کتنا بھلا زمانہ تھا کہ خاکسار ہر ہفتے اخبارات کے بچوں کے ایڈیشن خریدنے کے لیے اپنے جیب خرچ کو بخوشی قربان کیا کرتا تھا۔ گھر والوں نے جب جیب خرچ میں اضافہ کیا تو معاملات بچوں کے رسائل خریدنے پر آ گئے۔ تعلیم و تربیت، پھول، نونہال، بچوں کی دنیا، آنکھ مچولی اور ہونہار تو ایک عرصہ تک یہ سوچ کر جمع کرتا رہا کہ گھر میں لائبریری تیار ہو رہی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گلی محلوں میں کتابوں کے شوقین لوگ ”آنہ لائبریری“ بنا کر اپنے شوق کی آبیاری بھی کرتے تھے اور کتابوں کے فروغ میں حصہ بقدر جثہ بھی ڈالتے تھے۔ مجھے یاد ہے مَیں نے اپنے محلے کی آنہ لائبریری سے پہلا ناول ”میرا نام ہے منگو“ لیا تھا جس کو جبار توقیر نے تحریر کیا تھا فیروز سنز اُس کا پبلشر تھا۔ یہ تذکرہ 1978ء کا ہے جب شیخ غلام علی سنز نے بچوں کے لیے پاکٹ سائز کی تصویری کہانیاں مختلف رنگوں میں شائع کی تھیں۔ کتابیں پڑھنے کا جنون گرمیوں کی چھٹیوں میں بڑھ جاتا۔ اب سوچتا ہوں کہ ان دنوں کی کتابوں کو اگر مَیں محفوظ رکھتا تو میرے پاس صرف بچوں کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا۔ وہ کتابیں انہی دنوں ہی ضائع اس لیے ہو گئیں کہ 1981ء میں ہمیں اپنا پرانا گھر چھوڑنا پڑا۔ نئے گھر میں پرانی کتابوں کی جگہ نہیں تھی خاص طور پر بچوں کی کتابوں کو ردی جان کر کسی کباڑیئے کی ریڑھی کی زینت بنا دیا گیا۔ نئے گھر میں جب ہم منتقل ہوئے تو وہ ہمارے کالج کا پہلا سال تھا۔ کالج لائبریری میں تمام اخبارات آتے تھے۔ کالج میں ہم اخبارات کے تین ایڈیشن بڑے شوق سے پڑھنے لگے۔ بچوں کا صفحہ، طلباء اور خواتین کا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچوں اور طلباء کے ایڈیشن تو سمجھ آتے ہیں یہ خواتین کا صفحہ کہاں آ گیا۔ اصل میں روزنامہ امروز ملتان کی میگزین انچارج معروف شاعرہ نوشابہ نرگس تھیں جن کے پاس تینوں صفحات ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہمارا تذکرہ خواتین کے صفحہ پر بھی ہوتا تھا اس لیے ہم خواتین صفحہ کو بھی اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔ کالج کے زمانے میں شیخ سلیم ناز ”سروے ماسٹر“ کے طور پر مشہور ہوا۔ اس کا یہی شوق اسے صحافت میں لے آیا۔ انہی دنوں اطہر ناسک، اختر شمار، رضی الدین رضی، قمر رضا شہزاد، ناصر بشیر، خالد اقبال، شفیق آصف اور دیگر نوجوان اپنی پہچان انہی اخبارات کے مختلف ایڈیشن کے ذریعے کروا رہے تھے۔ اسی طرح ملتان کی تاریخی النگ پاک گیٹ کی ایک دکان میں ایک سنجیدہ شخص لکھنے میں مصروف ہوتا۔ وہ دکان ”یوسف برادرز“ کے نام سے معروف تھی۔ جہاں پر صرف بچوں کے ناول یعنی ٹارزن کی کہانیاں، آنگلو بانگلو، چھن چھنگلو وغیرہ کے ناموں سے درجنوں کتب دستیاب ہوتی تھیں۔ یوسف برادرز میں جو شخص ہر وقت ہمیں لکھتا ہوا دکھائی دیتا اس کے بارے میں بہت دنوں بعد معلوم ہوا کہ ان کا نام مظہر کلیم ایم۔اے ہے جو بچوں کی کتب لکھنے کے علاوہ عمران سیریز بھی ہر ماہ تحریر کرتے تھے۔ ان دنوں مظہر کلیم کی ہر کتاب کا ایڈیشن ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتا۔ بعد میں مختلف تقریبات میں جناب مظہر کلیم صاحب سے تعارف ہوا تو ہم ان کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے کسی کو ایک عرصے بعد اپنے خوبصورت محبوب کا دیدار ہو جائے۔ تادمِ تحریر میری مظہر کلیم سے بےشمار ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ ڈاکٹر عامر سہیل کا فون آیا کہ ہمارا شعبہ مظہر کلیم کے فن و شخصیت پر ایم۔فل کا تھیسس کروا رہا ہے آپ اُن سے انٹرویو کا وقت لے کر دیں۔ مَیں نے مظہر کلیم سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ شدید علیل ہیں۔ بڑی مشکل سے وہ بات کر رہے تھے۔ اس کالم کے ذریعے قارئین کرام سے درخواست ہے کہ ملک کے نامور ادیب کی مکمل صحت یابی کے لیے دُعا کریں۔ بات کا آغاز ہم نے اخبارات کے بچوں کے صفحات سے کیا کہ ہم ایک عرصے سے بچوں کے ادب سے دور ہیں۔ بس کبھی کبھار ماہنامہ پھول اختر عباس کی وجہ سے دیکھ لیتے تھے۔ اب شعیب مرزا کی محبت میں ہم ”پھول“ کو اپنے کالر کا حصہ بنا لیتے۔ نونہال آج بھی ہمیں پہلے دن کی طرح اچھا لگتا ہے۔ اس سب کے باوجود مجھے افسوس ہے کہ مَیں بچوں کے لیے کچھ نہیں لکھ رہا۔ بس بچوں کے لیے لکھنے والوں کے لیے دُعاگو رہتا ہوں کہ ان سب ادیبوں کا قلم رواں رہے تاکہ ہمارے بچے کتابوں سے جڑے رہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والے حقیقی معنوں میں جہاد کر رہے ہیں کہ جب لوگوں کی ترجیح میں کتاب ہی نہ رہے تو ایسے میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کا دَم غنیمت ہے۔ ایک دن کی بات ہے کہ مَیں اپنے گھر میں بیٹھا اخبارات کا مطالعہ کر رہا تھا کہ میرے موبائل پر ایک فون آتا ہے۔ فون کرنے والا اپنا نام احمد عدنان طارق بتاتا ہے۔ یہ نام میرے لیے جانا پہچانا تھا کیونکہ مَیں ایک عرصے سے ان کی بچوں کے لیے بے شمار کتب کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن پڑھنے کا اتفاق اس لیے نہیں ہوا کہ مَیں اب بچہ نہیں رہا تھا۔ اس لیے مَیں نے بچوں کی بجائے بڑوں کی کتب کو پڑھنا اپنا مشغلہ بنایا ہوا ہے۔ احمد عدنان طارق نے مجھ سے میرا پتہ لیا تو اگلے دن میرے مطالعہ کی میز پر ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی چھ کتب موجود تھیں۔ مَیں نے شکریئے کا فون کیا تو کہنے لگے اب آپ سے ملاقات کیسے ہو گی؟ مَیں نے عرض کیا آپ سے ملاقات میری تو ان کتابوں کے ذریعے کافی دن رہے گی کیونکہ بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کام نہیں ہے۔ سو قارئین کرام آج کل مَیں احمد عدنان طارق کے بھجوائے تحفوں کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ یوں لگتا ہے جیسے میرا بچپن لوٹ آیا ہے۔ مَیں اپنا جیب خرچ، خرچ کیے بغیر رات کو کمبل میں بیٹھ کر احمد عدنان طارق کی لکھی ہوئی کہانیاں مزے مزے سے پڑھ رہا ہوں۔ ان کی وجہ سے میرا ماضی لوٹ آیا ہے۔ مجھے آنہ لائبریری یاد آ رہی ہے سردی کے موسم میں گرمی کی چھٹیوں کا لطف آ رہا ہے۔احمد عدنان طارق کی مہربانی سے مجھے وہ زمانے یاد آ گئے جو وقت کی دھول میں گم ہو گئے تھے ورنہ مَیں تو جون ایلیا کی اس نظم کی تصویر بن گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا:
تم جب آؤ گے تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اِن کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
اِن میں اِک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہء عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)