رضی الدین رضیکالمکھیللکھاری

روزے دارو ! فائنل کا وقت ہو گیا ہے ۔۔ رضی الدین رضی

میدان آج لاہور میں سج گیا ہے ، جنون اپنے عروج پر ہے اور اب تو یہ بحث بھی بے معنی ہو گئی کہ فائنل کون جیتے گا ۔ وسوسے ، خدشے ، خوف و ہراس سب کچھ گویا عوام نے ہوا میں اُڑادیا ۔ہم تو طویل عرصہ سے کرکٹ سے بے نیاز ہو چکے تھے اور ہمیں جواریوں اور کرکٹ کے بیوپاریوں نے اس حد تک مایوس کر دیا تھا کہ کرکٹ کا نام سنتے ہی گویا تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی ۔جنون بیدار ہوا تو نظروں کے سامنے بہت سے میچ گھوم گئے ۔ 1975ءکا ورلڈ کپ یاد آ گیا جب ہم پانچویں جماعت کے طالب علم تھے اور ان میچوں کی کمنٹری ہم رات گئے اپنے گھر کی چھت پر ریڈیوکی آواز مدھم کر کے سنا کر تے تھے کہ کہیں اہلِ خانہ کی نیند خراب نہ ہو جائے ۔ یہ مدھم کی ہوئی آواز کبھی ہوا کی لہروں میں ڈوب جاتی تو ہم ٹرانسسٹر کا رخ بدل کر پھر سے خود کو اسی ماحول میں پاتے تھے ۔ حسن جلیل اور مجاہد چشتی کی آوازیں سنائی دیتیںتو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں۔ انگریزی ہمیں اگرچہ سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جوش و خروش اور آواز کا اتار چڑھاﺅ ایسا تھا کہ ہم کچھ نہ سمجھنے کے باوجود پوری جزئیات کے ساتھ سب کچھ سمجھتے تھے ۔ پھر اس کے بعد کا زمانہ آیا جب بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ابھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا اور میچ کے دوران دکانوں اور ہوٹلوں کے باہر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا اور اس ہجوم میں ہم بھی کسی بہانے پہنچ جاتے تھے ۔ سودا سلف لینے کے بہانے ان راستوں اور گلیوں کا انتخاب کر تے کہ جہاں کوئی ٹی وی والی دکان ہوتی تھی ۔ ماجد خان ، جاوید میاں داد، سر پر سفید پٹی باندھ کر کھیلتے ظہیر عباس ، اور الٹے ہاتھ سے چھکا لگا کر گیند کو سٹیڈیم سے باہر پھینکنے والے وسیم راجہ ، سب نظروں میں سما گئے ۔ مدثر نذر کی سست بیٹنگ ، وسیم باری کی وکٹ کیپنگ ، آج کے میچ کو پاگل پن کہنے والے عمران خان کی ان سوئنگ ،اور اقبال قاسم کی سپن بالنگ ، ہمارا ہر گیند پر دل دھڑکتا تھا ، تالیاں بجاتے تھے ۔ ”ہاﺅ زیٹ“ کا مطلب ہمیں معلوم نہیں تھا ، تلفظ بھی شاید نہیں جانتے تھے ، لیکن جب کھلاڑی ’ہاﺅزیٹ کہتے‘ تو ہم بھی اسی قسم کی آواز ضرور نکالتے تھے ۔ اس کے بعد کے زمانے میں کچھ اور نام سامنے آئے ۔ اب ٹی ہمارے گھر میں موجود تھا بلیک اینڈ وائٹ ، انٹینے والا ٹی وی کہ جس پر نشریات صاف دیکھنے کے لئے سلور کی پلیٹ بھی لگانا پڑتی تھی اور جب میچ ہوتا تو سکرین پر پھیلتی لہریں ختم کر نے کے لئے چھت پر جا کر” اب ٹھیک ہے ؟ اب ٹھیک ہے ؟“ کی گردان میں انٹینا گھمانے کا عمل بھی بہت دلچسپ ہوتا تھا ۔پھر ہم نے ورلڈ کپ جیتا ، سحری کے وقت قسور سعید مرزا کے ساتھ میچ دیکھے ۔ ” روزے دارو! اللہ نبی کے پیارو فائنل کا وقت ہو گیا ہے، اٹھو میچ دیکھ لو“ کی آواز لگائی ، انضمام کی بیٹنگ پر ملتانی ہونے کے ناطے یوں خوش ہوئے کہ گویا سیمی فائنل کا ہیرو انضمام نہیں ہم خود ہیں۔ اور پھر فائنل میں کامیابی کے بعد ہم کرکٹ کے میدان میں بلندیوں پر پہنچ گئے۔ شاید اس کھیل میں دلچسپی بس انہی دو چار برسوں تک برقرار رہی کہ اگلے ورلڈ کپ سے جوئے کی کہانیاں بھی سامنے آنے لگیں ۔پھر بہت روئے ہم پاکستان کے لئے، اور پاکستان کر کٹ کے لئے ۔ایسی ہی بہت سی خوبصورت یادیں اس کھیل کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ ہمارا بچپن اور لڑکپن اسی کھیل کی محبت میں گزرا۔ بھارت کے ساتھ میچوں میں تو یوں لگتا تھا کہ جیسے پوری قوم سرحد پر مورچہ زن ہے ۔ جاوید میاں داد کا شارجہ میں لگایا ہو ا چھکا بھلا کون بھول سکتا ہے اور آج اگر ہم پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہو نے پر اتنے خوش ہیں اور اتنے جوش و خروش کے ساتھ اس کھیل میں دلچسپی لے رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ فائنل در اصل ہمیں خندقوں سے باہر لے آیا ہے ۔ مدِ مقابل پشاور اور کوئٹہ تو نہیں ہیں ، اس میچ میں تو پاکستان کے عوام خم ٹھونک کر دہشت گرد وں کے سامنے آ گئے ہیں ۔ ان کے سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے اس ملک میں کرکٹ کو خواب بنانے کی کوشش کی ۔ جنہوں نے قذافی سٹیڈیم سے چند فرلانگ کے فاصلے پر لبرٹی چوک میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا اور اس کے بعد غیر ملکی ٹیموں کی پاکستان آمد ایک خواب ٹھہری ۔ وہ سٹیڈیم جہاں میچ کھیلے جاتے تھے اور وہ گراﺅنڈ جہاں لڑکے وسیم اکرم ، وقار یونس یا آفریدی بننے کی کوشش کر تے تھے دہشت گردوں نے یہ سب گراﺅنڈ صرف جنازوں کے لئے وقف کر دئے ۔ موت کا کھیل شروع ہوا تو باقی تمام کھیل ہم بھول گئے ۔ کوئی اسے پاگل پن کی انتہا کہے یا کچھ اور ہمارے لئے یہی بات اہم ہے کہ یہ میچ اسی لبرٹی چوک سے کچھ دور منعقد ہو رہا ہے جہاں سے کرکٹ کا جنازہ نکالا گیا تھا ۔ یہ میچ دہشت گردوں کو اس قوم کا جواب ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا جانتی ہے ۔ آج کے دن سب کچھ بے معنی ہو چکا ہے آج جو بھی جیتے گا فتح پاکستان کی ہو گی ۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker