پاکستان میں پانچ دن پہلے سوائے ایک انگریزی اخبار (ایکسپریس ٹریبون) کسی نے خبر شائع نہیں کی کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں پولیس نے ایک مکان پر چھاپہ مار کے 35 خواجہ سراؤں کو حراست میں لے لیا۔ پولیس ترجمان کرنل فواز بن جمیل کے مطابق مکان سے زنانہ کپڑے اور زیورات بھی برآمد ہوئے۔ پولیس مخبر کئی دن سے اس جگہ کی نگرانی کر رہے تھے۔ خواجہ سراؤں کا یہ اجتماع اپنے نئے گرو کا انتخاب کرنے کے لیے ہوا تھا۔ خبر کے مطابق پولیس سٹیشن میں دو خواجہ سراؤں کو بوریوں میں بند کر کے ڈنڈے مار مار کے ہلاک کر دیا گیا۔ مرنے والوں میں سے ایک 35 سالہ آمنہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے مینگورہ سے اور 26 سالہ مینو کا تعلق پشاور سے بتایا جاتا ہے۔ گیارہ خواجہ سراؤں کو ڈیڑھ لاکھ ریال جرمانے کی سزا کے بعد رہا کر دیا گیا اور 22 نظربند ہیں۔ پاکستانی خواجہ سرا کمیونٹی کے کچھ سرکردہ کارکنوں نے انسانی حقوق کے قومی کمیشن سے مدد طلب کی ہے۔ کمیشن کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات اکھٹی کر رہے ہیں۔
ان کارکنوں کو سب سے زیادہ تشویش یہ ہے کہ اگر گرفتار خواجہ سراؤں نے کسی سعودی قانون کی خلاف ورزی کی تھی تو انھیں عدالت میں پیش کرنے سے پہلے تشدد کر کے ہلاک کیوں کر دیا گیا؟
گذشتہ برس یہ خبر بھی آئی تھی کہ اسلام آباد کے سعودی سفارتخانے سے پاکستانی ٹریول ایجنٹس کی ایسوسی ایشن کو یہ سرکلر بھیجا گیا کہ وہ حج اور عمرے کے لیے خواجہ سراؤں کی درخواستیں اور پاسپورٹ قبول نہ کریں۔ ایسوسی ایشن کے ایک دھڑے نے اس سرکلر سے لاتعلقی کا اظہار کیا مگر سعودی سفارتخانے کی جانب سے اس بارے میں کبھی کوئی تردید نہیں آئی۔ یہ حوالہ بھی شاید سعودی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سود مند نہ ہو کہ رسول اللہ کے دور میں بھی خواجہ سراؤں کو معاشرے میں اچھوت کا درجہ حاصل نہیں تھا اور کسی انسان کو محض اس بنیاد پر سزا نہیں ملتی تھی کہ بظاہر مردانہ جسم کے باوجود چال ڈھال و حرکات و سکنات مختلف ہیں۔ انھیں گھروں میں بھی آنے جانے کی اجازت تھی لیکن اگر ان میں جنسی رغبت کے آثار دکھائی دیتے تو ان کے گھروں میں داخلے پر پابندی لگ جاتی تھی۔ کسی خواجہ سرا کو مدینہ بدر کرنے یا محض تیسری جنس سے تعلق ہونے کے سبب قتل کرنے، قید کرنے یا شعائرِ اسلام کی ادائیگی سے روکنے کی کوئی مثال دورِ نبوی یا بعد کے ادوار میں نہیں ملتی۔ یہ بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ عثمانی دور تک مسجدِ نبوی کی صفائی کا کام خواجہ سراؤں کے سپرد تھا۔ اموی، عباسی اور عثمانی خلفا کے حرم کی دیکھ بھال بھی خواجہ سراؤں کے حوالے تھی اور یہ وہ خلفا تھے جن کے نام کا خطبہ مسجد کے منبر سے پڑھا جاتا اور انھیں تمام مسلمانوں کا امیر بھی تسلیم کیا جاتا تھا۔ ان مثالوں کا مقصد کسی جدید ریاست کے قوانین یا ان کی روح پر اثرانداز ہونا نہیں بلکہ یہ ہے کہ 2017 میں اگر کسی ریاست کا شہری صرف اس وجہ سے کسی اور ریاست کے اہلکاروں کے ہاتھوں تشدد میں مارا جائے کہ اس کی جنس مشکوک ہے اور اس بنا پر اس کی حرکات و سکنات بھی مشکوک ہیں تو پھر کیا مداوا ہے۔ کیا آمنہ اور مینو سعودیوں کو مطلوب دہشت گرد تھے؟ ایرانی یا اسرائیلی جاسوس تھے؟ منشیات کے سمگلرز تھے؟ قاتل تھے؟ کون تھے؟
اگر وہ پاکستانی شہری تھے تو حکومتِ پاکستان نے اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے میں اب تک کتنی دلچسپی لی ؟ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تو اس کی تردید ریاض یا اسلام آباد سے کیوں نہیں آ رہی ؟ اگر ہوا ہے تو سعودی حکومت کے پاس کیا قانونی و اخلاقی تاویل ہے؟
مگر میں کیا لاحاصل و لایعنی گفتگو کر رہا ہوں اور وہ بھی ایسے وقت جب پوری ریاست پاکستان سپر لیگ میں مبتلا ہے اور ایسی حکومت سے توقع باندھ رہا ہوں جو اس بات سے بھی عملاً لاعلم ہو کہ پچھلے چار ماہ کے دوران مزید 40 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی کارکن سعودی عرب سے اس شبہے میں واپس بھیج دیے گئے ہیں کہ ہو سکتا ہے وہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہوں۔ ( یعنی جو حکومتِ پنجاب پختونوں کو سمجھ رہی ہے وہی کچھ حکومتِ سعودی عرب پاکستانیوں کو سمجھ رہی ہے )۔ یہ خبریں اب دوبارہ گرم ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو 34 رکنی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے ضروری سرکاری اجازت مل گئی ہے۔
ہو سکتا ہے راحیل شریف اہلِ ریاض کو قائل کر سکیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کامل توجہ کے لیے ضروری ہے کہ سارا غصہ خواجہ سراؤں پر ہی نہ ضائع کر دیا جائے۔
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ