جماعت الدعوۃ کے لیڈروں کی گرفتاری کے چند روز بعد ہی اس جماعت نے ’تحریک آزادی جمو ں و کشمیر‘ کے نام سے نئی تنظیم قائم کر کے چندہ اکٹھا کرنے اور سماجی خدمت کا کام شروع کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق لاہور اور مضافات میں نئی تنظیم کے بینر بھی آویزاں کئے گئے ہیں اور جماعت الدعوۃ کے دفاتر کو کھول کر وہاں چندہ وصولی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بیشتر علاقوں میں جماعت الدعوۃ کی ایمبولینس سروس بحال کر دی گئی ہے اور دفاتر نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت نے یکم فروری کو جماعت الدعوۃ کے سربراہ حفظ سعید اور ان کے متعدد ساتھیوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جماعت الدعوۃ اور اس کی معاون تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت شیڈول 2 میں ڈال دیا گیا تھا۔ فوج کے دفتر تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے اسے پالیسی فیصلہ قرار دیا تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے اقوام متحدہ کی قرار داد کی روشنی میں حافظ سعید ، ان کے ساتھیوں اور جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے دسمبر 2008ء میں ایک قرار داد کے ذریعے جماعت الدعوۃ کو ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ نومبر 2008ء میں ہونے والے ان حملوں میں 164 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تین سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملے 26 نومبر سے 29 نومبر تک تین روز جاری رہے تھے اور اس دوران ممبئی شہر دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا تھا۔ حافظ سعید نے ہمیشہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کسی پاکستانی شہری کے خلاف کارروائی کے لئے مناسب شواہد پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ لوگ عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت اور امریکا حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ امریکا نے حافظ سعید کی گرفتاری یا ہلاکت پر دس ملین ڈالر کا انعام بھی مقرر کیا ہوا ہے۔ وزیر داخلہ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ گزشتہ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ابھی تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا تھا تاہم اب اس کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ اس دوران بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ حافظ سعید کی گرفتاری کافی نہیں ہے ، ان کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے اس سے پاکستان کی نیک نیتی کا پتہ چلے گا۔ اس بیان کو پاکستانی وزارت خارجہ نے مسترد کردیا تھا۔ جماعت الدعوۃ کی طرف سے نئے نام سے سرگرمیوں کا آغاز ایک افسوسناک خبر ہے۔ خاص طور سے جب اس نئے گروہ نے نہ صرف حافظ سعید کے ساتھ وابستگی کا اقرار کیا ہے بلکہ وہ جماعت الدعوۃ کے دفاتر سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس گروپ نے آج یوم کشمیر کے موقع پر ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت جن عناصر کے خلاف کارروائی کرنے اور ان پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعلان کرتی ہے، انہیں کسی دوسرے نام سے فعال ہونے کی اجازت بھی دیتی ہے۔ یہ صورت حال حکومت کی کمزور پالیسی اور انتہا پسندی کے خلاف ناقص منصوبہ بندی کا اظہار ہے حافظ سعید پہلے لشکر طیبہ کے نام سے گروہ چلاتے تھے لیکن اس پر 2002ء میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے فوری بعد انہوں نے جماعت الدعوۃ کے نام سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ اس گروپ کو 2007ء سے زیر نگرانی رکھا گیا ہے لیکن یہ پوری آزادی سے ملک بھر میں متحرک ہے۔ جماعت الدعوۃ نے مختلف شہروں میں بڑے بڑے مراکز بنا رکھے ہیں اور ملک بھر میں فلاحی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھی۔ اب یہ سارے کام ایک نئے نام سے شروع کئے گئے ہیں۔ حکومت اگر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور انہیں ملک دشمن سرگرمیوں اور انتہا پسند ہتھکنڈے اختیار کرنے کا مجرم نہیں سمجھتی تو پھر ان کی حراست اور ان کی جماعت کے دفاتر بند کرنے کا اعلان اور ڈھونگ کیوں کیا جاتا ہے۔ کیا نئے نام کے ساتھ پرانے کام جاری رکھنے سے اس جماعت کے کارپردازوں کا داغدار ماضی صاف ہو جائے گا اور دنیا انہیں اب نیک نام شہریوں کے طور پر قبول کرنے لگے گی۔ حکومت پاکستان کے اس قسم کے دوہرے معیار اور کمزور حکمت عملی کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی نیک نیتی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور بھارت جیسے دشمن ملک کو پاکستان کے خلا ف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ معاملات گزشتہ تیس برس سے اسی ڈھنگ سے چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس کے یہ طریقے اب اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اور جن عناصر کو قومی ورثہ سمجھ کر کسی نہ کسی طرح ان کی حفاظت کی جارہی ہے، وہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کرنے کے سرکاری ایجنڈے کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ جب تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان گروہوں کے خلاف واقعی سخت کارروائی کرنے کا تہیہ نہیں کیا جائے گا ، نہ پاکستان محفوظ ہو سکے گا اور نہ ہی اس کی عالمی شہرت پر لگے داغ دھل سکیں گے۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ