یوں پذیرائیوں سے مجھے ہمیشہ ڈر لگا ہے۔ ڈرنا ہی چاہئے…. کب تالی بجانے والے ہاتھ پتھر اٹھا لیں کون جانے….؟ مگر تقاضا جنوبی پنجاب کے اہل قلم کی طرف سے تھا۔ جس کے سرغنہ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی تھے۔ سخنور فورم کے تحت جو ادبی محافل سجاتے رہتے ہیں۔ ان اصحاب کا تقاضا تھا کہ میرے نئے ناول ”دانا رسوئی“ کی تقریب پذیرائی ملتان میں کی جائے شرط یہ ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مدعو کیا جائے۔ ایک تو یہ کہ سید یوسف رضا گیلانی کا تعلق ملتان سے ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے ”چاہِ یوسف سے صدا“ لکھ کر مصنفین میں اپنا نام شامل کر دیا ہے۔ 1985ءمیں یوسف رضا گیلانی پہلی بار نیشنل اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے تھے اور میں صوبائی اسمبلی پنجاب میں آئی تھی۔ ہم دونوں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے اولڈ سٹوڈنٹ تھے۔ وہ مجھ سے جونیئر تھے۔ اس وقت لاہور کی ایک صحافی تنظیم نے ایک محفل پذیرائی سجائی تھی۔ جس میں جناب لیاقت بلوچ جناب یوسف رضا گیلانی (جو کہ اس وقت ریلوے کے وزیر بن چکے تھے) اور راقمہ کو مدعو کیا تھا۔ اس تقریب میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی ارتقائی مقامات طے کرتے ہوئے اقتدار اعلیٰ تک جا پہنچیں گے۔ ظاہر ہے قسمت ان کا ساتھ دیتی ہے۔ جو وقت کے نبض شناس ہوتے ہیں….! سیاست کے اندرونی معاملات میں بھی اپنی تقاریر کے اندر سید یوسف رضا گیلانی موزوں اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ جس سے ان کی خوش ذوقی کا اندازہ ہوتا ہے…. اسلئے میں نے ملتان کے اہل قلم کی خواہش ان تک پہنچا دی…. اور انہوں نے حامی بھر لی…. سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔ میں بھی ملتان پہنچ گئی تھی…. جب اچانک پاکستان کی سرحدوں پر نیٹو کے اچانک اور نامناسب حملے کی خبر ملی…. تب وزیراعظم کو فوراً تمام سیاسی و ادبی سرگرمیاں چھوڑ کر اسلام آباد جانا پڑ گیا۔ ظاہر ہے استحکام پاکستان اور معاملات پاکستان ہر تقریب اور ہر شخصیت سے اہم اور برتر ہوتے ہیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے فرزند علی موسیٰ گیلانی کو اپنی جگہ پر بٹھا گئے۔ جو تازہ تازہ دولہا بنے تھے اور ابھی تک مبارکیں وصول کر رہے تھے۔ملتان جانا ہمیشہ ایک خوشگوار اور یادگار تجربہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں۔ غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست…. ملتان کے پہلو میں، ساٹھ کلومیٹر دور بہاولپور ہے…. اور بہاولپور کی زمین میں میرے والدین مدفون ہیں۔ جن کی تربیت کا گلزار میری ذات میں مہکتا رہتا ہے اور جن کی یادوں کا لوبان میری کاوش پیہم میں دہکتا رہتا ہے۔ ویسے ملتان ایک روشن شہر ہے۔ صحرا سے قریب ہے۔ وہاں آپ کو اصلی دھوپ اور اصلی چاندنی ملے گی۔ بڑے شہروں میں سورج گدلایا ہوتا ہے اور چاندنی گہنائی ہوتی ہے۔ راتوں کو ٹریفک کی عارضی روشنیاں چاندنی کے تن کو میلا کرتی رہتی ہیں۔ پھر ملتان تو مدینة الاولیاءہے۔ ان لوگوں میں درویشانہ خصائص پائے جاتے ہیں۔ سخنور فورم نے ملتان کے علاوہ پچیس شہروں کے اہل قلم کو مدعو کیا تھا۔ اور وہ سب بڑے ذوق و شوق سے تشریف لائے تھے۔ یہ ایک بہت ہی پروقار اور خوشبودار تقریب تھی۔ میں ان لوگوں کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ جنہوں نے صبح کے وقت سفر کیا۔ اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ اس محفل کو دیا۔ خاص طور سے میں جناب ڈاکٹر اسلم انصاری، جناب پروفیسر حسین سحر، جناب ڈاکٹر محمد امین، جناب پروفیسر انور جمال، جناب عبدالجبار مفتی، جناب قمر رضا شہزاد اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی ممنون ہوں جنہوں نے ”دانا رسوئی“ کے بارے میں فکر انگیز اظہار خیال کیا اور مجھے مزید لکھتے رہنے کا حوصلہ عطا کیا۔ ہمارے ہاں فضا کچھ ایسی بن گئی ہے کہ دوست احباب کتاب پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ ذرا سی ورق گردانی کرنے کے بعد نپے تلے فقروں میں سٹیج پر آ کر اپنا فرض ادا کر جاتے ہیں…. ملتان کے تمام معتبر دانشور مقالات لکھ کر لائے تھے اور اظہار خیال کے دوران پورے ناول کے کرداروں اور واقعات پر سیر حاصل بحث کرتے رہے اور ایسے تمام نکات اٹھائے جو ایک تبصرہ نگار اور نقاد ہی اٹھا سکتا ہے۔ سچی بات ہے۔ میں تمام مقالہ نگاروں کی تحریروں سے بہت متاثر ہوئی۔ مجھے یوں احساس ہوا جیسے میں پھر پندرہ بیس سال پہلے والے زمانے میں پہنچ گئی ہوں۔ جب لکھنے اور بولنے والے اپنے فرائض منصبی کو پہچان کر کتابیں پڑھتے تھے اور اظہار خیال کیلئے آتے تھے۔ اب تنقید نگاروں میں بھی ایک ایسا طبقہ ابھر آیا ہے۔ جو اپنی رضا اور رغبت سے تبصرہ کرتا ہے۔ اگر مصنف اسے پسند نہ ہو۔ تو وہ سو بہانوں سے اس کی کتاب پر لکھنے سے انکار کر دیتا ہے…. اور اگر پسند ہو تو اسے فن کے اعلیٰ درجے پر ہی پہنچا دیتا ہے۔ مرحوم صادق الخیری نے مجھے ایک بار کہا تھا۔ آپ جنونی انداز میں لکھتی رہتی ہیں۔ آج کے نقادوں کو متوجہ کرنے کیلئے بھی پی آر کی ضرورت ہوتی ہے…. ہمارے بعض نئے ادیب اور شاعر بہت سیانے ہیں۔ انہوں نے خود ہی میزان ہاتھ میں پکڑ لیا ہے۔ تنقید نگاری بھی کرنے لگے ہیں اور اپنے ہم عصر دوستوں سے لکھوانے بھی لگے ہیں۔ اسلئے اب تلاش کرنا مشکل ہے کہ صرف شاعر، صرف ادیب یا صرف نقاد کون ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑے اور سچل تنقید نگار ہر دور میں موجود ہوتے ہیں۔ وہی ادب اور شاعری کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ ان کی رائے صائب ہوتی ہے۔ وہ ادب کے سمندر میں سے سیپیاں اور موتی تلاش کر لیتے ہیں اور یہ کہ پاکستان کے اندر آج بھی بہت اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی یلغار نے ہر لکھی ہوئی تحریر کو ضرورت بنا دیا ہے۔ یہ بھی تو ارتقا کی ایک صورت ہے اس طرح بہت سے گمنام ادیب اور شاعر منظر پر آ گئے ہیں….!!اصل میں ان ساری باتوں کا خیال مجھے جناب ڈاکٹر اسلم انصاری کے مضمون اور گفتگو سے آیا۔ اگرچہ وہ مضمون لکھ کر لائے تھے۔ مگر انہوں نے زبانی بڑی خوبصورت گفتگو کی…. طبیعت کی ناسازی اور کہولت کے باوجود وہ بنفس نفیس تشریف لائے۔ انہوں نے عالمی ادب کے تناظر میں ناول اور افسانے کی بدلتی ہوئی ہیئت پہ بات کی۔ بیسویں صدی کے ادب کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ناول اور افسانے کی ساخت میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور یہ تبدیلیاں کیوں رونما ہوئی ہیں۔ کاش میں ان کا سارا مضمون یہاں نقل کر سکتی۔ ہاں اتنا کہہ سکتی ہوں کہ ان کی گفتگو علم و عرفان اور معلومات سے بھری ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ایک عظیم دانشور اظہار خیال کر رہا ہے…. مجھ سے اب تک سینکڑوں بار لوگ یہ سوال کر چکے ہیں کہ میں نے اپنے کالم کا عنوان چادر چاردیواری اور چاندنی کیوں رکھا ہے….؟ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس عنوان سے لگتا ہے کہ لکھنے والی کوئی خاتون ہے۔ ہزار بار میں نے یہ جواب دیا ہے کہ مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر ہے۔ سات جنم بھی ملیں تو میں عورت ہونا ہی پسند کروں گی (یہ محاورہ ہے) لیکن اس روز جب انصاری صاحب نے میری ساری تحریروں، افسانوں اور ناولوں کا احاطہ کرتے ہوئے یکایک کالموں کا ذکر کر دیا تو سب سے پہلے اس عنوان کی تشریح کر دی کہ چادر اور چاردیواری کے ساتھ چاندنی کا کیا ناتا ہے…. ایسے ہوتے ہیں دانشور…. جو القائی انداز میں معانی اور مفہوم تک جان لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین۔!ادیب وقت کا نقیب ہوتا ہے۔ کتاب کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو گی۔ محفلوں کی اپنی افادیت ہے۔ ٹیلیویژن ان کی جگہ نہیں لے سکتا…. کتاب رہنمائی کرتی ہے۔ انسان، انسان کو سکھاتا ہے۔ یہ سلسلہ فیض جاری رہنا چاہئے…. راہ چلتے چلتے میں نے رضی سے کہا مجھے ملتان کے امرود خرید کر دو۔ وہ بولا بس آپ کو ملتان سے صرف امرود چاہئیں…. میں نے کہا ہاں…. ملتان کے امرود اور بہاولپور کے بیر پسند ہیں…. میری امی کے صحن میں بیری کا ایک درخت تھا…. ویسا درخت میں نے کہیں نہیں دیکھا…. اور میں نہیں جانتی تھی کہ تقریب کے دوران ملتان کے اہل قلم امرود اور بیر کے علاوہ مجھے کوئی اور سوغات بھی دے کر بھیجنا چاہتے ہیں۔ شاکر نے قرارداد پیش کر دی اور اہل قلم نے ہاتھ اٹھا دیئے۔ کہنے لگے بیٹی کو میکے سے خالی ہاتھ بھیجنے کی رسم نہیں ہے۔ ہم آپ کو ”عندلیب پاکستان“ کا خطاب دے کر بھیج رہے ہیں…. تاکہ امرودوں اور بیروں سے بے نیاز ہو کر آپ ڈال ڈال، چمن چمن چہک سکیں، مہک سکیں
جمدیں درداں ماری کوں آدرداں منہ ڈکھلایا
درداں پال جوان کیتم وچ دردیں ماں پرنایا
دردوں درد دا ڈاج ڈھیم دردیں ڈولی پایا
عقل فرید ڈھیا ھیم دردوں، درداں عقل پُھلایا
ترجمہ: ماں نے درد پلا کے مجھے پالا پوسا۔ اور پھر مجھے درد و آگہی کے ساتھ بیاہ دیا۔ جہیز میں سوز و درد دیا اور درد ہی کی ڈولی میں بٹھا کے رخصت کیا۔ یار فرید کیا پوچھتے ہو۔ دردوں نے ہی مجھے اسلوب زندگی و بندگی سکھایا…. اور دردوں نے ہی مجھے جنونی بنا دیا….! (حضرت غلام فریدؒ)
( روزنامہ نوائے وقت ۔۔ 5 دسمبر 2011 ء )