ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ ہم چھٹیوں پر اپنے گاوں گئے ہوئے تھے۔ جاڑے کی گلابی دھوپ اور ٹھٹھری ہوئی دوپہریں ۔ گاؤ ں کے بزرگ بوڑھے برگد کی گدلی چھاؤ ں سے باہر سنہری دھوپ کے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھ جاتے اور بارا ٹہنی کھیلتے۔ اور ہم بچے رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ، ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر دوڑ لگاتے اور اڑتے پھرتے اودے ، نیلے پیلے ، سرمئی اور سنہری بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ جب شام کو گنے کا رس نکالا جاتا اور گنے کے اس رس سے گڑ بنایا جاتا۔ اور گرم گڑ کی رس بھری خوشبو ہر سو پھیل جاتی اور کہیں دور سے کسی کسان کے ہیر گانے کی رسیلی آواز آتی اور ہل جوت کر لوٹتے جانوروں کے گلے میں پڑی گھنٹیاں بج اٹھتیں ، گھروں کو جاتے پرندے دور آسمان پر اونچی آوازوں میں بولتے، کوئل کی درد بھری کوک سنائی دیتی اور چاول جھڑنے کی مشین کی کک کک بلند ہوتی۔ اور دھرتی سے آکاش تک ساری فضاء مترنم گیتوں، نقرئی رنگوں، رسیلی خوشبووں اور گنگناتی آوازوں سے بھر جاتی۔ ایسے میں گاؤں کی مسجد کا اسپیکر بج اٹھتا۔ اور عشاء کی اذان کی سوز بھری دل سے نکلی صدا دور دور تک پھیل جاتی۔ اور جونہی اذان ختم ہوتی ۔ تو یہ آواز آتی ۔ گاؤں والو ، ایک ضروری اعلان سن لو۔ کل سویرے چوہدری عبدالغفور کے گھر ایک کٹا ذبح کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی کو گوشت درکار ہو تو وہ چوہدری عبدالغفور کے گھر جا کر گوشت لے سکتا ہے۔ اعلان ختم ہوا۔
کٹا ذبح ہونے کا یہ اعلان بلا مبالغہ ہر روز یا ہر دوسرے تیسرے روز ہوتا ۔ ہمارے لیے حیرت کی بات یہ تھی۔ کہ اعلان ہمیشہ کٹا ذبح ہونے کا ہوتا۔ کٹی ذبح کبھی نہ ہوتی۔ آخر ایک دن چچا سے پوچھ لیا۔ چچا مسکرایا اور جواب دیا۔ کٹی بڑی ہو کر بھینس بنتی ہے۔ اور بھینس بچے دیتی ہے۔ دودھ دیتی ھے۔ گوبر دیتی ہے۔ اس لیے قیمتی ہے۔ اہم ہے ۔ ہم نے حیران ہو کر کہا۔ گوبر تو بھینسا بھی دیتا ہے۔ اور بچے بھی۔ چچا نے ہنس کر کہا۔ گوبر بائی پروڈکٹ ہے۔ اصل ضرورت اور افادیت بھینس کے دودھ کی ہے۔ گھر میں کام آتا ہے۔ اور بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں ۔ کٹے اس لیے ذبح کر دیے جاتے ہیں ۔ کہ نرا خرچہ ہیں ۔ آج پاکستان کے وثنری وزیراعظم عمران خان کی اپنے سو دن کی حکومت کی کارکردگی پر تقریر سنی اور ان کی کٹا معاشی پالیسی کا بے مثال آئیڈیا کانوں میں پڑا ۔ تو آنکھوں میں اپنے بچپن کا یہ واقعہ گھوم گیا۔ اور دماغ کی تمام کھڑکیاں کھول گیا۔ اندازہ کریں ۔ یہ کتنا بڑا اور کامیاب منصوبہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں تقریبا چھیالیس ہزار چھوٹے بڑے گاؤں ہیں ۔ اور تقریبا پونے چار سو چھوٹے بڑے شہر ہیں ۔ اگر ہر گاؤں اور شہر میں اوسطا ایک ہفتے میں دس معصوم کٹے بھی ذبح ہوتے ہوں ۔ تو سال میں تقریبا دو کروڑ اکتالیس لاکھ کٹے اپنی کم عمری میں ہی شہادت پا جاتے ہیں ۔ اگر عمران حکومت ان میں سے دو کروڑ کٹوں کو بچا کر بلوغت کی عمر تک لے جائے اور پھر ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت دساور کو بھیج دیا جائے۔ تو سوچیں پاکستان کتنا زرمبادلہ کما سکتا ھے۔ دو کروڑ مسٹنڈے سنڈوں کا گوشت فی سنڈا اگر بیس من بھی ہو تو کل چالیس کروڑ من گوشت ہوا۔ اگر سارے خرچے نکال کر دو ڈالر فی کلو گوشت انکم ہو۔ تو ہم سالانہ بتیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اضافی فائدے دیکھیں ۔ دو کروڑ سنڈے پال اسکیم سے بیس تیس لاکھ لوگوں کو نوکریاں مل جائیں گی ۔ گوشت بنانے کے لاکھوں کارخانے وجود میں آ جائیں گے۔ دن رات گوشت ایکسپورٹ کرنے کے لیے ہزاروں طیاروں پر مشتمل ائر لائن کام کرے گی۔ ہزاروں پائلٹ اور عملہ اور ٹیکس میں اضافہ ۔ اور اضافی فائدہ کھانے کو پائے اور نلیاں اور بونگ اور کھدیں، اور دو کروڑ کھالیں، ان کا حساب الگ لگائیں ۔ یہ تو ہوئی کٹا معاشی پالیسی ۔
ہمارے دوست صولت پاشا صاحب نے عمران خان کی انڈا چوزہ معاشی پالیسی کا مندرجہ ذیل جائزہ لیا ہے۔ اگر آپ ایک کروڑ غریب عورتوں کوسو سو انڈے یا چوزے دے دیں تو چند مہینے بعد وہ سو انڈے روزانہ بیچیں گی ، یعنی ایک ارب انڈے روز بکنے کے لئے مارکیٹ میں آ جائیںں گے اب ہمارے ملک کی ڈیمانڈ تو اتنی ہے نہیں ظاہر ہے چین ایکسپورٹ ہونگے جن سے روزانہ میں کم از کم دس ارب روپے کا زر مبادلہ ملے گا جو ایک سال میں تین ہزار چھ سو ارب ہوگا جو کہ ڈالر میں تقریبن دو سو بیس ارب ڈالر ہوگا ہماری موجودہ ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر شامل کر لیں تو سمجھیں تقریبن ڈھائی سو ارب ڈالر کی سالانہ ایکسپورٹ ہو جائے گی …امپورٹ کے ستر ارب نکال دیں تو بھی ہمارا بیلنس آف پیمنٹ ہر سال ایک سو اسی ارب ڈالرسرپلس ہو گا اس میں کٹا معاشی پالیسی کا زر مبادلہ بھی شامل کر لیں ۔…قرضہ تو ایک سال میں ختم ہو جائے گا بلکہ ہم ایک ڈیڑھ سال میں ہی قرضہ دینے والے ملک بن جائیں گے ۔ مجھے تو خان کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے کہ اسکے پاس اتنی اچھی ٹیم ہے جو ایسے ایسے مشورے دیتی رہتی ہے – جن سے پاکستان کے تمام معاشی دکھ درد دور ہو جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ