بچپن میں جب ہم کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے تو اکثر اُن کے سیل بہت جلد کمزور ہو جاتے تھے، یہ بات میرے لیے بہت مایوس کُن ہوتی تھی، بیٹھے بٹھائے کھلونا بیکار ہو جاتا تھا۔ ایک روز میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایڈیسن کی طرح ایک تجربہ کیا جائے، آخر وہ بھی تو ایسے ہی تجربوں کے نتیجے میں سائنس دان بنا تھا، یہی سوچ کر میں نے بجلی کی ایک دوہری تار لی، بلیڈ سے دونوں سروں سےتار کا پلاسٹک کھرچ کر اُس کے دو منہ بنائے، ارادہ یہ تھا کہ سیل کو بجلی کی مدد سے چارج کروں تاکہ سیل کی طاقت بحال ہو جائے اور روز روز کے جھنجھٹ سے جان چھوٹے، دل ہی دل میں خود کو داد بھی دی کہ کیسا جینئس دماغ پایا ہے۔ میں نے تار کے ایک سرے کو سیل کے نیچے رکھ کر انگوٹھے سے دبا لیا اور دوسرے سرے کو بجلی کی ساکٹ میں ڈال کر سوئچ آن کر دیا۔ بس، اُس کے بعد سیل نے تو خیر کیا چارج ہونا تھا میں چارج ہو گیا، بجلی کے جھٹکوں سے تقریباً دس سیکنڈ تک تھرتھراتا رہا، وہ تو شکر ہوا کہ مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے سیل کے نیچے دبائے ہوئے انگوٹھے سے تار نکل گئی ورنہ آپ آج یہ کالم نہ پڑھے رہے ہوتے اور دنیا ایک عظیم انسان سے محروم ہو چکی ہوتی۔ تجربہ بے شک ناکام ہو گیا مگر سائنس کا ایک زریں اصول سمجھ میں آگیا کہ تانبے کی ننگی تار کو ہاتھ میں پکڑ کر اگر بجلی کا کرنٹ دیا جائے تو انسانی جسم بھی موصل یعنی conductorبن جاتا ہے جس کے نتیجے میں بجلی آپ کے جسم میں دوڑنے لگتی ہے۔ اس کے بعد میں نے ایف ایس سی تک سائنس پڑھی، سی ایس ایس میں بھی روزمرہ سائنس کا ایک مضمون ہوتا ہے اُس سلسلے میں بھی سائنس کی کتابیں پڑھیں اور یوں سائنس کے کئی قوانین مجھے بجلی کے جھٹکوں کے بغیر ہی سمجھ میں آگئے، مثلاً کسی جسم پر لگائی گئی قوت برابر ہوتی ہے اُس جسم کی کمیت ضرب رفتار سے (نیوٹن)، روشنی کی رفتار ہر سمت میں یکساں ہوتی ہے (آئن سٹائین)، اگر کسی جسم کو مائع میں ڈالا جائے تو اُس پر لگائی گئی قوت مائع کے اُس وزن کے برابر ہوگی جو اُس جسم کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑے گا (ارشمیدس)۔ اسی طرح سائنس کے سینکڑوں قوانین ہیں جو برسہا برس کے تجربوں کے بعد آج ہماری زندگیوں میں رچ بس گئے ہیں، کوئی اُن پر سوال نہیں اٹھاتا کیونکہ اُن کی افادیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہم گاڑی اسٹارٹ کرکے سڑک پر لاتے ہیں تو ہمیں کامل یقین ہوتا ہے کہ گاڑی پٹرول کے بغیر بند ہو جائے گی، پٹرول ڈلوانے کی بجائے اگر آپ گاڑی پر کسی بابے سے دم کروا لیں اور سوچیں کہ گاڑی چل پڑے گی تو ایسا قیامت تک نہیں ہوگا، لاہور سے سڈنی کسی سے بات کرنے کے لئے لامحالہ آپ کو فون کا استعمال کرنا پڑے گا کسی پیر بابے کی کرامت سے یہ ممکن نہیں ہو گا اور اسی طرح عمرہ کرنے کے لئے آپ کو جہاز کا سفر کرنا پڑے گا ایسا نہیں ہوگا آپ خود کسی روحانی قوت کے بل پر اُڑ کر منزل پر پہنچ جائیں۔ جی نہیں، میرا ارادہ سائنس اور روحانیت کا تقابل کرنے کا نہیں، سائنس ہمارے مادی مسائل کا حل ہے جبکہ روحانیت کے پیروکار اپنی روح کی پاکیزگی کے لئے مرشد کے پاس جاتے ہیں۔
ہم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کوئی بھی سیاسی وابستگی رکھتے ہوں، ہماری چمڑی گوری ہو یا کالی، صوبہ پنجاب ہو یا بلوچستان، مسلک شیعہ ہو یا سنّی، زبان سرائیکی ہو یا پشتو۔۔۔سائنس کے اصولوں پر سب کا اندھا یقین ہے، اٹھتے بیٹھتے ہم سائنس کی ایجادات سے استفادہ کرتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ اس شے کا موجد گرجے میں عبادت کرتا تھا یا رام کے آگے ماتھا ٹیکتا تھا یا پھر سرے سے خدا کا ہی انکاری تھا۔ ہم سمارٹ فون کا جدید ماڈل استعمال کرتے ہیں، بوئنگ میں سفر کرتے ہیں اور کوئی بیماری ہو جائے تو مغربی مشینوں کی مدد سے تشخیص کرواتے ہیں۔۔۔کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا موبائل فون کمپنی کا سی ای او نماز روزے کا پابند ہے، بوئنگ کا مالک حاجی ہے یا پھر دل میں سٹنٹ ڈالنے والی مشین کا موجد خدا کو مانتا بھی تھا یا نہیں! وجہ اِس کی یہ ہے کہ سائنس کے اصول عقلی دانش پر مبنی ہوتے ہیں اور تحقیق کے بعد مرتب کیے جاتے ہیں، سالہا سال کے تجربات کے بعد، کئی قسم کے مراحل سے گزر کر اور جینئس سائنس دانوں کے بنائے ہوئے کڑے معیارات کو پاس کرنے کے بعد انہیں مانا جاتا ہے تاہم یہ پھر بھی حتمی نہیں سمجھے جاتے، آئے روز نئے نئے لوگ ان پر تحقیق کرتے ہیں اور اگر کسی کی تحقیق میں پرانی بات غلط ثابت ہو جائے تو کوئی سائنس دان اپنی ضد پر نہیں اڑتا کہ اُس کی کہی ہوئی بات میں ترمیم کیوں کی جا رہی ہے بلکہ نئی تحقیق کو بھی انہی کٹھن مراحل سے گزار کر پرکھا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ پرانے سائنسی اصول کی جگہ لیتی ہے۔ ہماری زندگی میں دخیل سائنسی ایجادات انہی سائنسی اصولوں کی مرہون منت ہیں مگر یہ عجیب بات ہے کہ ہم سائنس کی بنائی ہوئی چیزوں کو تو چوم چاٹ کر استعمال کرتے ہیں مگر جس سائنسی سوچ کے نتیجے میں یہ وجود میں آتی ہیں اس سوچ کو نہیں اپناتے۔ سائنسی سوچ کیا ہے؟ سوچنے کا وہ انداز جو سنی سنائی باتوں، توہمات یا غیر عقلی توجیہات کی بجائے تحقیق، علم اور عقل کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو ہی دیکھ لیں، واہموں، خوف اور بے یقینی سے عبارت ہیں، نئی گاڑی کے پیچھے ہم کالا کپڑا باندھ دیتے ہیں کہ نظر نہ لگے، کالے بکرے کی سری کاٹ کر پھینک دیتے ہیں کہ بلائیں ٹل جائیں (حالانکہ مرحوم کالے بکرے کے لیے ہم خود ایک بلا ثابت ہوئے) اور مذہب کا نام استعمال کرنے والوں کو بلوا کر فیکٹریوں میں دم کرواتے ہیں تاکہ لیبر ہڑتال نہ کرے اور مشینیں ٹھیک کام کرتی رہیں۔
ہماری اجتماعی سوچ بھی مکمل طور پر غیر سائنسی ہے، گزشتہ ستّر برس سے ہم نے قوم کو مختلف قسم کے بیانیے ایک چُورن کی صورت میں بنا کر دیے ہیں، کرپشن کا بیانیہ، عظیم قوم کا بیانیہ، جمہوریت کی ناکامی کا بیانیہ، خیر اندیش آمریت کا بیانیہ وغیرہ وغیرہ۔ ایک کے بعد ایک یہ بیانیے پٹے، ہر مرتبہ خیر اندیش آمر ناکام ہوا، ہر مرتبہ یہ تجربے ناکام ہوئے، ہر مرتبہ ہمیں بجلی کے جھٹکے لگے اور ہر مرتبہ قوم کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی مگر ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ایک نئے عزم کے ساتھ ہم کچھ کچھ عرصے کے بعد بجلی کی ننگی تار ہاتھ میں پکڑ کر ایک سرا سیل کے نیچے رکھتے ہیں اور یہ سوچ کر سوئچ دباتے ہیں کہ شاید اس مرتبہ ہمیں کرنٹ نہیں لگے گا اور مفت میں سیل چارج ہو جائے گا مگرایسا نہیں ہوتا۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔ جب تک ہم سائنس کے اصولوں کے مطابق اپنی سوچ تبدیل نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمیں زندگیوں میں ایسے ہی بجلی کے جھٹکے لگتے رہیں گے۔
کالم کی دُم: تقریباً سات ماہ کے سفر کے بعد ناسا کا جہاز مریخ پر اُتر گیا ہے، میری اطلاع کے مطابق یہ ایک عالمی سازش ہے جس میں چند بڑی امریکی کمپنیاں، جن کے قبضے میں عالمی سرمائے کا اسّی فیصد ہے، شامل ہیں۔ گیم یہ ہے کہ مریخ پر ایک ہاؤسنگ کالونی تعمیر کی جائے تاکہ مغربی اقوام کے امیر طبقات مستقبل میں وہاں محفوظ رہ سکیں۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے ہم ایسے چھوٹے ممالک میں طوفانوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا تاکہ انسان اپنے مستقبل سے مایوس ہو جائیں، اس ضمن میں کچھ کرپٹ سیاست دانوں سے ڈیل ہو چکی ہے۔
نوٹ:کالم کی دُ م satireہے، یہ نوٹ خاص طور سے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ