میں بی اے کا طالب علم تھا جب ایوب خان کی آمریت کے خلاف طالب علموں کی تحریک چلی جو رفتہ رفتہ سماجی اور سیاسی تبدیلی کی ایک بہت بڑی تحریک بن گئی۔ ہمارے انگریزی کے ایک اُستاد ظفر اقبال فاروقی نے کرسٹوفر کار ڈویل کی کتاب ”Illusion and Reality” کا تعارف کرایا اور اپنی مخصوص زبان میں بتایا ” سارے انقلابی ”اَدھ مغزے“ ہوتے ہیں چنانچہ قلمی نام والے کرسٹو فر کا ڈویل بھی اُنہی میں تھا جو 29 سال کی عمر میں اپنے نظریے کی خاطر سپین کی خانہ جنگی میں کودا اور مارا گیا۔ اس سے چار سال پہلے اُس نے ہوا بازی سے متعلق 5 نصابی کتابیں، 7 جاسوسی ناول، کچھ نظمیں اور کچھ کہانیاں لکھ دی تھیں۔ یہ تو کہیں مرنے کے بعد ہوا کہ نہ صرف یہ عظیم کتاب بلکہ دیگر تنقیدی کُتب بھی شائع ہوئیں اور یوں دنیائے علم ٹھٹک کر آج تک اس مارکسی نقاد کو دیکھتی ہے جس نے بہت ساروں کی ”دولتِ یقین “کو آسیب کہا تھا اور ہم جیسے غلاموں کو بتایا تھا کہ غلام ادب تخلیق نہیں کر سکتے، سو ہم جو فیلڈ مارشل ودآﺅٹ وار ایوب خان اور تھانے دار امیر محمد خان کے غلام ہیں کیسے مان سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ادب بھی تخلیق ہورہا ہے“؟۔ وقت گزر گیا مگر میری یادداشت پر اُستاد محترم کا یہ تعارف ایک آسیب کی طرح مسلط ہو گیا، انگریزی میں’ تنگدستی‘ کے سبب کئی مرتبہ مختلف کتب خانوں سے یہ کتاب نکلوائی مگر پوری پڑھی نہ گئی، ایک دو ہم مشرب دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مارکسزم اور فلسفہء تاریخ کے ساتھ ساتھ جب تک فزکس، ریاضی اور منطق پر عبور نہ ہو یہ کتاب سمجھ میں نہیں آسکتی، مگر یہ میرا خبط رہا کہ کوئی عالم اسے اُردو میں اس طرح ترجمہ کرے کہ میرے جیسے طالب علم اس کو پڑھ سکیں۔ میرے سکول کے زمانے کے ایک اُستاد شبیر حسن اختر یہ کام کر سکتے تھے چنانچہ جس زمانے میں میں اُنہیں ایک سکالر اور مترجم کے طور پر سرائیکی ریسرچ سنٹر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں لایا میں نے اُن سے اس کتاب کے ترجمے کی فرمائش کی انہوں نے اس کے پہلے باب کا بھی ترجمہ مکمل نہیں کیا تھا کہ وہ فوت ہو گئے۔ اور میں لرز گیا پھر میں نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین ساہیوال کی ایک باشعور اور باذوق اُستاد نیلم شعیب سے کہا وہ اپنی کسی شاگرد سے اس کا ترجمہ کرا کے اسے ایم اے کے تھیسز کے طور پر پیش کرا دیں کیونکہ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں نے کارڈ ویل کی اس کتاب کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لئے تھے۔ مسز نیلم شعیب نے اپنی ایک شاگرد کاشفہ پروین سے یہ ترجمہ’ التباس اور حقیقت ‘کے نام سے کرایا مگر اتفاق ایسا ہے کہ اس مقالے کی ایک کاپی اپنے نام جاری کرانے اور نصف سے زیادہ پڑھنے کے باوجود احساس ہوا کہ اس کی زبان کو طالب علموں کے لئے سہل بنانے کی ضرورت ہے، پھر یہ مقالہ میرے کسی جن صفت شاگرد نے غائب کر دیا،آخر میں این ایس او کے ایک ترقی پسند طالب علم رہنما فیاض باقر کا بھائی میرے ہتھے چڑھ گیا، ملتان کا ایک مزدور پیشہ خانہ سوز مگر غیر معمولی ذہین مترجم اعزاز باقر ، جو میری طرح فیض عابد عمیق جیسے دیو جانس کلبی ملتانی کا مرید ہے۔ اعزاز پاکستان کے ایک وزیر اعظم شوکت عزیز کی بلبلہ اندوز معاشی پالیسی کی بدولت اپنی جمع جتھا سٹاک ایکسچینج میں لٹوانے کے بعد شاعر اور ذرا جارح قسم کا مارکسسٹ ہو گیا۔ چنانچہ میں نے اسے ٹیری ایگلٹن کی کتابوں کے ساتھ کرسٹوفر کاڈویل کی یہ کتاب ترجمہ کرنے کو کہی۔ اس نے اس کتاب کا ترجمہ تو کیا مگر میرے خیال میں وہ کافی ادق یا پیچیدہ زبان میں تھا اور کچھ کمپوزنگ اور ناقص پروف ریڈنگ نے اسے ادق ترین کر دیا، مگر سیالکوٹ میں کسی دیو نے میرے اور میرے بیٹے احمد تمثال کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون گھر میں کود کر غائب کر دیئے (ہم باپ بیٹا ’آدھی رات کے بچوں‘ کی طرح کئی دن تک اپنے علمی خسارے کو تاریخی انداز روتے رہے) کچھ کچھ مجھے وہم بھی ہو گیا کہ اس کتاب کا ترجمہ ہمارے لئے شاید غیبی قوتوں نے منع کر دیا ہے۔ اسی دوران میں ساہیوال شہر کے ہی ہمارے ایک فکری رفیق محمد زکریا نے کامریڈ عبدالغفور کے ترجمے تجربے کا ’فریب نظر اور ارتقائی حقیقت ‘ سے تعارف کرایا اس ترجمے سے احساس ہوتا ہے کہ مترجم فزکس، ریاضی، منطق اور مارکسزم پر عبور رکھتے ہیں مگر اُردو میں اظہار پر وہ زیادہ توجہ نہیں دیتے، جس سے مارکسزم کے دائرہ اثر کے محدود ہونے کے اسباب کا اندازہ ہوتا ہے۔
اب جو اپنی ریٹائرمنٹ کے 9 برس بعد ملتان میں واپس آیا تو اپنی ایک شاگرد ڈاکٹر شازیہ عنبرین کو آمادہ کیا کہ وہ اس کتاب کے ترجمے کو اپنے ریسرچ پراجیکٹ کا ایک درجہ دے کر اعزاز باقر کو دوبارہ ترجمہ کرنے کو کہیں۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ملتان کے ایک پبلشر نے بھی اس پراجیکٹ کی تکمیل کےلئے وسائل فراہم کئے۔ اس دوران میں تین چار مراحل ایسے آئے کہ مجھے سچ مُچ وہم ہو گیا کہ آسیب کو مسترد کرنے والے اس روشن خیال شخص کی کتاب خود آسیب کی زد میں ہے۔ اس لئے اب آپ میری خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے جب یہ کتاب آپ تک اپریل تک پہنچ رہی ہے تو میرا جی چاہتا ہے کہ اُستاد محترم سے کہوں کہ آپ نے کتاب کے عشق کی جو تخم ریزی پچاس برس پہلے کی تھی اس کی ریاضت میں ’بڑے سر اور مغز والے‘ باجو والی گلی میں نکل گئے، بس آپ کا یہ ’ ادھ مغزا شاگرد‘ ہی آپ کی امانت سنبھال کے پھرتا رہا۔
فیس بک کمینٹ