شاعری کے عالمی دن کے موقع پر ہم اپنے اپنے اشعار سوشل میڈیا کی زینت بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا اور یومِ شاعری کا حق بھی ادا ہو گیا ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم بھیڑ چال کا شکار ہیں ۔ اب ہم دل کی نہیں دکھاوے کی بات کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے لفظ بے معنی بلکہ بے برکتے ہو چکے ہیں ۔ ہم جسے شعر سمجھ کر سر دھنتے ہیں اور سینہ پھلا کر داد وصول کرتے ہیں ہمیں خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ شعر بھی ہے یا نہیں ۔ ہم شاعری دل کی بات کرنے کے لیے نہیں داد وصول کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔
ہم ذہنی پس ماندگی کا شکار ہیں سو عوام کے شعری ذوق کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی سطح پر جا کر شعر کہنے لگتے ہیں ۔ ہم صرف ان مسائل پر بات کرتے ہیں جن پر بات کرنے کی اجازت ہے ۔ ہمیں چونکہ سرکار دربار بہت عزیز ہیں اس لیے کوشش کرتے ہیں کہ ایسا شعر کہیں جو کسی کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے ۔ ہم محدود شعری محافل کی صدارتیں قبول کر کے محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایک ڈربے میں رہتے ہوئے حالت یہ ہو گئی کہ اب وہ ڈربہ ہی ہماری کل کائنات ہے اور جو آزادی یا اس ڈربے سے باہر نکلنے کی بات کرے ہم اسے غدار کہتے ہیں ۔ ہم اپنا حق تو مانگتے ہیں لیکن ریاست جن کے حقوق پامال کرتی ہے ہم ان کی آواز نہیں بنتے ۔ ہمارےبلوچ نوجوان اپنے حقوق کی جنگ میں لاپتا اور قتل ہو رہے ہیں لیکن ہمیں ان کی پکار پر کان دھرنے کی فرصت نہیں ہم ان کے لیے شعر یا نظم اس لیے نہیں کہتے کہ ہمیں ان مقامی قسم کے مسائل کو نظر انداز کر کے شاعری کا عالمی دن منانا ہے ۔
فیس بک کمینٹ