تین روز قبل اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ویسٹرن ایشیا ( ایسکوا ) کی جانب سے ایک غیر معمولی رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ بم پھوڑا گیا کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے جس نے فلسطینیوں کو زیرِ نگیں رکھنے کے لیے اپارتھائیڈ ( نسلی تفریق) ڈھانچہ بنا رکھا ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان آ گیا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس رپورٹ کو سفید جھوٹ اور نازی طرز کا پروپیگنڈہ قرار دیا۔اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے رپورٹ کے ایک مرتب رچرڈ فاک کو متعصب بتایا (رچرڈ فاک فلسطین میں انسانی حقوق کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے سابق مشاہدہ کار ہیں)۔ اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈیرک نے وضاحت کی کہ یہ رپورٹ سیکرٹری جنرل کے نہیں بلکہ مرتبین کے خیالات ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت سے پہلے ہیڈ کوارٹر سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کی ایک اور مصنف اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل اور ایسکوا کی ایگزیکٹو سیکرٹری ریما خلف نے جمعہ کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اس سے قبل ریما نے سیکرٹری جنرل سے استدعا کی کہ وہ رپورٹ سے لاتعلقی نہ برتیں۔ بقول ریما خلف اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے نے یہ رپورٹ ایسکوا کے رکن ممالک کے کہنے پر مرتب کی تھی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی اس رپورٹ سے لاتعلقی کے لیے سیکرٹری جنرل پر زبردست دباؤ ڈالیں گے۔ یہ رپورٹ لگ بھگ تیس گھنٹے ایسکوا کی ویب سائٹ پر زندہ رہی۔ اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو کہ ایک شائع رپورٹ کو اس طریقے سے واپس لیا گیا ہو۔ یوں ایک بار پھر اندازہ ہوگیا کہ اقوامِ متحدہ کتنی آزاد اور کتنی مجبور ہے۔
مگر یہ زخم ایسے مندمل نہیں ہوگا جب تلک اقوامِ متحدہ ایک اور رپورٹ جاری نہیں کرتی جس میں لکھا ہو کہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کے لیے زمین پر اسرائیل نے جبری قبضہ نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں نے ہاتھ جوڑ کر یہ کہتے ہوئے ان زمینوں کی ملکیت اسرائیل کے حوالے کی کہ صاحب ہمارے بس کا کام نہیں آپ ہی سنبھالئے اور پھر وہ اپنا اسباب سر پر اٹھائے اسرائیلی آبادکاروں سے آبدیدہ گلے مل کر وقت کی دھول میں گم ہوگئے۔ اور یہ جو ہر قدم پر فوجی چیک پوسٹیں ہیں ان پر فلسطینیوں کی طویل قطار اور بدسلوکی کی خبریں بھی نرا پروپیگنڈہ ہے۔ ان کا تو روزانہ وہ اسرائیلی فوجی سواگت کرتے ہیں جن کے ہاتھ میں رائفل نہیں گلدستے، چہرے پر کرختگی نہیں مسکراہٹ ہوتی ہے۔ یہ حاملہ خواتین کو بیٹھنے کے لیے اپنی کرسیاں پیش کر دیتے ہیں اور قطار میں کھڑے فلسطینی بچوں کو دودھ اور کھلونے سپلائی کرتے ہیں۔ حتٰی کہ جب فلسطینی غصے میں لال بھبوکے ہو کر سنگ باری کرتے ہیں تو بچارے اسرائیلی فوجی صرف ہوا میں گولی چلاتے ہیں۔ اگر کوئی فلسطینی بچہ اڑتا ہوا ان گولیوں کے سامنے آ جائے تو کوئی کیا کرے۔ اور یہ جو ہر فلسطینی شہری کو اپنی جیب میں شناختی کارڈ رکھنے کی نصیحت ہے۔ اس کا مقصد نسلی شناخت و حقارت تھوڑا ہے۔ یہ شناختی کارڈ تو اس بات کی ضمانت ہیں کہ ان کارڈ ہولڈرز کو مہمان ہونے کے ناطے اسرائیلی حکومت کی جانب سے تعلیم، صحت، رہائش، روزگار اور نقل و حرکت وغیرہ کے لیے جو اضافی مراعات و سہولتیں ملتی ہیں وہ کہیں کوئی یہودی شہری کسی فلسطینی کا روپ دھار کے نہ اچک لے۔ آنجہانی اسرائیلی وزیرِ اعظم گولڈا مئیر نے 1969 میں کیا اچھی بات کہی تھی۔
’ایسا نہیں کہ یہاں کوئی فلسطینی تھے اور ان کی کوئی ریاست تھی اور ہم آئے اور انہیں باہر پھینک کر ان کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ ان کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا۔۔۔‘
اب آپ ہی دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ ایسے لوگ جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ان کے انسانی حقوق پر اقوامِ متحدہ سمیت کوئی بھی کیسے بات کر سکتا ہے؟ اگر اب بھی کسی کے دل میں کوئی اسرائیل مخالف وسوسہ ہے تو گولڈا مئیر کا ایک اور قول سن لے۔ ’ہم انہیں اپنے بچوں کے قتل پر تو معاف کر سکتے ہیں۔ مگر اس پر کبھی معاف نہیں کریں گے کہ وہ ہمیں ان کے بچوں کو قتل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔‘
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ