پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چئیرمین کے طور پر آئی ایس آئی کے ڈائیریکٹر جنرل لیفٹنینٹ جنرل فیض حمید کو صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں خط لکھیں گے۔ اس خط میں انہیں آگاہ کیا جائے گا کہ صحافیوں پر حملوں سے آئی ایس آئی کی شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یعنی ملک کی دوسری بڑی پارٹی کا سربراہ اور آئینی لحاظ سے ملک کے سب سے بااختیار ادارے ’قومی اسمبلی‘ کی ایک بااختیار قائمہ کمیٹی کا چئیرمین ایک خط کے ذریعے آئی ایس آئی کو ایسے پراسرار حملوں کے بارے میں ایک گزارش نما خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کررہا ہے جس میں صورت حال کی سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی کے سربراہ کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کروائی جائے گی کہ صحافیوں پر حملوں سے ’فائدہ سے زیادہ نقصان‘ ہورہا ہے، اس لئے آئی ایس آئی کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اس صورت حال سے قومی اسمبلی کی بےاختیاری ، عوامی نمائندوں کی بے بسی اور حالات کی درستی کے بارے میں مایوسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلا سوال تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ ملک میں اور خاص طور سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں سے پیدا ہونے والے جس ’برے تاثر‘ کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری ملک کی سب سے بااختیار انٹیلی جنس ایجنسی کی توجہ مبذول کروانے کے لئے خط لکھنا چاہتے ہیں، کیا وہ خود اتنی ’بے خبر‘ ہے کہ اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے بتانے پر ہی معلوم ہوسکے گا کہ ایسے حملوں سے ملک کے علاوہ اس کے اہم اداروں کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے۔ گمان کرنا چاہئے کہ ملک کے انٹیلی جنس ادارے ہوشیار، باخبر اور اپنے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ ان اداروں کے اہلکار جو بھی کام کرتے ہیں ان کے منفی و مثبت پہلوؤں کا اعلیٰ ترین سطح پر جائزہ لے لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی کسی فیصلہ پر عمل درآمد کا حکم صادر ہوتا ہے۔ یعنی کسی صحافی کو سبق سکھانے کے لئے اس پر حملہ کرنا ہے یامارپیٹ کرنی ہے ، اس کا فیصلہ بھی بڑی عرق ریزی سے تیار کئے گئے ’ایکشن پلان‘ کے مطابق ہوتا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں یہ بھی طے ہوتا ہوگا کہ کس پر حملہ سے کام چلے گا اور کس کی ’ٹھکائی‘ کرنا پڑے گی اور کس کے خلاف صرف غداری کے مقدمے درج کرواکے ہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قومی مفادات کے محافظوں سے کسی بے احتیاطی اور غیر ضروری خطرہ مول لینے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حال ہی میں رونما ہونے والے تین واقعات پر نگاہ ڈالی جائے تو صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی کے سابق چئیرمین اور ممتاز صحافی ابصار عالم پر 24 اپریل کو ایک نامعلوم نوجوان نے ان کے گھر کے قریب ہی فائرنگ کرکے انہیں زخمی کردیا۔ گولی جسم کے آر پار ہوگئی لیکن وہ جاں بر ہوگئے ۔ جس نے بھی کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کے لئے ابصار عالم پر گولی چلوانے کا حکم دیا تھا ، وہ اسد طور کی طرح ان کے گھر میں گھس کر انہیں زد و کوب کرکے ڈرانے دھمکانے کا حکم بھی دے سکتا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ ابصار عالم کے مقام و مرتبہ کے سبب ان پر ’قاتلانہ‘ حملہ ہی کافی ہوگا۔ مارپیٹ سے معاملہ خراب بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح جب 25 مئی کو اسد طور کے گھر گھس کر ان کے ساتھ مارپیٹ کا فیصلہ کیا گیا تو اس معاملہ کی ’مجاز اتھارٹی‘ بھی یہ جانتی ہوگی کہ اس کے علاوہ دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں لیکن طے کیا گیا کہ اس سطح کے صحافی کی ٹھکائی نہیں ہوگی تو وہ پیغام عام نہیں ہوسکے گا جسے پہنچانے کے لئے ایسے انتہائی اقدام کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب اسد طور پر حملہ کے خلاف احتجاج میں حامد میر زیادہ ہی پرجوش ہوگئے اور گھر کا بھیدی لنکا ڈھاسکتا ہے جیسی ’دھمکی‘ دی جانے لگی تو بھی اس غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لئے دیگر آپشنز موجود ہوں گے لیکن ان کی بجائے فیصلہ کرنے کا ’اختیار‘ جیو کے مالکان و ایڈیٹرز کو دیا گیا کہ وہ کس طرح سرخ لائن عبور کرنے والے اپنے اینکر اور صحافی کو ’راہ راست‘ پر لاتے ہیں۔ لیکن کوئی ہوشمند اتھارٹی سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھتی۔ اسی طرح اس معاملہ میں بھی صرف جیو انتظامیہ کے فیصلہ پر انحصار کرنے کی بجائے متعدد شہروں میں محب وطن پاکستانیوں کی طرف سے حامد میر کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تاکہ حامد میر ایک طرف نوکری پر بحالی کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہوں تو دوسری طرف ان مقدمات سے نمٹنے کے لئے صحافی تنظیموں کے ذریعے معافی نامے دینے اور قانونی تقاضے پورے کرنے کی تگ و دو کریں۔
دیکھا جائے تو ان تینوں معاملات میں ایک ہی مقصد کارفرما ہے کہ صحافیوں کو بتا دیا جائے کہ بعض ریڈ لائنز طے کردی گئی ہیں۔ جو بھی انہیں عبور کرنے کی کوشش کرے گا،اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ جہاں تک ملک و قوم کے مفادات کی حفاظت کا تعلق ہے تو کوئی بھی قانون یا محافظوں کی دسترس سے ماورا نہیں ۔ جہاں قانون کام نہیں کرسکتا وہاں محافظ کسی رابن ہڈ کی طرح فوری انصاف کے تقاضے پورے کردیتے ہیں۔ البتہ یہ ’مقدس فریضہ‘ ادا کرتے ہوئے انہیں آج بھی اپنے چہرے چھپا نے پڑتے ہیں۔ ممکن ہے اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ رابن ہڈ کے عہد کی طرح اب بھی ملک کا قانون ’نیکی‘ کرنے والے کو ہی قصور وار سمجھتا ہے۔ اس لئے نیکو کاروں کو منہ چھپا کررکھنا پڑتا ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ انصاف بھی ہوتا رہے اور قانون کا بھرم بھی قائم رہے۔
ریکارڈ کے لئے البتہ یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ آئی ایس آئی اس قسم کے حملوں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے اور حال ہی میں اسد طور پر ہونے والے حملے کے حوالے سے باقاعدہ وزارت داخلہ کے ذریعے واضح کردیا گیا تھا کہ اس ’نیک ‘ کام سے آئی ایس آئی کا کوئی تعلق نہیں ۔ پھر بھی جب حامد میر نے انگلی اٹھاتے ہوئے نہ صرف اس طرف اشارہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ’ہم بھی گھر کی باتیں نشر کریں گے‘ تو انہیں بتانا ضروری ہوگیا کہ بھئی کھیل کے قواعد میں ایسا طرز عمل فاؤل پلے کہلاتا ہے جسے قبول نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جرنلسٹ یونین اور پریس کلب کے توسط سے جاری کئے گئے معافی نامہ میں حامد میر نے اعتراف کیا کہ وہ زیادہ ہی پرجوش ہوگئے تھے اور خدا نخواستہ ان کا اشارہ ’ان ‘ کی طرف نہیں تھا۔ جب اس معافی نامہ سے بھی جیو کی انتظامیہ کو ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی حامد میر کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہوئی تو اب حامد میر بین الاقوامی میڈیا میں اپنی دکھ بھری کہانی بیان کرکے ملک میں آزادی رائے پر پابندیوں کی دہائی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھیں ان کی یہ درد بھری پکار کب سنی جاتی ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے جس اجلاس میں صحافیوں پر حملوں کی ابتر صورت حال پر غور کیا گیا۔ اس میں پولیس حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 2018 سے صحافیوں پر 50 حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں 44 انفرادی نوعیت کے تھے۔ ان میں سے 20 معاملات میں چالان جمع کروائے گئے ہیں۔ پانچ درخواستیں مسترد ہوگئی ہیں۔ اور 19 معاملات میں تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس نے صحافیوں پر حملوں میں سے 6 کو ہائی پروفائل کیسز قرار دیا۔ لیکن تحقیقات کے حوالے سے مساوات کا یہ عالم ہے کہ کم اہم اور زیادہ اہم کی تخصیص کے باوجود نتیجہ کسی بھی معاملہ میں اخذ نہیں کیا جاسکا۔ حتی کہ ابصار عالم پر فائرنگ کیس کے حوالے سے جو دعوے کئے جاتے تھے کہ اس میں حملہ آور کی فوری شناخت ہوسکتی ہے، اس بارے میں پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس حملہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج ’بہت مشکل‘ سے حاصل کی گئی تھی۔ لیکن نادرا ابھی تک کسی نتیجہ نہیں پہنچ سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوٹیج دھندلی ہے۔ اب ایک خصوصی کمیٹی اس معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کمیٹی میں دھندلے عکس پہچاننے کے ماہر بھی شامل کئے گئے ہوں۔
اسی لئے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ معلومات ملنے پر واضح کیا کہ اگر ان حملوں میں کوئی ادارہ ملوث ہے تو یہ قابل مذمت ہے لیکن اگر کوئی ادارہ ملوث نہیں ہے اور اس کا نام غلط طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے تو یہ بات اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ہے۔ بعد میں بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سیاسی لب و لہجہ اختیار کیا اور معلومات فراہم کرنے پر پولیس و حکام کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ البتہ ہم ان کے جوابات سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر حملوں میں ’نیا پاکستان‘ میں اضافہ ہؤا ہے۔ اتنے حملے تو ضیاالحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری اب جنرل فیض حمید سے خط و کتابت کریں گے تاکہ آئی ایس آئی کی شہرت کو پہنچنے والے نقصان کا مل کر ازالہ کیا جاسکے۔ کیوں کہ حامد میر کی طرح بلاول کو بھی یقین ہے کہ اداروں کا نام لینا انصاف کا تقاضا نہیں ہے کیوں کہ سب ’محب وطن‘ اپنے اداروں سے محبت کرتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ دوسرے محب وطن ان کے خلاف غداری کے مقدمے درج کرواتے پھریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اکتوبر 2020 میں کراچی کے ایک ہوٹل سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر بھی احتجاج کیا تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف فون پر بلاول کو تسلی دی تھی بلکہ ’تحقیقات‘ کے بعد اپنے دو ہونہار افسروں کو ہیڈ کوارٹرز حاضر ہونے کا حکم بھی دیا تھا۔ بلاول کو امید ہوگی کہ جنرل فیض حمید ان کے خط کے جواب میں شاید ایسی ہی خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے۔ یوں صحافیوں پر حملوں کا مسئلہ حل ہو نہ ہو بلاول کی بلے بلے ضرور ہوجائے گی۔
(بشکریہ :کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ