چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے لہٰذا انسان نے جو ملک بنائے ہیں وہ بھی خطا کے پتلے ہیں۔ چنانچہ انسانوں کی طرح ملکوں سے بھی چھوٹی بڑی دانستہ نا دانستہ خطائیں سرزد ہوتی ہیں، مگر یہ بات پچھلے سو ڈیڑھ سو برس میں چند ریاستوں کی سمجھ میں ہی آ سکی ہے کہ خود احتسابی کے نظام سے نہ صرف ایک ہی غلطی بار بار دہرانے سے بچا جا سکتا ہے۔ بلکہ نئی غلطیوں کے نقصانات کو کم سے کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً امریکا میں ابتدائی پونے دو سو برس تک غلاموں کی خرید و فروخت نو آبادیاتی و ریاستی پالیسی رہی۔ مگر اس کے خلاف ردِعمل خود امریکی سماج کے اندر سے اٹھا اور غلامی نوازوں اور مخالفین میں جم کر خانہ جنگی ہوئی۔ چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا میں آج بھی نسلی تعصب موجود ہے۔ ہاں ہے مگر پہلے تو یہ تعصب قانونی پالیسی تھا۔ جیسے ضیا دور ختم ہو گیا مگر باقیات تو ختم نہیں ہوئیں، مگر آج کے پاکستان کو آپ کا ضیا دور کا پاکستان تو نہیں کہہ سکتے۔
ہیرو شیما اور ناگاساکی پر امریکا نے ایٹم بم گرایا۔ اس کے بعد ہزاروں ایٹم بم اور بنائے گئے۔ کئی بار کئی جنگوں میں امریکی جرنیلوں نے ایٹم بم گرانے کی صلاح بھی دی مگر گرایا تو نہیں۔ کیونکہ رائے عامہ کے شدید ردِعمل کا خوف شاید ایٹم بم گرانے کے خوف پر غالب آنے لگا تھا۔ ویت نام کی جنگ میں امریکا گردن گردن پھنس گیا لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی رائے عامہ اس جنگ سے بیزار نہ ہوتی اور خاموش بیٹھی رہتی تو یہ جنگ امریکی ریاست اتنی عجلت میں ختم کر دیتی
نائن الیون کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی عوام واشنگٹن میں ملین مارچ کرتے کہ تمام مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی جائے مگر ایسا تو نہیں ہوا۔ بلکہ نائن الیون کے دو برس بعد عراق پر امریکی حملہ روکنے کے لیے مسلمان ممالک میں جتنے مظاہرے ہوئے ان کے شرکا کی مجموعی تعداد سے زیادہ امریکی تو سان فرانسسکو کے ایک احتجاجی جلوس میں اپنی ہی ریاستی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
نومبر 2015ء میں پیرس خود کش حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔ جولائی 2016ء میں نیس شہر میں ایک ٹرک حملے میں 90 افراد مارے گئے۔ اگر ایسے حملے دلی میں کوئی مسلمان خود کش بمبار یا لاہور میں کوئی ہندو یا مسیحی کرتا تو سوچیے اس کے بعد کیا ہوتا۔ ( 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کا پاکستان میں ردِعمل یاد کر لیجیے)۔ مگر اس وقت یورپ میں جو ممالک ٹرمپ کی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد ہیں ان میں نازی نسل پرستی کے زخم خوردہ جرمنی اور فرانس آگے آگے ہیں۔ حالانکہ بہت آسان تھا کہ یورپ بھی متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان کی طرح سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر پابندی کو امریکا کا اندرونی معاملہ قرار دے دیتا۔ اور کینیڈا کو کیا پڑی کہ اپنے طاقتور ہمسائے کی امیگریشن پالیسیوں سے متاثر پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے دے؟ کینیڈا کو ٹرمپ انتظامیہ کے ردِعمل کا خوف کیوں نہیں؟ کینیڈا چھوڑ، خود امریکا کا غریب ہمسایہ میکسیکو بھی بےخوف کیوں ہے؟ اس کی تو معیشت کا دار و مدار ہی امریکا پر ہے۔ ہاں ٹرمپ کو امریکی ووٹروں نے ہی صدر بنایا مگر ان دو لاکھ عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے حلف برداری کے اگلے دن واشنگٹن کا محاصرہ کر کے بتا دیا کہ ایسے نہیں چلے گا؟ ان ججوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جنہوں نے سات مسلمان ممالک پر پابندی کے حکم کو عبوری طور پر معطل کر دیا؟ ان 11 سابق اٹارنی جنرلز کے بارے میں کیا رائے ہے جو مائنس ٹمپریچر میں بھی امریکا کے تین ہوائی اڈوں کے باہر سینکڑوں وکلا اور ہزاروں مظاہرین کے ساتھ جمے رہے اور اندر پھنسے مسافروں کے منتظر عزیزوں کی جانب سے مفت قانونی پیٹیشنز تیار کرتے رہے؟(اور ہم نے ایک ہیپٹائٹس سی کی افغان مریضہ شربت گلے کے لیے کیا کیا؟) ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم میں اور امریکا میں بہت فرق ہے۔ وہاں احتجاجیوں اور دل کی بات زبان پر لانے والوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہمارے جیسی ریاستوں میں یہ ممکن نہیں۔ اگر یہی سوچ امریکیوں کی بھی ہوتی تو آج بھی شاید وہاں کے کھیتوں میں کالے غلام پا بہ زنجیر کپاس چن رہے ہوتے۔ نائن الیون کے بعد تمام امریکی مسلمان اسی طرح کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوتے جیسے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی نژاد امریکیوں کو رکھا گیا۔ امریکا سے وظائف، قرضے، اسلحہ، ہجوم کنٹرول کرنے کے آلات، طفیلی بننے اور بنانے کے نسخے، خدماتی کرائے کے ڈالر اور نظرِ کرم وغیرہ ہی کیوں آتے ہیں؟ ناحق ریاستی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردِ عمل کے بیج کیوں درآمد نہیں ہو سکتے؟ یہ سوال ریاست سے نہیں عوام سے ہے۔
اب تک صرف ایران نے امریکی باشندوں پر جوابی سفری پابندی عائد کی ہے۔ کوئی اور مسلمان ملک؟ آپ جانتے ہیں سات مسلمان ممالک کے باشندوں پر سفری پابندیوں کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ مشرقِ وسطیٰ میں کہاں ہوا؟ تل ابیب میں ۔۔۔
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ