سیمسٹر سسٹم دنیا بھر میں تعلیم کا ایک مقبول نظام ہے خاص طور پر یونیورسٹیوں کی سطح پر سیمسٹر سسٹم کو مفید نظام تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں طلبہ و طالبات جو کچھ پڑھتے ہیں، سیمسٹر کے امتحانات میں شامل ہو کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ پڑھا ہے، وہ انہیں سمجھ آ گیا ہے۔ سالانہ امتحانات کے نظام پر بڑا اعتراض ہی یہ کیا جاتاہے کہ اس میں رٹا سسٹم ہوتا ہے اور طالب علموں کو مضامین کی تفہیم نہیں ہوتی۔ سیمسٹر سسٹم کو بنانے والے شاید اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ طالب علم اور استاد میں براہ راست تعلق کی وجہ سے استادکو اپنے طالب علم کی شخصیت و کردار اور اہلیت کو سمجھنے اور سدھارنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ گویا اس کے رویے، کردار اور تعلیم میں دلچسپی کا استاد کو اندازہ بھی ہوتا ہے، اسی طرح بہتر مارکنگ کی جا سکتی ہے۔ کئی یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے پہلے سیمسٹر سسٹم اپنایا مگر خرابیاں سامنے آنے پر اسے ختم کرکے سالانہ امتحانی نظام کی طرف چلی گئیں۔ مثلاً بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی میں یہ تجربہ ہوا، لیکن پھر ایچ ای سی کی وجہ سے دوبارہ سیمسٹر سسٹم کی طرف آنا پڑا۔ ہمارے ہاں چونکہ بھیڑچال کا رویہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس لئے ایک بار کچھ کرلیتے ہیں تو پھر دوبارہ پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ نظام صحیح چل بھی رہا ہے یا نہیں۔ ایچ ای سی نے کبھی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی، سیمسٹر سسٹم کے آنے سے تین چار دہائیوں میں تعلیم کا معیار بلند ہوا ہے یا زوال پذیر ہے۔ آج کا طالب علم اپنے پاس ڈگری تو رکھتا ہے لیکن اس کے پاس علم نہیں، حتیٰ کہ اپنے مضمون پر بھی اسے پوری طرح دسترس نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن ہو یا کسی دوسرے صوبے کا کمیشن، یا پھر فیڈرل پبلک سروس کمیشن، اس کے مختلف اسامیوں کے لئے ہونے والے ٹیسٹوں اور انٹرویوز میں 90فیصد امیدوار فیل ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یونیورسٹیوں کے گولڈ میڈلسٹ بھی اپنے مضمون میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی آئے روز سامنے آتی ہے کہ سیمسٹر سسٹم کی وجہ سے اخلاقی خرابیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ فیورٹ ازم کی بیماری بھی اسی سسٹم کی وجہ سے درآئی ہے اور خود اساتذہ پر بھی الزامات لگتے رہے ہیں، جب اتنی باتیں ہوں تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے معاملات کی حساسیت تک پہنچا جائے۔ کھوج لگایا جائے نظام چل رہا ہے یا اسے گھیسٹنا پڑ رہا ہے۔ ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹریاں لگانے سے قوم کو کیا حاصل ہوگا،سوائے بے روزگاری اور نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ڈپریشن کے۔ یورپ یا امریکہ میں بھی یہی سیمسٹر سسٹم رائج ہے مگر ان کا تعلیمی معیار ہماری جامعات کے مقابلے میں کس قدر بلندہے، اس کا اندازہ دنیا میں ہماری یونیورسٹیوں کی رینکنگ سے کیا جا سکتا ہے، جو کہیں نظر ہی نہیں آتی۔
مجھے یاد ہے کہ جس زمانے میں ہم شعبہ اردو جامعہ ز کریا ملتان میں پڑھتے تھے، یہ میں 1980ء کی بات کررہا ہوں، اسی سیمسٹر سسٹم کے تحت تعلیم دی جا رہی تھی۔ ان دنوں یہ ہوتا تھا کہ ہرسیمسٹر کے ابتدائی، درمیانی اور آخری امتحان میں ہم جو پرچے دیتے، اساتذہ وہ ہمیں مارکنگ کے بعد دکھاتے، یہ پوچھتے کہ کسی کو اعتراض تو نہیں کہ پرچہ اچھا کیا ہے مگر نمبر کم ملے ہیں مارکنگ میں غلطیوں کی نشاندہی ہو جاتی اور کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی یہ الزام لگتا تھا کہ اساتذہ کسی خاص طالب علم پر نوازشات کررہے ہیں۔ اب یہ شفافیت مفقود ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اب طالب علموں کو مارک شدہ پرچے نہیں دکھائے جاتے۔ بس سیمسٹر کے نمبر بتا دیئے جاتے ہیں۔ استاد اور طالب علم کے درمیان جو اعتماد کا رشتہ تھا، وہ بھی قصہء پارینہ بن چکا ہے۔ اس نظام نے اساتذہ کو، سب نہیں البتہ زیادہ تر کو سخت گیر بنا دیا ہے۔وہ طالب علموں کو فاصلے پر رکھتے ہیں اور خوف کے ہتھیار سے لیس ہوتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ کسی طالب علم نے امتحان میں ناکامی یا استاد کے امتیازی سلوک کی وجہ سے خودکشی کرلی۔ یہ صورتِ حال سیمسٹر سسٹم کی روح کے خلاف ہے۔ اس نظام کا تو حسن ہی یہ ہے کہ اس میں استاد اور طالب علم کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے۔ استاد طالب علم کے مسائل کو سمجھتا ہے۔ کسی وجہ سے اس کی غیر حاضری بڑھ جاتی ہے تو اس کا سبب جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ شاگرد کسی مسئلے کا شکار ہے تو اس کی مدد کرکے نکالنے کی کوشش بھی استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے،مگر ہمارے سیمسٹر سسٹم میں ایساکچھ بھی نہیں۔ اساتذہ نرگسیت کا شکار ہیں، انہیں یہ زعم ہے وہ طالب علموں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ان کے اندر اپنے شاگردوں سے محبت کی بجائے نفرت کی آگ جلنے لگی ہے۔ یہ میں سنی سنائی باتیں نہیں کررہا۔ یہ یونیورسٹیوں کے ہر شعبے کی کہانی ہے اور سامنے کی حقیقت سمجھی جاتی ہے۔
اب ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی آتے ہیں۔ میرے ایک شاگرد یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ وہ ایک دن میرے پاس آئے اور کہا وہ یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں حیران ہوا، اچھی بھلی ملازمت کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی کہنے لگے یہ سیمسٹر سسٹم، جس نے ہمیں جج بنا دیا ہے، گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ اگر میں امتحانی پرچے دیانتداری سے چیک کرکے نمبر دیتا ہوں تو کہا جاتا ہے یہ پروفیسر صاحب جان بوجھ کر کسی کو زیادہ اور کسی کو کم نمبر دیتے ہیں۔ اگر میں مارکنگ میں سب کو پاس کرنے کا رویہ اپنا لوں تو ضمیر کچوکے لگاتا ہے کہ تم تعلیم کے زوال کا باعث بن رہے ہو۔ ان دونوں سے بند ہ بچ بھی جائے تو یہ کھٹکا بھی رہتا ہے، فیل ہونے والی کوئی طالبہ ہراسمنٹ کا الزام نہ لگا دے، اس صورت حال میں یہ نوکری تو کانٹوں کی سیج بن گئی ہے اس لئے چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے سمجھایا تم طالب علموں سے دوری کی بجائے انہیں اپنے قریب رکھو، ان سے مکالمہ کرو، انہیں سمجھاؤ کہ استاد کسی کا دشمن نہیں ہوتا، لیکن وہ اپنے منصب کے تقاضوں سے روگردانی بھی نہیں کر سکتا۔ اس نے صرف پڑھانا ہی نہیں ہوتا امتحان لے کر یہ جائزہ بھی لینا ہوتا ہے جو پڑھایا ہے وہ طالب علم تک پہنچا بھی ہے یا نہیں۔ اس سے تمہیں طالب علموں کا اعتماد بھی حاصل ہوگا اور خود تمہارے اندر بھی اعتماد پیدا ہوگا۔ وہ چلے گئے تو میں سوچنے لگا سیمسٹر سسٹم میں تو بڑی اصلاح کی ضرورت ہے، مگر اس طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں، بلکہ اب تو کالجوں میں بی ایس پروگرام شروع کرکے یہ سسٹم رائج کر دیا گیا ہے، وہاں یہ نظام کیا غضب ڈھاتا ہے، کیا اس پر نظر رکھی جائے گی؟ جواب اثبات میں دینا مشکل ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ