سوشل میڈیا پر ہر ساڑھے چارواں میڈیاکر لکھ رہا ہے کہ بھٹو صاحب زندہ ہوتے تو 88 برس کے ہوتے۔
ایک دل جلے نے کیا خوب لکھا ‘ہاں زندہ ہوتے تو 88 برس کے ہوتے مگر یہ بھی تو سوچو کہ موت نے بھٹو کو عمرِ خضر عطا کردی۔’
لوگ پوچھتے ہیں آج بھٹو کے چاہنے والے کتنے باقی ہیں؟ شاید اتنے ہی جتنے خان عبدالغفار خان کے چند بوڑھے سرخ پوش باقی ہیں یا اتنے ہی جتنے چین میں ماؤزے تنگ کے پرستار سانسیں گن رہے ہیں، یا اتنے ہی جو ماسکو کے لال چوک میں سوویت دور کے تمغے سجا کر اپنے پڑپوتوں کے سہارے لخلخاتے ہر سات نومبر کو انقلابِ لینن کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پہنچتے ہیں۔
،پانچ جولائی 1977 کو شدت پسندی کا بیج بویا گیا،
پاک چین دوستی، ذوالفقار علی بھٹو کا کردار کتنا اہم تھا؟
ہاں بھٹو مقناطیس تھا۔ جو عاشق تھے غیر مشروط عاشق تھے، جو دشمن تھے غیر مشروط تھے۔ اب دونوں ہی کہاں؟ ایسے لوگ اور ان کے پرستار سن 50 اور 60 کی دہائی نے پیدا کیے تھے جب دنیا امیدوں سے پُر تھی۔ جب اس دور کے امنگ زدہ نوجوان دنیا بدل دینے کے نشے سے سرشار تھے۔جب خواب تعبیروں کے بھاؤ بکتے تھے۔
وہ دنیا چی گویرا، کاسترو، جمال ناصر، سوئیکارنو ، ہوچی منہہ، نکرومہ، عرفات، منڈیلا، نہرو، سارتر، رسل، بیٹلز اور پریسلے جیسوں کی دنیا تھی اور اسی میں ایک بھٹو بھی تھا۔
ایک کھلی دنیا کے قد آور لوگ۔جیسے جیسے دنیا تنگ ہوتی چلی گئی۔ اپنے اپنے شعبوں کے لحیم شحیم بھی گھٹتے چلے گئے اور بونے ابھرتے چلے گئے۔
دل نے پہلے دماغ کو اور پھر کیلکو لیٹر نے دماغ کو ‘ری پلس’ کر دیا۔ آج جو کچھ بھی بھگتا جا رہا ہے اسی ‘ری پلیس منٹ’ کی دین ہے۔
میں نے جتنے بھی نام گنوائے وہ سب اپنے دور کے نئے آئیڈیاز کی پیداوار تھے اور ان آئیڈیاز کو اپنی شخصی کشش کے اوراق میں لپیٹ کر لوگوں تک پہنچتے تھے۔ لوگ انھیں چھو سکتے تھے اور وہ لوگوں کو گلے لگا سکتے تھے۔ میڈیا ان کے پیچھے تھا وہ میڈیا کے پیچھے نہیں تھے۔
بھٹو اور ان کے بیشتر عالمی ہم عصر وہ مچھلیاں تھے جو عوام کے سمندر میں ہی زندہ رہ سکتے تھے۔ ذرا سوچیے اگر بھٹو کی زندگی سے نشتر پارک، قذافی سٹیڈیم، ابنِ قاسم باغ ملتان، ناصر باغ لاہور اور لیاقت باغ راولپنڈی جیسے مقامات مائنس کر دیے جائیں تو باقی کہنے کو کیا بچے گا۔
آج کی سیاسی نسل کی زندگی سے اگر 21 انچ کی ٹی وی سکرین مائنس کردی جائے تو باقی کیا بچے گا ؟ تو یہ فرق تھا بھٹو جیسوں کی سیاسی نسل اور آج کی برائلر یا ورچوئل سیاسی نسل میں۔
آج تو ڈھنگ کا سیاسی ورکر دیکھنے کو نہیں ملتا اور ہم بھٹو کی روح تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
مجھ سے پوچھیں تو کہوں کہ بھٹو خوش قسمت تھا کہ بھرا میلہ چھوڑ گیا۔ مگر اسی بھٹو کے سبب کروڑوں لوگ بہت تکلیف میں ہیں کیونکہ بھٹو عام آدمی کو خود شناسی کے راستے پر لگا کے خود تو چلا گیا لیکن اپنے پیچھے ایسے مجاور چھوڑ گیا جنھوں نے بھٹو کی آنکھ کے تارے ‘عام آدمی’ کو ریڑھے پر بٹھا کر بازار میں گھما دیا۔
جن گلیوں میں کبھی ‘بھٹو دے نعرے وجن گے’ سنائی دیتا تھے آج انھی گلیوں کے نکڑ پر پیپلز پارٹی نامی ایک جماعت کا کوئی بھی پوسٹر دیکھ لیں سب سے بڑی تصویر اس کی ہوگی جس نے یہ پوسٹر چھپوایا، اس کے دائیں آصف زرداری، بائیں بلاول بھٹو درمیان میں فریال تالپور اور کہیں بہت پیچھے بھٹو اور بے نظیر کی پرچھائیں ٹمٹما رہی ہوں گی۔
ایسے پوسٹر دیکھ کر مجھے اپنا شاعر دوست علی بخش رنجش بہت یاد آتا ہے۔ اس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک تصویر چھاپی جس کا کیپشن تھا ‘اوسلو کے احباب نے معروف پاکستانی شاعر علی بخش رنجش کے ساتھ ایک شام منائی۔ دائیں سے بائیں تیسرے نمبر پر احمد فراز بھی نمایاں ہیں۔’
میں کن لوگوں میں رہنا چاہتا تھا
یہ کن لوگوں میں رہنا پڑ گیا ہے
ہاں آج بھٹو کا ایک ہی مصرف ہے۔ پانچ جنوری کو اس کا کیک کھایا جاتا ہے اور چار اپریل کو اس کے نام کی بریانی۔ سو آج کیک کھائیے اور جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے اگلے دن میں گم ہو جائیے کیونکہ وہ پارٹی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
(بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام )