گزشتہ ہفتے سانگھڑ کے علاقے کھپرو سے رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کے بلاوے پر واٹر سپلائی کا ایک بڑا منصوبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
اس منصوبے کے تحت لوئر نارا کینال سے پانی لے کر جمال آباد کے آٹھ اعشاریہ تین ملین گنجائش والے واٹر پروسینگ حوضوں میں انسانی استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے اور پھر پاک بھارت سرحد تک اچھرو تھر ( سفید تھر ) میں سے گزرتی چھپن کلو میٹر طویل پائپ لائن پچاس ہزار گیلن سے لے کر بیس ہزار گیلن گنجائش تک کے پختہ ڈھکے ہوئے حوضوں کو ٹر ہاشم کے سرحدی گاؤں تک بھرتی چلی جاتی ہے۔اس پائپ لائن سے ایک سو پچاسی کلومیٹر زیلی پائپ لائنیں آس پاس کے لگ بھگ ایک سو چھ صحرائی گوٹھوں کے پالتو جانوروں اور انسانوں کی پیاس بجھانے کا کام کرتی ہیں۔
جب سے اس پٹی کے صحرا نشینوں اور ان کے مویشیوں کو گھر کے بہت قریب قابل ِاستعمال پانی کی سہولت پہلی بار میسر آئی ہے تب سے زندگی کے اطوار بھی بدلنے لگے ہیں۔طلوعِ آفتاب سے دوپہر شروع ہونے تک اور پھر سہہ پہر کے سائے ڈھلنے سے مغرب کے ملگجے رنگ تک یہ صحرائی اور ان کے مویشی بڑے بڑے بند حوضوں کے گرد جمع ہو جاتے ہیں ، کپڑے دھلتے ہیں ، واٹر کچہری جمتی ہے ، جانوروں کے مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور مقامی سیاست تو خیر موضوعِ گفتگو ہوتی ہی ہے۔
مجھے شائد صحرائیوں سے اس لیے بھی ذاتی نسبت ہے کہ میرا جنم بھی ایک ایسے قصبے میں ہوا جہاں کی ایک سمت چولستان سے جا ملتی ہے۔صحرا واحد جگہ ہے جہاں ایک پھول بھی کھل جائے تو دور دور سے نظر آتا ہے۔صحرا ہر حال میں شکر ، صبر اور ثابت قدمی سے جینا سکھاتا ہے۔لہذا کسی صحرائی کے لبوں پر کبھی کبھار جب مسکراہٹ آتی ہے تو وہ سو فیصد خالص ہوتی ہے۔اس میں شہری طنز کی ملاوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آنکھوں میں ایسی مسکراہٹ سے چمکنے والے ستاروں کے ہوتے کسی پیشہ ور سیاست باز سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی کہ اس نے اپنے ووٹروں کے لیے آسمان سے کتنے تارے توڑے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اچھرو تھر میں تھرپارکر کی طرز پر صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس ( ریورس اوسموسس) نصب کرنے کا تجربہ نہیں کیا گیا اور پرانے مگر آزمودہ پائپ لائن سے پانی کی ترسیل کا نسخہ اپنایا گیا۔کہنے کو تھرپارکر سمیت دیہی سندھ میں سترہ سو آر او پلانٹ لگائے گئے۔مگر ان کی مسلسل دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب بہت سے جلد ہی دم توڑ گئے اور اب وہ جواں سال لاشوں کی طرح ناقص پلاننگ کا کفن اوڑھے پڑے ہیں۔تھر پارکر سمیت دیگر دور افتادہ علاقوں میں بھی اگر پائپ لائنوں کے ذریعے صاف پانی کی سپلائی پر دھیان دیا جاتا تو دیکھ بھال کا خرچہ بھی کم ہوتا اور پانی کی فراہمی اور پینے والوں کی دعائیں بھی مسلسل رہتی۔
حالانکہ کسی بھی دیہی علاقے میں جدید آبی ، رہائشی و صحت کی معیاری سہولتیں بہت کم خرچے میں فراہم کی جا سکتی ہیں اگر مقامی مشاورت کو ترجیح دی جائے۔مقامیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کیا سہولتیں چاہتے ہیں اور ان سہولتوں کی تکمیل کے لیے مقامی طور پر کیا کیا خام مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔لیکن اگر ملٹی نینشل ایڈوائزروں کے بورڈ رومز میں نقشے پھیلا کر ریاستی بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو شیشے میں اتار کر مقامی مشاورت اور تجربے کو بلڈوز کر کے کسی اٹھارویں صدی کے علاقے کو انیسویں صدی کے اوپر سے گزار کر بیسویں صدی کی چھلانگ لگواتے ہوئے اکیسویں صدی میں براہِ راست اتار دیا جائے تو پھر صحرائی علاقے کے مکین کے سر پر گھانس پھونس کی صدیوں سے سایہ فگن ٹھنڈی چھت کی جگہ کنکریٹ کی پختہ چھت تو ضرور ہوگی مگر وہ اس چھت کے نیچے پچاس ڈگری سنٹی گریڈ میں بلبلا اٹھے گا اور ترقی کے لفظ سے ہی ڈرنے لگے گا۔
کسی بھی پسماندہ علاقے میں جدید منصوبہ شروع کرنا کوئی کارنامہ نہیں۔اصل امتحان اس منصوبے کی تکمیل کے بعد شروع ہوتا ہے جب دیکھ بھال کا مرحلہ آتا ہے۔میں نے سرکاری اسپتالوں میں کروڑوں روپے کی مشینری صرف اس لیے ناکارہ ہوتے دیکھی ہے کہ پچاس لاکھ کا ایکسرے پلانٹ تو نصب ہوگیا لیکن جب دورانِ استعمال کوئی پرزہ ٹوٹ گیا تو اسے بدلنے کے لیے چار ہزار روپے کا بجٹ بھی میسر نہیں تھا۔میں نے دیہی پاکستان میں کئی فارم ٹو مارکیٹ پکی سڑکیں بنتی دیکھی ہیں مگر افتتاحی تقریب کے بعد دیکھ بھال کا کوئی نظام نہ ہونے کے سبب ایک ہی برس میں شاندار سڑک نے اپنی اوقات دکھانی شروع کردی اور دوسرے برس میں راستہ جا بجا گڑھے پڑنے سے اتنا تکلیف دہ ہوگیا کہ لوگ اس سڑک پر چلنے کے بجائے اس سے بچ کے چلنے لگے۔
کئی کروڑ روپے خرچ کر کے چند مہینے کی بہار دکھانے کا کیا فائدہ جب تک ہاتھی خریدنے سے پہلے دروازے اونچے کرنے کا انتظام نہ ہو۔کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ اگر اپنی زندگی شروع کرنے سے پہلے ہی محض دیکھ بھال کا نظام نہ ہونے کے سبب دم توڑ جائے تو اسے غیر ترقیاتی منصوبے کا نام دینے میں کیا حرج ہے۔کم از کم علاقے کے لوگوں کو صبر تو آ جائے گا۔
میں نے یہی کچھ پرجوش ایم این اے شازیہ مری سے بھی پوچھنے کی کوشش کی۔ان کا جواب تھا کہ اگر اچھرو تھر واٹر سپلائی کی دیکھ بھال انھیں ایم این اے فنڈکے علاوہ زاتی خرچ سے بھی کرنی پڑی تو کریں گی۔
یہ جواب قابلِ قدر ضرور ہے مگر مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں۔تاوقتیکہ پچاس لاکھ کے منصوبے کے لیے پچیس لاکھ سالانہ کا دیکھ بھال بجٹ نہ رکھا جائے۔اور یہ بجٹ بھی جیبوں کی دیکھ بھال کے بجائے منصوبے کی خدمت پر کڑے آڈٹ کی روشنی میں خرچ ہو۔ یہ بھی کافی نہیں جب تک کہ نیا ایم این اے اور نئی حکومت سابق حکومت کے ہر منصوبے کو عوام دشمن قرار دے کر نظرانداز کرنے یا جاری منصوبوں پر نئی افتتاحی تختیاں لگانے کے مرض سے چھٹکارا پا سکیں۔
فی زمانہ مارکیٹنگ کی بھی بنیادی اہمیت ہے۔اکثر ہوتا ہے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔میڈیا تو خیر ہر منصوبے کا برا پہلو سب سے پہلے دیکھتا ہے لیکن اس کا توڑ بھی منصوبے کی مارکیٹنگ میں ہے۔اس معاملے میں شہباز شریف حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال دینا پڑے گا کہ چونی کا منصوبہ بھی ایک روپے کا مشہور کرنے میں اسے کمال حاصل ہے۔ کے پی حکومت کی مارکیٹنگ تو اس لیے کمزور ہے کیونکہ اس کی قیادت کی ایک آنکھ پشاور پر اور دوسری بنی گالہ کے ہر آن بدلتے مزاج پر لگی رہتی ہے۔
بلوچستان میں مقامی حکومت کو اپنی بقا کی جنگ اور گردن پر مسلسل گرم گرم سانسوں کے غداب سے فرصت ملے تو وہ کچھ اور سوچے۔مگر سندھ حکومت کی مارکیٹنگ کیوں کمزور ہے۔مثلاً اگر شازیہ مری زاتی طور پر نہ بتاتیں کہ ہمارے علاقے میں پانی کی سپلائی کا کام آ کر دیکھیں تو ہم جیسے صحافی جو بمشکل کراچی کا ٹول پلازہ عبور کرنے سے پہلے دس بہانے سوچتے ہیں۔ انھیں کیسے پتہ چلتا کہ اچھرو تھر کے ایک سو چھ دیہاتوں نے اپنی زندگی میں ہی صاف پانی ہاتھ میں بھر کر دیکھ لیا ہے۔
چلتے چلتے ایک اور سوال۔کسی بھی حکومت کے پانچ سالہ دور کے آخری ڈیڑھ دو برس میں ہی ترقیاتی پھرتیاں کیوں نظر آتی ہیں۔اگر ترقی کا فارمولا یہی ہے تو پھر کیوں نہ حکومت کی آئینی مدت پانچ سے کم کر کے دو برس کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ