رضی الدین رضی کی کی ادارت میں شائع ہونے والی ویب سائیٹ ’’گردوپیش‘‘ پر رانا تصویر احمد کے نام سے ایک مضمون بعنوان ”حقیقی منافق کون ؟ پلاک اور سرائیکی سنٹر کا موازنہ “ لگا ہوا ہے جس پر مجھے بات کرنی ہے ۔ رانا تصویر صاحب کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پروفیسر شوکت مغل صاحب کا ایک کالم ”منافق کون؟“ کے نام سے شائع ہوا ہے انہوں نے اپنے کالم میں دلیل کے ساتھ بات کرنے کی بجائے راجپوت قبیلے کو نشانہ بنایا ہے میں ان سے صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس خطے کا (جس کا آپ خود کو رہنما کہتے ہیں )سب سے بڑا قبیلہ راجپوت ہے ۔ راجپوت قبیلے کے 360 ذیلی قبائل ملک بھر اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں رہتے ہیں اور میں ان کے نمائندہ کے طور پر آپ سے مخاطب ہوں (حالانکہ مجھے اندازہ ہے کہ یہ کوشش بے سود ہے)
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ پروفیسر شوکت مغل نے راجپوت قبیلے پر کوئی تنقید نہیں کی ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ راجپوت قبیلے کی 360 سے بھی زیادہ ذیلی شاخیں ہوں گی ۔ دھریجہ شاخ بھی راجپوت قبیلے سے ہے میں بتانا چاہتا ہوں کہ راجپوت ایک ذات ہے جو کہ پاکستان وہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے لیکن اس ذات کے لوگ جہاں جہاں آباد ہیں ان کی زبان اور قومیت اُسی سر زمین کے حوالے سے ہے ۔ صرف ہندی مارواڑی یا اُردو والوں کا ٹھیکہ نہیں اگر رانا تصویر کو اس کا علم نہیں تو کم از کم اُن کے پس پردہ پروموٹروں کو اس طرح کی دانشوریاں رانا تصویر کے نام سے نہیں بکھیرنی چاہئیں۔جہاں تک منافق کون کی بات ہے تو پروفیسر شوکت مغل کا مضمون دیکھئے کہ مغل صاحب نے صرف جواب دیا ہے منافق کون کے نام سے شائع ہونے والا مضمون پروفیسر شوکت مغل کا نہیں بلکہ سرائیکی ماں دھرتی کے کسی ایسے ہی بے فرمان بیٹے کا تھا جو سرائیکی ماں دھرتی کی آغوش میں رہتا ہے اور پھر اس کی آن پر بہانے بہانے سے حملے بھی کرتا ہے ۔ رانا تصویر کہہ رہے ہیں کہ اُردو کے طفیل شوکت مغل کو پروفیسر کا اعزاز حاصل ہوا اگر ناگوار نہ گزرے تو اُردو کی نوازشات واپس کر دیں ۔یہی بات سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ زبانیں تو معصوم ہوتی ہیں ، زبانیں تو اظہار کا ذریعہ ہیں ، زبانوں کو ہتھیار کے طور پر کون استعمال کرتا ہے؟ اور اُردو کو متنازع کس نے بنایا ؟ کیا اُردو کو کسی سرائیکی ،سندھی ،پنجابی، بلوچ اور پشتو نے متنازع بنایا ؟ نہیں نہیں قطعاً نہیں اُردو کو متنازع بنانے میں اشرف قریشی اور رانا تصویر جیسے لوگوں کا ہاتھ ہے جو دوسروں کی زبان اور ثقافت کمتر اور اپنی زبان کو برتر سمجھتے ہیں اور اسے مسلم بنا کر افضل ترین زبان منوانا چاہتے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والی قومیں جن کی اپنی صدیوں کی تاریخ ہے نے انڈیا سے آنے والے دو فیصد اُردو بولنے والے لوگوں کی اُس زبان جسے وہ خود زبانوں کا ملغوبہ کہتے ہیں ، کو قومی زبان مان لیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہندی زبان کے پیٹ سے پیدا ہونے والی اس زبان کو آج ہندوستان میں کوئی پوچھتا نہیں لیکن یہ پاکستان کی ملکہ بن گئی ہے ۔ رانا تصویر جیسے لوگوں کو لاکھ بار پاکستان میں بسنے والی قوموں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ انہوں نے اُن کی زبان کو قومی زبان مانا ، باوجود اس کے اس زبان میں نہ تو وسعت ہے نہ گہرائی ، نہ یہ تعلیمی زبان بن سکی ہے نہ دفتری ، اسی کی وجہ سے اہل وطن پر سامراج کی انگریزی زبان کو پنجے گاڑنے کا موقع ملا ، اسی اُردو کی وجہ سے غریبوں کے بچوں کا مستقبل تباہ ہوا ۔ انگلش میڈیم میں پڑھنے والا امراءکا طبقہ ڈی سی او ، ڈی پی او ، کمشنر ،بریگیڈئر ، جنرل بنا ہوا ہے جبکہ اُردو میڈیم سکولوں میں پڑھنے کی وجہ سے غریبوں کے بچے کلرک اور ٹیچر سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ تو کیا رانا تصویر کے پاس اس کا جواب ہے ؟ اگر دھرتی کی زبانوں کو اہمیت دی گئی ہوتی تو انگریزی کو یہاں راج کرنے کا موقع نہ ملتا ۔ جہاں تک اُردو کی نوازشات واپس کرنے کی بات ہے تو میں رانا تصویر کو بتانا چاہتا ہوں کہ اُردو بولنے والے بہت سے لوگ انگریزی پڑھا رہے ہیں تو کیا وہ انگریز ہو گئے ؟ رانا تصویر کو ان اُردو دانوں کو بھی کہنا چاہیے کہ وہ انگریزی کی نوازشات واپس کریں۔ میں رانا تصویر کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں اُردو بولنے والے بہت سے مسلمان یونیورسٹیوں میں ہندی پڑھا رہے ہیں ۔ تو کیا یہ اُن پر ہندوﺅں کی نوازشات ہیں ؟ پروفیسر شوکت مغل ہو یا کوئی اور وہ پڑھانے کی ڈیوٹی دیتا ہے تو اس کا معاوضہ اسے تنخواہ کی صورت میں ملتا ہے اور یہ تنخواہ کوئی اُردو دان یا حکمران اپنی جیب سے نہیں دیتا ، یہ تنخواہ در اصل عوام کی طرف سے ہوتی ہے کہ کسی بھی سٹیٹ کے اصل وارث وہاں کے لوگ ہوتے ہیں۔اگر رانا تصویر نے بحیثیت اُردو دان اپنی جیب سے تنخواہ دی ہے یا شوکت مغل پر نوازشات کی ہیں تو ہم اُن کو واپس دلانے کے لئے تیار ہیں ۔
رانا تصویر پنجابی ادارے پلاک کی بھی وکالت فرما رہے ہیں حالانکہ پرویز الٰہی دور میں جب یہ ادارہ بنایا گیا تو بتایا گیا تھا کہ اس ادارے کے 3 سنٹر ہوں گے ۔ لاہور سنٹر پنجابی کے لئے ہو گا ،پنڈی سنٹر پوٹھوہاری زبان کے لئے ہو گا اور ملتان سنٹر سرائیکی زبان کے لئے ہو گا ۔ کہا گیا تھا کہ ایک ہی طرح کی سب کی عمارتیں بنیں گی ، سب میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی قائم کئے جائیں گے ، سب کا سٹاف برابر ہو گا اور سب کا بجٹ بھی برابر ہوگا ۔پلاک کے پہلے ڈی جی ڈاکٹر شہزاد قیصر ملتان آئے اور ریسٹ ہاﺅس میں ملتان کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے ملاقات کے دوران کہا کہ اس ادارے کا نام پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر رکھا جا رہا تھا، پھر ہم نے اسے پنجابی کی بجائے پنجاب انسٹیٹیوٹ کرایا ۔کہ یہ تینوں زبانوں کا ادارہ ہو گا اب وکالت کرنے والے رانا تصویر اور اس ادارے کے دوسرے پس پردہ حامیوں سے میں سوال کرتا ہوں کہ پنڈی اور ملتان کے سنٹر کہاں گئے ؟ پنجابی ادارے پر اربوں خرچ ہوئے سرائیکی پر کیوں نہیں؟میں اُن سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ ہر سال پلاک پر کروڑوں کا خرچہ آ ر ہا ہے کیا اس کے اخراجات میں ہمارے خون پسینے کی کمائی شامل نہیں ؟ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کب تک تم لوگ تعصب کی آگ میں خود کو جلاتے رہو گے ؟ کب تک اپنے پاﺅں پر کلہاڑیاں مارتے رہوگے؟ کب تک بلا وجہ تمہارے دل تخت لاہور کے ساتھ دھڑکتے رہیں گے ؟ کب تک تم اس خیال کو نہیں سمجھو گے کہ وہی قتل بھی کرے اور وہی لے ثواب اُلٹا۔ اگر آپ لوگوں میں انصاف ہوتا تو کہتے کہ ایک ارب سے زاید لاگت کا پنجابی کمپلیکس قذافی سٹیڈیم میں بنایا اور ریڈیو ٹی وی بھی شروع کر لئے تو منصوبے کے مطابق پوٹھوہاری اور سرائیکی کو بھی ان کا حق دو ، عجب بات ہے ظالموں اور غاصبوں کی وکالت کر رہے ہو؟ رانا تصویر کو سرائیکی ایریا سنٹر اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ سے بھی تکلیف ہے وہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ یہ سنٹر فارسی، پنجابی ، سرائیکی اور اسلامی ریسرچ سنٹر کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ میں اُن کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ شعبہ میرے عدالتی مقدمے کے نتیجے میں قائم ہوا ، ڈاکٹر انوار عدالتی مقدمے میں مخالف فریق تھا یہ اڑھائی سال میرے خلاف عدالتوں میں لڑتے رہے اور جب فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا تو پھر بھی ان لوگوں نے سینہ زوری سے کام لیا اور سرائیکی شعبہ قائم نہ ہونے دیا ، میں دوبارہ توہین عدالت میں چلا گیا میرے اڑھائی سال مزید لگ گئے یہ لوگ بہانے پہ بہانہ بناتے رہے ان کا آخری بہانہ یہ تھا کہ ہمارے پاس فنڈنہیں ہم عمارت کے بغیر ڈیپارٹمنٹ شروع نہیں کر سکتے ، حالانکہ میں نے اپنے وکلاء کی مدد سے دلائل کے انبار لگا دئیے اور میں نے بتایا کہ فلاں فلاں شعبہ جات بغیر عمارتوں کے شروع ہوئے یہ لوگ بتائیں کہ اُن کے فنڈز کہاں سے آئے؟ اور میں نے یہ بھی دلیل دی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے زکریا یونیورسٹی دی تو اس کی عمارت کہاں تھی؟ یہ یونیورسٹی خود ایک سکول کے کمروں میں شروع ہوئی ۔ آخر کار عدالت نے فیصلہ کیا کہ ان کا آخری عذر بھی ہم ختم کرتے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کے لئے فنڈ کا لکھتے ہیں ۔ گویا ایسے ہوا اور چار کروڑ روپے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سرائیکی شعبے کی عمارت کے لئے جاری کئے ۔ اب یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ یہ شعبہ پنجابی کے لئے بنایا گیا تھا ، کیا رانا تصویر اتنے بڑے عدالتی ریکارڈ کو جھٹلا سکتے ہیں ؟ رانا تصویر کے پاس ثبوت ہے تو لے آئے کہ کہاں لکھا ہوا ہے پنجابی شعبہ ؟ میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ شعبہ پنجابی کو مل جائے اور ہم یہاں پنجابی شعبہ قائم کر دیں ۔ ڈاکٹر انوار اینڈ کمپنی پچھلے دنوں اس طرح کی سازشیں کرتی رہی ہے لیکن ہم نے واضح کہا تھا کہ اگر زکریا یونیورسٹی میں نیا پنجابی شعبہ کھلوانا ہے تو پھر پنجاب یونیورسٹی میں اور پنجاب کی دوسری یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے بھی کھلواﺅ ورنہ پنجابی شعبہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں ہماری لاشوں پر کھلے گا ۔ میں صاف بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ تعصب کا شکار ہیں یہ لوگ جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے لسانی فسادات کرائے اس علاقے میں بھی اسی طرح کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں ، سرائیکی کب متعصب تھے اگر سرائیکی متعصب ہوتے تو یہ کسی بھی غیر زبان بولنے والے کو اپنے گلے نہ لگاتے ، سرائیکی سندھ میں بھی رہتے ہیں اور صدیوں سے رہتے ہیں اور سندھ کے حریت پسند ہوشو شیدی نے ”مرویسوں مر ویسوں سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ بھی سرائیکی میں لگایا تھا ، کیا کبھی سندھ میں سرائیکی سندھی لسانی فسادات ہوئے ؟ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا سندھ میں سندھی پنجابی لسانی فسادات نہیں ہوئے ؟ کیا سندھ میں اُردو سندھی لسانی فسادات نہیں ہوئے ؟ میں کہتا ہوں قرآن کو گواہ بنا کر کوئی شخص اس کا فیصلہ دے کہ کون متعصب ہے اور کون تعصب کا ماحول پیدا کرتا ہے ؟اور اس کا بھی فیصلہ ہو نا چاہیے کہ جس طرح سرائیکی خطہ کا جاگیردار اس خطے کے حقوق اور اس کی شناخت کا دشمن ہے اور جاگیر دار کا دل اپنے ازلی تخت لاہور کے ساتھ دھڑکتا ہے کیا یہ مہاجر و آباد کار وسیب دشمنی کے گل کھلا رہے ہیں کیا غداری میں یہ جاگیرداروں سے دو ہاتھ آگے نہیں؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں طلباءکی تعداد کم ہے تو میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی کے دوسرے شعبہ جات کا بھی ریکارڈ اٹھائیے ہر جگہ طلباء کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں ، پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ اٹھائیے پھر دیکھئے کہ کیا وہاں طلباءکی تعداد مختلف اوقات میں کمی بیشی کا شکار نہیں رہی ؟ تو کیا پنجابی ڈیپارٹمنٹ والوں نے تعداد کی کمی کے باعث وہ شعبہ سرائیکی کے حوالے کر دیا تھا ؟ سرائیکی کے ساتھ بغض اور عناد رکھنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد وہاں کی زبان ،ثقافت اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے ، ہر یونیورسٹی کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ جو پہلا شعبہ قائم کرے وہ وہاں کی مقامی زبان میں ہونا چاہیے ، لیکن کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ ملتان یونیورسٹی کے پچاس سے زائد شعبہ جات میں سے سرائیکی واحد شعبہ ہے جو ہم نے پانچ سال کی عدالتی جنگ کے نتیجے میں حاصل کیا۔ رانا تصویر کے پاس اگر کوئی اس طرح کا ثبوت ہے کہ فلاں شعبے بھی عدالتی فیصلوں کے ذریعے وجود میں آئے تو زیادہ نہیں کم از کم ایک شعبے کے بارے میں مجھے آگاہ کر دیں میں اپنی بات واپس لے لوں گا ۔ عجب بات ہے کہ شہروں میں اُردو بازار قائم کئے گئے ، کراچی میں اُردو کالج بنایا گیا ، اُردو یونیورسٹی بنائی گئی ، ہم نے اعتراض نہیں کیا اگر ایک سرائیکی شعبہ ہم نے عدالت کے ذریعے قائم کرایا ہے تو سب کو تکلیف ہو گئی ہے اور سب ہمارے اس عمل کو لسانی قرار دے رہے ہیں ، اگر یہ لسانی ہے تو میں پوچھتا ہوں اردو بازار یا اردو یونیورسٹی کے نام کیا ہیں؟ جہاں تک سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں نا اہل سٹاف کی بات ہے تو یہ سٹاف میں نے نہیں آپ کے ممدوح ڈاکٹر انوار نے بھرتی کرایا ہے ان کی جواب طلبی کیوں نہیں کی جاتی، ہر وقت سرائیکیوں کے خلاف زہر کیوں اُگلا جاتا ہے؟ اگر آپ کے یا آپ کے سرپرستوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے تو دلیل کے ساتھ دیجئے ورنہ سرائیکی کے خلاف زہر اگلنے سے باز رہیے کہ چلو یہ آپ کی نہ سہی آپ کے آنے والی نسلوں کی زبان ہے اور اگر آپ کو اپنی ماں دھرتی کی زبان اور ثقافت سے محبت اور اس کے احترام کا شرف نصیب نہیں ہوا تو اپنی آنے والی نسلوں کو اس سے محروم نہ کیجئے ۔
فیس بک کمینٹ