دنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپ کو زانو سے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں اور پھر اڑنا، سر خالد حمید بھی وہی استاد تھے ۔۔ کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بھی "تھا” لگانا پڑا۔ آج کا دردناک اور لرزه خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ابھی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جا رہا ہے تو مجبورا ًلکھنا ضروری ہے ۔۔ سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پھر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.
سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تھے آپ کی علمی استعداد، آپ کا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وه طالب علم جس نے آپ کا ایک لیکچر بھی لیا آپ کا گرویده ہوگیا،یہ بات آج ایس ای کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی بڑی تعداد نے ثابت بھی کردی۔ صوم و صلواة کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لحاظ سے ان کو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کہ کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بھی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی کبھی بالواسطہ بھی برائی نہیں کی تھی ۔ ڈائس سے کبھی کوئی غیر اخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبھی مذہب کو چھیڑا تک نہیں یہ بات میں اس لئے کر رہا ہوں کہ 3سال ان کے پاس پڑھا ہے میں نے ۔ وقت گزارا ہے ، سفر کیا ہے ، حال دل سنا اور سنایا ہے انہیں ۔ ہر سٹوڈنٹ تائید کرے گا میری ۔۔
پھر آخر اس پیارے انسان کو انھی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟
خطیب حسین 5th سمسٹر کا لڑکا ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اس کے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچھلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تھوڑا مختلف ہو گیا تھا ۔۔ مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مذاق اور گپ شپ کو بھی حرام قرار دیتا تھا ۔ ایک بار تو مولانا خادم کا فتویٰ پیش کیا کہ ہنسنا بھی حرام ہے ۔ یہ لڑکا پڑھنے میں بہتر تھا کلاس میں خاموش رہتاتھا ۔۔ سر نے پانچویں سمسٹر میں اس کو پڑھانا شروع کیا یعنی ابھی 2ماه ہی ہوئےتھے۔۔
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہنچا تو پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پار ٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپین کلچر کو لایا جا رہا ہے اور یہ اسلام کے منافی ہے ۔۔ نیچے منجانب طلبہ لکھا ہوا تھا یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بھی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں
1-جب پارٹی ابھی ہوئی نہیں تو کیا تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟
2-اتنی سلیس اردو میں لکھے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں ؟ کیا باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تھا؟
(پارٹی دراصل ایک اینول ڈنر ہوتا ہے جس کی تیاری سر خالد کے ساتھ مل کر ہم سبھی طالبہ و طالبات کرتے ۔ اس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے)
اس پمفلٹ والے واقعے کے اگلے روز صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور انہیں نیچے گرا کر پے در پے خنجر کے وار کرتا رہا۔ چو نکہ لیکچرز دیر سے ہوتے ہیں تو صبح کے وقت طلبہ کی زیاده تعداد نہیں ہوتی۔ ایک لڑکی نے جب دیکھا تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی ۔اس کی چیخ کی آواز سے لڑکے بھاگ کر گئے تو دیکھا وه جنونی خنجر سےمار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹھا ہے ۔ ایمبولینس آگئی ، ڈولفن پولیس پہنچ گئی مگر سر تو اسی وقت دم توڑ گئے تھے ۔ جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچھا کہ تم نے وار کیوں کیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تھا۔
اس بدبخت نے سراسر جھوٹ بولا ہے،سر کو پڑھاتے20 سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وه ایسا کچھ کہہ سکتے ہیں ۔۔ سر نے 10 سال سعودی عرب میں گزارے ہیں 3 سے 4 بار حج کر رکھا تھا ، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اس کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی ۔ یہ ان کی فطرت تھی ان کا بس جرم یہ تھا کہ وه منافق نہ تھے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکھا جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچھا مسلمان، ایک اچھا دوست اور شفیق والد تھا۔۔
خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقین اس کے پیچهے وه سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد. یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کون سا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وه نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وه اسلام تھا جو فتح مکہ کے موقع پر دیکھنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جھوٹے انتہا پسند مولویوں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کھوئیں گے؟
آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتھوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جاہل نے خنجر سے مار ڈالا۔۔
اس واقعہ کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکھنے مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پھیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہا ہے.
فیس بک کمینٹ