سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت کرہ ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنا دے گا۔
ہم اپنے دکھ سکھ رئیل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کالعدم کردیا ہے۔ اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے ۔ کوئی میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو اڑا کے رکھ دیا۔
مگر جس طرح ہم اندھا دھند سوشل میڈیا ٹول کے جوق در جوق غلام بن رہے ہیں اس کے سبب کیا ہم ایک دوسرے سے جڑ رھے ہیں یا دور ہو رہے ہیں؟ اب تو مجھے اس شخص کی تلاش ہے جس نے ان سوشل میڈیا میں سے ان کا لفظ غائب کر کے اندھی ڈال دی۔
پہلے ہم میاں بیوی، میاں بیوی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دو چار منٹ اچھی اچھی باتیں کر لیتے تھے۔ اب اکثر یہ سننے کو ملتا ہے ‘ہاں ہاں بولتے رہو ،ٹویٹس اور واٹس ایپ چیک کرتے ہوئے میرے کان بند تھوڑا ہو جاتے ہیں۔’
جب بجلی نہ ہو تو میرا بیٹا میری گود میں سر رکھ کے کہانی سننے کی فرمائش کرتا ہے۔ جیسے ہی بجلی آتی ہے وہ آدھے میں چھوڑ کر انٹرنیٹ کی گود میں سر رکھ دیتا ہے اور میں ‘ایک منٹ پوری کہانی تو سن لو بیٹا’ کرتا رہ جاتا ہوں۔
اپنے بچوں کے لیے میں ایک بیک ورڈ باپ ہوں کیونکہ مجھے ایپس ڈاؤن لوڈنگ کے شارٹ کٹس نہیں معلوم ۔میں تیزی سے کی پیڈ پر انگلیوں کو کتھک نہیں کروا سکتا۔ وقت بچانے کی خاطر ہا ہا ہا ویری فنی کے بجائے ایل او ایل لول نہیں لکھ پاتا۔
سوشل میڈیا پر کسی سنجیدہ بحث میں حصہ لینا یا تبصرہ کرنا دن بدن کوہِ قاف میں قید پری تک رسائی جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ راستے میں انتہا پسندی کے جنات اور شدت پسندی کے اژدھوں کی سرزمین سے گذرنا پڑتا ہے۔
کہنے کو سوشل میڈیا نے مجھے آزاد کردیا ہے مگر لگڑ بگوں ، لومڑیوں ، سانپوں اور دیگر حشراتِ الارض کو بھی آزاد کردیا ۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کے کس جملے کا کیا مفہوم کوئی بھی آدمی کچھ اور لے کر آپ کو کب دائرہِ اسلام سے خارج یا داخل کرلے۔
اپنی پسندیدہ شخصیت پر ذرا سی بھی تنقید کے ردِ عمل میں آپ کو لسانی بدفعلی کے نشانے پر رکھ لے۔آپ کی تصویر کو ہار پہنا دے یا آپ کا چہرہ کاٹ کے خنزیر پر فٹ کر دے۔
اب آپ پر افراد حملے نہیں کرتے۔ پورے پورے سائبر غول حملہ آور ہوتے ہیں۔ مجھے تو یہی نہیں معلوم ہوتا کہ جو نورین میری ہر تحریر کی پرستار ہے وہ واقعی نورین ہے یا چوہدری ستار ہے۔
یہی پتہ نہیں چلتا کہ جو تصویر مجھے خوش یا اداس کر رہی ہے واقعی اوریجنل ہے یا فوٹو شاپ کے کموڈ سے گزر کے مجھ تک آئی ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا ہی تو فیض ہے کہ جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں۔ جنہیں سننا چاہیے وہ بول رہے ہیں اور جنہیں بولنا چاہیے وہ چپ ہیں۔
میں کن لوگوں میں رہنا چاہتا تھا؟
یہ کن لوگوں میں رہنا پڑ رہا ہے؟
فرقہِ تسلیہ والے میرے دوست کہتے ہیں کہ خون نہ جلاؤں اور اپنی توجہ سنجیدہ ویب سائٹس ، پڑھے لکھے وٹس ایپ گروپس اور معیاری ٹیگنگ پر رکھوں تو بہتر ہے۔ سوشل میڈیا ابھی بچہ ہے۔ بڑا ہو گا تو خود بخود سدھر جائے گا۔
مگر جب میں ایسے پرامید دوستوں سے کہتا ہوں کہ جو لوگ اپنی گلی کا کچرا صاف کرنے کے لئے بھی چینی اور ترک کمپنیوں کو ٹھیکے دے رہے ہوں وہ سوشل میڈیا کو انوائرنمنٹ فرینڈلی بنانے کا ہمالیہ کیسے سر کریں گے ؟
اس پر ان میں سے کوئی ایک دوسری طرف منہ کر کے بڑ بڑاتا ہے ‘رہے گا نہ یہ جاہل کا جاہل‘
(بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ