دیکھتے اچانک ہی انہوں نے بندے کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگے کہ کتنا گوشت ہوا ؟ ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے غریب دا بال سمجھا کہ شاید وہ اس کے وزن بارے پوچھ رہے ہیں اس لیئے ابھی وہ اپنا وزن بتانے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جھٹ سے بولے کہ ارے تمہارا نہیں – بکرے کا گوشت کتنا ہوا ؟ پھر پرُ اسرار لہجے میں بولے اگر پائے پڑے ہیں تو کسی کے ہاتھ بھیج دینا۔ نبض دیکھنے کے بعد وہ اس سے کہنے لگے کہ ویسے تو تمہاری نبض بلکل ٹھیک چل رہی ہے لیکن پھر بھی احتیاطاً تم میرے بیٹے کی لیبارٹری سے اپنا پیشاب ٹیسٹ کر وا لو۔ پھر کہنے لگے کہ اب جبکہ تم لیبارٹری جا ہی رہے ہو تو پیشاب کے ساتھ ساتھ اپنا ایکسرے بھی کروا لینا ۔ اس پر مریض بولا کہ ڈاکٹر صاحب پیشاب اور ایکسرے کس لیئے؟ تو آگے سے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ وہ اسی لیئے میرے بھائی کہ ابھی تک ہماری لیبارٹری میں صرف یہی دو سہولتیں میسر ہیں۔ ۔ اس پر مریض نے سوچا کہ درد تو اس کے پیٹ میں ہے اس لیئے وہ پیشاب ٹیسٹ اور ایکسرے کس خوشی میں کروائے؟ یہ سوچ کر اس نے ڈاکٹر صاحب کو فیس ادا کی اور چُپ چاپ گھر آ گیا۔ اور اگلے دو تین وقت فاقہ کرنے سے بیمارِ گوشت بلکل بھلا چنگا ہو گیا۔
فیس بک کمینٹ