کیا زمانہ ہوتا ہو گا جب سیاسی جماعتیں ہم خیال دانشوروں ، پنڈتوں اور سرکردہ ورکرز پر مشتمل کمیٹی بنایا کرتی تھیں جس کا کام انتخابات سے پہلے منشور کی تیاری ہوا کرتا تھا۔تاکہ ووٹر کو اندازہ ہو سکے کہ پارٹی کا نظریہ کیا ہے ۔ پارٹی کی داخلہ،خارجہ،دفاعی، زرعی،صنعتی، تجارتی، سماجی، انصافی، تعلیمی، روزگاری اور صحت پالیسی کیا ہے اور کن عملی خطوط پر نافذ ہو گی اور وہ ان پالیسیوں کے ذریعے اگلے پانچ برس میں ملک اور عوام کو کس سمت اور کہاں تک لے جانا چاہے گی۔
حزبِ اقتدار کا لیڈر انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے آدھی تقریر اس موضوع پر کرتا تھا کہ اس نے کیا کیا انتخابی وعدے پورے کیے،کون سے وعدے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور کن وعدوں پر وہ فلاں فلاں وجہ یا دباؤ کے سبب عمل نہ کر پایا۔حزبِ اختلاف کے رہنما اپنے جلسوں میں حزبِ اقتدار کو بلند بانگ دعوے پورے نہ کرنے کے طعنے دیتے تھے اور متبادل کے طور پر اپنا پرکشش پروگرام پیش کرتے تھے۔اس کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو کم ازکم خواندہ طبقات ووٹ دیتے وقت مختلف جماعتوں کے دعووں اور زمینی حقائق کا کچھ نہ کچھ موازنہ ضرور کر لیا کرتے تھے۔ جب کہ ناخواندہ طبقہ بھی منشوری نعروں سے پارٹی کی سمت اور نیت کا تھوڑا بہت اندازہ لگا لیتا تھا۔ انیس سو ستر کے پہلے عوامی انتخابات دراصل منشور، نظریے اور شخصیات کی کش مکش تھی۔
عوامی لیگ کی قوم پرستی، مذہبی جماعتوں کا اسلامی نظام اور بھٹو کا روٹی کپڑا مکان والا سوشلزم۔چنانچہ ووٹر کے سامنے واضح چوائس تھی۔تب کے ووٹر کا آئیڈیل ازم اور امیدیں بھی جوان تھیں کیونکہ سوائے کنونشن مسلم لیگ کسی بھی بڑی جماعت(عوامی لیگ، پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، جمیعت علمائے اسلام) کو اقتدار کا عملی تجربہ نہیں تھا۔چنانچہ منشور اور نعرہ ہی وہ پیمانہ تھاجس سے ووٹر اپنا ذہن بنانے کے لیے کسی بھی سرکردہ پارٹی یا رہنما کو ناپ سکتا تھا۔
ستر کے بعد اگلے سینتالیس برس میں اس عمل کو ہر لحاظ سے فاسٹ فارورڈ ہونا چاہیے تھا۔یہ توقع تو نہیں تھی کہ اگلی چار دہائیوں میں سیاسی لیڈرشپ اتنی بالغ ہو جائے گی کہ وہ منشور کے اگلے مرحلے یعنی شیڈو کابینہ کی روایت ڈالے گی جس کا مقصد محکمہ در محکمہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سنجیدگی سے نظر رکھنا اور پالیسی متبادل پیش کرتے رہنا ہے جیساکہ مستحکم جہموری ممالک کی روایت ہے۔مگر شیڈوکابینہ تو خیر کیا کوئی جماعت بناتی الٹا منشور کی اشاعت اور اس پر نکتہ وار بحث کو بھی ایک لایعنی مشق اور کاغذ کا ضیاع سمجھ کے ترک کر دیا گیا۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ جمہوری عمل ہی ضیا اور مشرف کے طویل ادوار کے سبب ڈسٹرب رہا لہذا منشور ونشور پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔مگر یہ جواز پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ستر کے پہلے عام انتخابات بھی ایوب خان کی طویل آمریت کے بعد ہوئے لیکن اس دور کے سیاستدانوں نے اسے منشور سازی سے پہلوتہی کا جواز نہیں بنایا۔
آج تو اس روایت پر کاربند رہنے کی اور زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ستر کی اقتداری ناتجربہ کاری کے برعکس آج کی بیشتر سرکردہ سیاسی جماعتیں تین تین چار چار بار کلی یا جزوی اقتدار میں رہ چکی ہیں یا اب بھی ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً ریاستی احتسابی ڈھانچے کے آگے تو اپنی صفائی دینے پر مجبور کر دی جاتی ہیں مگر منشور کی شکل میں ووٹروں کو رضاکارانہ جوابدہ ہونا فضول کام سمجھتی ہیں۔حالانکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ کام پہلے سے کہیں آسان اور ابلاغی ہو گیا ہے۔
اس ملک میں پیپلز پارٹی چار بار وفاقی سطح پر اور چھ بار صوبائی اقتدار میں رہنے کا طویل ترین تجربہ رکھتی ہے۔اس پارٹی کے بانی کو ووٹ ہی منشور پر ملے تھے لیکن آج پیپلز پارٹی کے پاس سوائے زندہ ہے بی بی زندہ ہے، ایک زرداری سب پے بھاری کے سوااورکیا ہے؟ ستر کے بعد سے اب تک پارٹی جتنی بار جس سطح پر بھی برسرِاقتدار آئی اس نے اپنی پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر کتنی بار کوئی نئے اہداف دیے؟ صرف گڑھی خدا بخش کے مزارات کی بنیاد پر ووٹ بینک کب تک کیش ہو سکتا تھا یا ہو سکتا ہے؟ آج کی پیپلز پارٹی نظریاتی، سیاسی، سماجی و اقتصادی طور پر موجودہ پاکستان کو کہاں لے جانے کی خواہش مند ہے؟کوئی جانتا ہو تو مجھے بھی تعلیم کرے۔
مسلم لیگ ن جس جماعت کی وارث ہے اس نے اپنا آخری منشور انیس سو چھالیس کے متحدہ ہندوستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں پیش کیا تھا اور اگلے برس پاکستان بنوا کر وعدہ پورا کر دیا۔اس کے بعد سے آج تک یہ تو سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ الف سے چ تک کتنے دھڑے بنے مگر کتنے منشور سامنے آئے؟ کون جانتا ہے ؟ آج مسلم لیگ ن کا صرف ون لائن منشور ہے ’’ مجھے کیوں نکالُا ‘‘۔
تحریکِ انصاف کی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں وہی شکل تھی جو ستر کے انتخابات میں تمام سرکردہ جماعتوں کی تھی۔ یعنی اقتدار کے عملی تجربے سے ناواقفیت۔چنانچہ تحریکِ انصاف نے بھی بڑے جوش سے ایک منشور کمیٹی بنائی جس نے کلیدی امور پر پالیسی پیپرز بھی تیار کیے۔
خود عمران خان اپنے ویژن کے بارے میں اخباری کالم لکھتے رہے۔اس کا نتیجہ دو ہزار تیرہ میں زیرو سے ہیرو کی شکل میں نکلا ( کم ازکم شہری مڈل کلاس کی حد تک )۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریکِ انصاف دھرنائی سیاست کے بجائے اپنے محبوب موضوع کرپشن اور گڈ گورننس کو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سنجیدہ ڈبیٹ کا مسلسل موضوع بناتے ہوئے ایک ٹھوس ووٹ بینک بنانے پر پوری توانائی لگا دیتی۔مگر پچھلے ساڑھے چار برس میں عمران خان نے جتنی توانائی گو نواز گو اور ہر غیر کو کرپٹ اور ہر اپنے کو پرہیز گار ثابت کرنے پر صرف کی۔ اس کا دس فیصد بھی یہ سمجھانے پر خرچ نہیں کیا کہ بھائیو جب میں برسرِاقتدار آ جاؤں گا تو پاکستان کی داخلہ، خارجہ، دفاعی، زرعی، صنعتی، تجارتی، سماجی،انصافی، تعلیمی، روزگاری، بین الصوبائی اور صحت پالیسی اور گڈ گورنننس کو ان ان ٹھوس خطوط پر چلایا جائے گا۔آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ پارٹی کا نظریہ کیا ہے، مذہبی، سیکولر ، معتدل، انتہا پسند ، قوم پرست ، وفاق پرست کہ انا پرست ؟
جہاں تک سرکردہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو وہ تو بہت پہلے ہی منشوری جھنجھٹوں سے دامن چھڑا چکیں۔ بس جب ہم آئیں گے تو اسلامی نظام لائیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔اس تناظر میں دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ووٹر جب تک بیلٹ باکس تک پہنچے گا تب تک اس کا چہرہ کسی منشور کے اطمینانی غازے سے چمکنے کے بجائے دشنام، لایعنیت،کنفیوژن کی گرد سے اٹا ہوا ہوگا۔اس وقت ووٹر کی ذہنی حالت اس مسافر جیسی ہے جسے بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن سے باہر آتے ہی رکشہ ، ٹیکسی اور تانگے والے گھیر لیتے ہیں۔کوئی صندوق،کوئی واسکٹ، کوئی ٹانگ،کوئی کالر تو کوئی بازو کھینچ رہا ہے۔ایسے میں مسافر ان سب کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوتا ہے۔اگر سچ لکھ دوں تو پھر یہ آخری کالم ثابت ہوگا۔سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ