سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر متعدد بارسوخ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان لوگوں کو بظاہر بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کےلئے پکڑا گیا ہے لیکن سعودی ذرائع اور عالمی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ گرفتاریاں اقتدار پر شہزادہ محمد کی گرفت مستحکم کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں 11 شہزادے، 4 وزیر، 10 علما، ایک پروفیسر اور ایک شاعر شامل ہیں۔ درجنوں سرکاری عہدیداروں کی معطلی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسی کے ساتھ طاقتور نیشنل گارڈز کے وزیر متعصب بن عبداللہ کو برطرف کر کے یہ وزارت خالد بن ایاف کو دے دی گئی ہے۔ متعب بن عبداللہ کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ بھی گرفتارہونے والوں میں شامل ہیں۔ معاشی امور کے وزیر عادل فقیہہ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان کی جگہ ولی عہد محمد کے نائب محمد تویجری کو یہ وزارت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی بحریہ کے سربراہ کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں عالمی شہرت یافتہ سعودی سرمایہ کار شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں۔ سعودی حکومت نے سرکاری طور پر کسی گرفتار شدہ شخص کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے اور یہ اقدام شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے بدعنوانی کے خلاف ایک نئی کمیٹی قائم کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر کئے گئے ہیں۔ اس کمیٹی کے سربراہ 32 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جو سعودی عرب اور خطے کے بارے میں اپنی پالیسیوں کے خلاف کوئی بات برداشت کرنے کے روادار نہیں ہیں۔
سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اندرون ملک سیاست، معیشت اور سماجی تبدیلیوں کے علاوہ خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ سعودی عرب میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ اس طرح یہ تاثر تبدیل ہوا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے سارے فیصلے اتفاق رائے سے طے پاتے ہیں۔ آج کئے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان شاہی خاندان پر مکمل کنٹرول کے علاوہ سعودی عرب کے تمام امور کے بارے میں تن تنہا فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے تمام عناصر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے جو نوجوان شہزادے کی یمن اور قطر کے بارے میں پالیسیوں سے متفق نہیں تھے۔ اس کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان معیشت کی بحالی کےلئے جو لبرل انقلابی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے بارے میں بھی سعودی شاہی خاندان میں مخالفانہ رائے موجود تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد اقتدار کے راستے میں حائل ہر رکاوٹ دور کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق شہزادہ محمد کے حالیہ اقدامات اور گرفتاریوں کے بعد شاہی تخت تک ان کی رسائی آسان ہو گئی ہے۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز 81 برس کی عمر میں علیل رہتے ہیں اور امور مملکت طے کرنے کا عملی اختیار اپنے بیٹے کو سونپ چکے ہیں۔ شاہی خاندان اور علما میں مقبول اور طاقتور شخصیتوں کو علیحدہ کرنے کے بعد شہزادہ محمد کے اختیار کو خطرہ لاحق نہیں رہے گا۔ ان اقدامات کے نتیجہ میں شاہ سلمان اپنے بیٹے کے حق میں تخت سے
دستبردار ہو جائیں گے اور 2018 کے د وران شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے حکمران کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
تجزیہ نگار قیاس کرتے ہیں کہ اگر سب معاملات شہزادہ محمد کی خواہش کے مطابق طے پاتے رہے تو وہ آئندہ نصف صدی تک سعودی عرب کے سیاہ و سفید کے مالک بن سکتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے یہ شبہات بہرحال موجود ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان جس تیزی اور سرعت سے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں منتقل کر رہے ہیں اور شاہی خاندان کے مختلف گروہوں کو نظر انداز کرنے اور غیر موثر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کوششوں کی وجہ سے ملک کے حکمران شاہی خاندان اور مذہبی اشرافیہ کی طرف سے مزاحمت زیادہ سنگین صورت اختیار کرلے جو خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ خاص طور سے اگر شہزادہ محمد کے خارجی معاملات کے حوالے سے بعض اقدامات بار آور نہ ہو سکے اور ان کے معاشی منصوبے یا معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا خواب پوری طرح شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو مخالف عناصر کو قوت پکڑنے اور شہزادہ محمد کو کمزور کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ خاص طور سے یمن کے خلاف جنگ اور قطر کے بائیکاٹ کے فیصلوں پر سعودی عرب کی حکمران اشرافیہ میں بھی مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔ ڈرامائی اقدامات کے شوقین شہزادہ محمد بن سلمان اس حوالے سے مشاورت یا مخالفانہ آرا سننے کے عادی نہیں ہیں۔ وہ مکمل وفاداری کا تقاضہ کرتے ہیں اور جس فرد کے بارے میں وہ شبہ میں مبتلا ہوں، اس سے نجات حاصل کی جاتی ہے۔ کل کئے گئے اقدامات اس کی روشن مثال ہیں۔
جون میں ولی عہد اول شہزادہ محمد بن نائف کو علیحدہ کرکے شاہ سلمان نے اپنے بیٹے اور اس وقت تک ولی عہد دوئم کے عہدے پر فائز شہزادہ محمد سلمان کو تخت کا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ اس موقع پر سرکاری ٹی وی پر اگرچہ شہزادہ محمد بن سلمان کو احتراماً اپنے 25 سال بڑے کزن شہزادہ محمد بن نائف کے ہاتھ چومتے دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے شہزادہ محمد بن نائف اپنے محل میں نظر بند ہیں اور ان سے ملاقات پر پابندی عائد ہے جبکہ شہزادہ محمد بن سلمان نے چن چن کر ان لوگوں کو امور حکومت سے علیحدہ کیا ہے جو کسی بھی طرح شہزادہ محمد بن نائف کے وفادار یا ہمدرد ہو سکتے ہیں۔ تازہ اقدامات کے بعد یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ذمہ داریاں تقسیم کرنے اور وراثت کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے جس طرح خاندانی روایت کو توڑا ہے، اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان کے باہمی جھگڑے کے نتیجے میں امور مملکت پر حکومت کی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے اور خطے میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک جہاں مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منور بھی موجود ہیں، کس حد تک مستحکم رہتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو تیل کی معیشت سے نکال کر متبادل ذرائع آمدنی پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے انہوں نے ساحلی علاقوں کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے اور سعودی قانون اور روایت سے استثنیٰ دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کےلئے دلکش بنانے کے منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ ماہ ریاض میں عالمی بزنس لیڈرز کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ محمد نے 500 ارب ڈالر کی لاگت سے 26500 کلو میٹر پر محیط بحیرہ احمر کے ساحل کے ساتھ ایک ایسا شہر آباد کرنے کا اعلان کیا تھا جو مکمل طور سے نجی ملکیت میں دیا جائے گا۔ اس شہر پر سعودی قوانین بھی نافذ نہیں ہوں گے۔ اس قسم کے فیصلوں کے سماجی و سیاسی اثرات کے علاوہ معاشی ثمرات کے بارے میں بھی صورتحال واضح نہیں ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چند برس کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے صرف ملکی معیشت کے بارے میں اپنی دلچسپی اور منصوبوں کا اعلان نہیں کیا ہے بلکہ خطے میں سعودی عرب کی پوزیشن مستحکم کرنے اور امریکہ کے حلیف کے طور پر بھرپور کردار ادا کرنے کے بارے میں بھی اپنے عزائم واضح کئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے ان کا اہم ترین ہدف یمن کے خلاف جنگ ہے جہاں وہ حوثی قبائل کی مزاحمت ختم کرکے سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2 برس کے دوران اس جنگ پر کثیر وسائل صرف کرنے کے باوجود سعودی عرب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے برعکس شہری ہلاکتوں اور یمن کی مکمل تباہی کی ذمہ داری سعودی عرب کی سربراہی میں جنگ کرنے والے اتحاد پر عائد کی جاتی ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سعودی عرب یمن کی مکمل تسخیر کے منصوبہ میں کامیاب ہو سکتا ہے لیکن طاقتور شہزادہ محمد بن سلمان کی سرکردگی میں اس ملک میں جنگ اور تباہی میں اضافہ ضرور ہو سکتا ہے۔ یمن میں ناکامی ولی عہد کی ذاتی ناکامی سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح اس سال جون میں قطر کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ امریکہ سمیت متعدد ممالک قطر کے ساتھ سعودی عرب کی مصالحت کےلئے کوششیں کر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوئی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان بہرصورت قطر پر دباؤ بڑھانے اور اسے سعودی خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے قطر کے خلاف اقدامات کو جس طرح اپنی عزت کا سوال بنایا ہؤا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی وجہ سے بھی اندیشوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
سعودی عرب امریکہ کی تائید و تعاون سے مشرق وسطیٰ میں ایران کو برائی کا مرکز اور انتہا پسندی کا سرپرست قرار دے کر اس کا اثر و رسوخ محدود کرنے کا خواہشمند ہے۔ لیکن یمن جنگ میں ناکامی اور قطر کو تنہا کرنے کے منصوبہ کی مزاحمت کی وجہ سے ایران کی اسٹریٹجک اور اخلاقی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی بھرپور حمایت کے باوجود شام میں بھی ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم تصادم کی یہ صورتحال سعودی عرب کی بگڑتی معیشت اور ایک مہم جو ولی عہد کی موجودگی میں کسی بھی وقت خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ عالمی مبصرین نے یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ سعودی عرب سے آنے والی خبروں کا آغاز ہفتہ کو سعد حریری کی اس پریس کانفرنس سے ہوا تھا جس میں انہوں نے لبنان کی وزارت عظمیٰ سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ انہیں اپنی جان کا خطرہ ہے اور ایران ان کے ملک میں مداخلت کر رہا ہے۔ سعد حریری نے یہ اعلان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے کیا تھا، اس لئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سعد حریری نے سعودی اشارے پر یہ اعلان کیا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح اسرائیل کو ایک بار پھر لبنان میں ایران نواز شیعہ ملیشیا گروپ حزب اللہ کے خلاف کارروائی کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ سعد حریری کے استعفیٰ پر تہران نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ اندازے درست ثابت ہوتے ہیں تو مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو تباہ کاری میں اضافہ کے علاوہ زیادہ علاقے اور مزید ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک کو جدید معیشت اور علاقے کی فیصلہ کن طاقت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے بہت جلدی میں ہیں اور بیک وقت معاشی، عسکری اور اسٹریٹجک اہداف اپنی مرضی و خواہش کے مطابق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا منصوبہ امریکی عزائم اور علاقے میں اس کے مفادات کے تحفظ کا حصہ ہے۔ ان کثیر الجہتی وجوہات کی وجہ سے یہ شبہ موجود رہے گا کہ شہزادہ محمد بن سلمان مختصر مدت میں کس طرح ناممکنات کو ممکن بنا سکیں گے۔
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )