یہ واقعہ آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ آئن سٹائن سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں ؟ وقت کا دھارا بدلنے والے سائنس دان نے جوا ب دیا ”میں سپینوزا کے خدا کو مانتا ہوں۔“مرا د یہ تھی کہ میں ایسے غیر شخصی خدا کو مانتا ہوں جوکائنات کا خالق تو ہوسکتا ہے مگر انسانوں کی زندگیو ں میں دخیل نہیں ہے،دنیاوی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ، معجزے تخلیق نہیں کرتااوردعاؤ ں کی مدد سے اُس کے فیصلے تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ایسا خدا ہم انسانوں کے کسی عمل کا محتاج ہے اور نہ منتظر۔سپینوزا کا تصور خدابظاہر مودبانہ انداز میں خدا کے وجود کاانکار ہے مگر حقیقت میں سپینوزا خدا کے وجود کا زبردست داعی تھا اور اِس کے حق میں اُس نے بے شمار دلائل بھی دئیے ۔
سپینوزا کی زندگی مختصر مگر تلاطم خیز تھی ۔ یہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا ، بچپن میں ہی اس نے بائبل حفظ کر لی اور ساتھ ہی عبرانی زبان پربھی عبور حاصل کرلیا ۔اُس زمانے میں یہودی عالم بننے کے لیے یہ تیر بہدف نسخہ تھا ۔ سپینوزا بھی شاید یہودی عالم بن جاتا مگر ’قدرت ‘ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ہوا یوں کہ سپینوزا نے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ بھی پڑھنا شروع کردیا اور یہیں سے اس کے خیالات میں انقلابی تبدیلی آئی ،فلسفے کی تعلیم نے سپینوزا کے ذہن میں زندگی بعد از موت، انسانی پیدایش، روح ، معجزات ، جزا و سزا اور جبر و قدر کے گنجلک معاملات سمیت کئی ایسے سوالات کو جنم جو اُس وقت کی مذہبی تعلیم سے متصادم تھے ۔ سپینوزا کو اپنے اِن نظریات کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور چوبیس سال کی عمر میں اس کو تکفیری قرار دے دیا گیا ۔اُس زمانے میں ہالینڈ ، جہاں سپینوزا کی پیدایش ہوئی تھی ،کو یورپ کے باقی علاقو ں کی نسبت قدرے آزاد خیال سمجھا جاتا تھا مگر وہاں بھی سپینوزا کے خیالات مشکل سے ہی ہضم ہوئے تاہم خیریت رہی کہ کسی نے اسے قتل نہیں کیا اورفقط چوالیس کی عمر میں یہ فلسفی اپنی طبعی موت مر گیا۔
اس کی مشہور زمانہ کتاب ’Ethica‘ (اخلاقیات(اُس کے مرنے کے بعد شائع ہوئی ۔
سپینوزا کا تصور خدا کا فلسفہ خاصا عجیب ہے ، ایک سطر میں اگر اسے بیان کیا جائے تو سپینوزا کا خداکسی انسان کا سرپرست اعلیٰ یا نجات دہندہ نہیں اور نہ ہی یہ خدا انسانوں کی داد رسی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے بلکہ یہ ایک ایسا غیر شخصی ’جوہر ‘ ہے جو کائنات کوکڑے او ر ناقابل تغیر قوانین کے تحت چلاتا ہے ، اِن قوانین کے آگے کسی دعا اور اپیل کی کوئی گنجایش نہیں ، یہ قوانین ہر جگہ اٹل ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتے ۔ظاہر ہے کہ یہ تصور خدا بائبل یا دیگر مذاہب کے تصور سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھااور پادریوں کے لیے تو بالکل نا قابل قبول تھا جو لوگو ں سے پیسے بٹور کر انہیں جنت کا پروانہ جاری کرتے تھے ، وہ کیسے سپینوزا کے خداکو مان لیتے؟تاہم کچھ مغربی مصنفین کا خیال ہے کہ سپینوزا نے مذہب کی نئی تشریح اور خدا کا اچھوتا تصور پیش کرکے ایک طرح سے مذہب پر اٹھائے جانے والے عقلی اعتراضات کا ٹھوس اور شافی جواب دیا ۔ گو کہ اُس زمانے میں سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر اِس کے باوجود مذہب کے باب میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے جن کے جواب کے لیے ایک نئے علم الکلام کی ضرورت تھی، یہ ضرورت سپینوزا نے پوری کی ۔سپینوزا کا ایک ’مقالہ مذہب اور ریاست‘ پربھی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ سب صحیفے بنیادی طور پر انسانوں اور تمام نسل انسانی کے لیے لکھے گئے ہیں لہذا اِن کا مواد ایسا ہونا چاہیے تھا جسے عوامی طور پر سمجھنا مشکل نہ ہو، اِن صحیفوں میں علت و معلول کے کلیے کے تحت معاملات کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ انہیں اِس انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا جا سکے۔۔۔اس کا مقصد انسانی عقل کو ابھار کر قائل کرنا نہیں بلکہ انسانی تخیل کو جھنجھوڑنا ہے ، اسی وجہ سے ہمیں اِن میں جا بجا معجزوں کی باتیں اور خدا کا شخصی وجود مصروف عمل نظر آتا ہے ۔’داستان فلسفہ ‘ میں ول دیوراں لکھتے ہیں کہ سپینوزا کے مطابق اگر اِس اصول پر بائبل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں اُس میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گالیکن اگر ہم لفظی تشریح کرنے بیٹھیں گے تو پھر معاملہ الجھ جائے گا۔۔۔
دونوں قسم کی تشریحات کا اپنا مقام اور مقصد ہے ، لوگوں کو ہمیشہ ایک ایسا مذہب چاہیے ہوگا جس میں کسی مافوق الفطرت وجود کا تصور ہو، اگر ایسے کسی مذہب کا تصور ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو لوگ نیا مذہب تخلیق کر لیں گے، تاہم ایک فلسفی کو یہ علم ہونا چاہیے کہ خدا اور قدرت ایک ہی ہیں جو ناقابل تغیر قانون کے تحت کام کرتے ہیں (صفحہ 210)۔مشہور مسلم مفکر ابن سینا کا بھی خدا کے بارے میں کسی حد تک یہی غیر شخصی تصور تھا جس پر بعد میں امام غزالی نے سخت تنقید کی ۔سپینوزا کے تصور خدا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کائنات بلا مقصد ہے اور اپنے اِس بیان کی حمایت میں سپینوزا کی دلیل خاصی دلچسپ ہے کہ ”اگر خدا کسی مقصد کوحاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس مقصد کے حصول سے پہلے خدا کے ہاں کسی قسم کی کوئی کمی ہے لیکن چونکہ خدا کامل اور خود کفیل ہے لہذا کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
انسان کے علم کو سپینوزا ناقص قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ ہم سے چھپا ہوا ہے اس لیے ہم واقعات کی حقیقت جان نہیں پاتے اوریوں انہیں دوسرے واقعات کے ساتھ غلط انداز میں نتھی کرکے دیکھتے ہیں۔سپینوزا پر تبصرہ کرتے ہوئے ول دیوراں لکھتا ہے کہ فلسفے میں پہاڑ ایسی غلطیوں کی جڑ اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے مقاصد ، میعارات اور ترجیحات کو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہو لہذا یہیںسے بدی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ہم انسان اپنی زندگی کی برائیوں اور خامیوں کو خدا کی اچھائی کے ساتھ منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سعی لا حاصل ہے۔ اسپینوزا کے الفاظ میں :”جب بھی کارخانہ قدرت میں ہمیں کوئی بات مضحکہ خیز،بے معنی یا بد لگتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اشیا کا نا مکمل علم ہوتا ہے اور ہم کائنات کے نظم اور قدرت کی ہم آہنگی سے آشنا نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ ہر چیز اُس طرح سے ترتیب میں ہو جیسے ہماری عقل کہتی ہے۔جبکہ ہماری عقل جسے برا سمجھتی ہے (ضروری نہیں کہ )وہ کائناتی نظم اور آفاقی قوانین کے تحت بھی بری ہو،(عین ممکن ہے کہ) وہ ہمارے اختراع کیے گئے قوانین کے تحت ہی برائی سمجھی جاتی ہو۔۔۔۔(جبکہ )کوئی بھی بات بیک وقت اچھی ، بری اور غیر متعلق بھی ہو سکتی ہے ، مثال کے طور اداسی کے موڈ میں موسیقی خوشگوار اثر ڈال سکتی ہے مگر کسی ماتمی موقع پر اسے برا سمجھا جائے گا اور مردہ لوگوں کے لیے یہ بالکل غیر متعلق چیز ہے ۔“
سپینوزادراصل انسانوں کو اِس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ کائنات کے رموز و اسرار اور قوانین کو سمجھیں،انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اندیکھے عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جنہیں کلی طور پر جاننا ہمارے بس میں نہیں لہذا ایسے کسی نا گہانی واقعے سے نمٹنے کے وقت جذبات سے نہیں عقل سے کام لینا چاہیے ، یہی آفاقی دانش کا تقاضا اور یہی سپینوزا کے خدا کی منشا ہے ۔
( گردو پیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم )