ان دنوں روس اور یوکرین کے درمیان ایک طویل جنگ جاری ہے۔ اس جنگ نے صرف متحارب ملکوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
یوکرین ایک بدقسمت ملک ہے۔ جب یہ سابق سوویت یونین کا حصہ تھا تو اس وقت کی حکومت کی لاپرواہی کے باعث وہاں ایک بھیانک واقعہ رونما ہوا تھا۔ ایٹمی حادثے کے حوالے سے انسانی تاریخ کا یہ بدترین واقعہ تھا۔ یوکرین میں واقع اس ایٹمی پلانٹ کو چرنوبل ایٹمی پاور پلانٹ کہا جاتا تھا۔ اس ایٹمی یعنی جوہری پلانٹ میں 1986 میں جو حادثہ ہوا اس کے نتیجے میں تابکار شعاعوں سے یورپ کا خاصا بڑا حصہ متاثر ہوا۔
یہ پلانٹ جس جگہ قائم تھا اس پورے علاقے کو ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ انسانی غلطی کی وجہ سے ایک ری ایکٹر کی چھت اُڑ گئی، آگ دو ہفوں تک پوری طرح سے بجھائی نہ جاسکی اور تابکار دھواں یورپ میں پھیل گیا۔
وہ ہفتہ 26؍ اپریل 1986 کی رات تھی۔ ایک عام سی رات جب اس وقت کے سوویت یونین اور آج کے بیلاروس کے چھوٹے سے شہر چرنوبل میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام کی نیند سورہے تھے۔ وہاں بنے ہوئے ایٹمی بجلی گھر میں موجود انجینئر اور ٹیکنیکل اسٹاف اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا اور اپنے اپنے کام کر رہا تھا۔ اس رات بھی مسئلہ یہی تھا کہ بجلی کی پیداوار کم تھی اور طلب زیادہ۔
ایٹمی بجلی گھر کی نگرانی کرنے والے انجینئر، افسر شاہی کو بار بار یہ بات یاد دلارہے تھے کہ چاروں ٹربائین اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہے ہیں، ان پر مزید دبائو نہ ڈالا جائے لیکن افسر شاہی کا حکم تھا کہ بجلی کی پیداوار زیادہ ہونی چاہیے تاکہ دور دراز کے جن علاقوں کو بجلی کی اشد ضرورت ہے، اسے پورا کیا جاسکے۔ یہ ا یک ایسا حکم تھا جس سے سرتابی نہیں کی جاسکتی تھی چنانچہ چرنوبل کا ایٹمی بجلی گھر ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ بجلی پیدا کرتا رہا اور دور دراز کے علاقے روشنی سے جگمگاتے رہے۔
اس کے بعد کے معاملات نہایت ٹیکنیکل ہیں اور انسان سے سرزد ہونے والی ناقابل معافی غلطیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس رات ایک ٹیکنیشن سے غلطی ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 26؍ اپریل کی رات، ایک بجے سے ایک بج کر تیئس منٹ چالیس سیکنڈ کی درمیانی مدت میں ایٹمی ری ایکٹر کے اندر پیدا ہونے والی توانائی اپنی مقررہ حد سے ایک سو بیس گنا زیادہ بڑھ گئی۔
اس بھیانک توانائی نے چشم زدن میں تمام پریشر ٹیوبوں کے چھیتڑے اُڑا دیے اور پھر چند سیکنڈ کے اندر ایٹمی ری ایکٹر کی نہایت دبیز کنکریٹ کی چھت اور حفاظتی حصار ایک خوفناک دھماکے ساتھ اُڑ گیا۔
یہ چرنوبل ایٹمی ری ایکٹر کا وہ حادثہ تھا جس کی اطلاع دنیا کو سویڈن سے ملی جہاں کی فضائوں میں تابکاری اچانک بڑھ گئی تھی۔ بیلاروس جہاں یہ حادثہ ہوا، وہ اس وقت سوویت یونین میں شامل تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوویت یونین میں خبروں کی اشاعت پر جس نوعیت کی پابندیاں تھیں اس کے سبب اس مہلک حادثے کی اطلاع سوویت باشندوں اور باقی دنیا کو بہت دیر سے ملی۔ تاہم اس وقت کے سوویت رہنما اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری صدر میخائل گورباچوف کا موقف کچھ اور ہے۔
چرنوبل کے سانحے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر انھوں نے ایک مضمون میں اس سانحے کی تفصیلات لکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج سے 20 سال قبل چرنوبل میں ایک ایسا ایٹمی حادثہ رونما ہوا جو پانچ سال بعد روس کو توڑنے پر پریسٹرائیکا سے بھی بڑی اور اہم وجہ بن گیا۔ بلاشبہ چرنوبل کی تباہی ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔ ایک دور اس تباہی سے پہلے تھا اور دوسرا دور اس سے قطعی مختلف جو اس تباہی کے بعد شروع ہوا۔ 26؍ اپریل 1986 کو جس رات چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر میں دھماکا ہوا۔
اگلی صبح صورتحال پر بحث کے لیے پولٹ بیورو کا اجلاس ہوا اور پھر اس کے نتائج اور اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک سرکاری کمیشن تشکیل دیا گیا جس کی ذمے داری صورتحال کو سنبھالنا تھا۔ اس کے علاوہ اکیڈمی آف سائنس نے معروف سائنسدانوں پر مشتمل ایک گروپ قائم کیا اور انھیں ہنگامی بنیادوں پر چرنوبل کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔
پولٹ بیورو کو فوری طور پر ایسی مکمل معلومات دستیاب بھی نہیں تھیں جن سے دھماکے کے بعد کی صورتحال کی صحیح عکاسی ہوسکتی۔ اس کے باوجود پولٹ بیورو میں اس بات پرمکمل اتفاق رائے موجود تھا کہ ہمیں جو بھی معلومات موصول ہوں انھیں اسی طرح آگے عوام تک پہنچایا جائے۔
’’36 گھنٹے تک ہمارے پاس سرے سے کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔ کچھ دن بعد ہمیں پتہ چلا کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ محض حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی ایٹمی تباہی ہے۔ چرنوبل میں ہمارا چوتھا ایٹمی ری ایکٹر دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ اگرچہ چرنوبل کے بارے میں پہلی رپورٹ 28؍ اپریل کو پراودا میں چھپ گئی تھی مگر ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں تھا مثلاً جب ری ایکٹر پھٹا تو آگ کو فوری طور پر پانی سے بجھادیا گیا، جس سے صورتحال بدترہوگئی کیونکہ جوہری ذرّات نے فضا میں پھیلنا شروع کردیا۔ دو سو سے زائد میڈیکل ٹیمیں لوگوں پر ہونے والے زہریلے اثرات کے ٹیسٹ کرنے میں مصروف تھیں۔
سب سے سنگین خطرہ یہ تھا کہ جوہری مواد زیر زمین رسنا شروع ہوجائے گا اور پھر وہ دریائے ڈین میں شامل ہوجائے گا۔ اس طرح دریا کے کنارے پر واقع کیو (خیوا) اور دیگر شہروں میں بسنے والے عوام کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لہٰذا ہماری پہلی ترجیح دریا کے کناروں کا تحفظ تھا جس کے لیے ہم نے سب سے پہلے چرنوبل پلانٹ کو بند کردیا اور ملک کے تمام وسائل اس تباہی پر قابو پانے میں لگادیے گئے جن میں کنکریٹ کے ایک ایسے خول کی تیاری بھی شامل تھی جو چوتھے ری ایکٹر کے لیے حفاظتی حصار کا کام دے سکے۔‘‘
چرنوبل کے ایٹمی حادثے نے اس حقیقت کو دوبارہ اجاگر کردیا کہ ایٹمی اسلحے کس قدر تباہ کاری پھیلاسکتے ہیں۔ امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوایٹم بم گرائے تھے اس کے بعد سے دنیا میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ جنگ عظیم دوم میں اتحادی ہونے کے باوجود روس نے امریکا کی ایٹمی طاقت سے خود کو خطرے میں محسوس کیا۔ چنانچہ چار سال بعد 1949میں روس نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا اور اس کے ساتھ ہی دنیاکی ان دو بڑی طاقتوں میں نیو کلیائی اسلحے کی دوڑ کا بھیانک آغاز ہوگیا۔
یکم نومبر 1952 کو امریکا نے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کر کے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ اگلے برس 12؍ اگست 1953 میں روس کا ہائیڈروجن بم بھی تیار تھا۔ 50 کی پوری دہائی ایٹمی دھماکوں کی دہائی تھی۔ روس کے پہلے خلائی سیارے ’’اسپوتنک‘‘ کی کامیابی کے بعد امریکا نے صرف 1958 میں 77 ایٹمی دھماکے کیے جب کہ اسی برس روس نے 18 اور برطانیہ نے 7 ایٹمی دھماکے کیے۔ 1962 میں امریکا کے 94 اور روس کے 72 دھماکوں سمیت مجموعی طور پر 171 ایٹمی دھماکے ہوئے۔
1964 میں چین بھی نیوکلیئر کلب میں شامل ہوگیا۔ 1994 تک نیوکلیئر کلب کے پانچ ممبران مجموعی طور پر 2036 ایٹمی دھماکے کرچکے تھے۔ ان میں امریکا1030، روس 715، فرانس 192 اور چین نے 14 کیے۔ چونکہ 1965 میں سطح زمین پر ایٹمی تجربات کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی ، لہٰذا اب تمام ایٹمی تجربات زیرزمین ہورہے تھے۔
چرنوبل حادثے کے چند سال بعد 1989 میں دو فرانسیسی سائنسدانوں، ہیوبرٹ ریوز اور البرٹ جیکوارڈ کی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کتابوں میں دونوں نے نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان کے مکمل خاتمے اور دنیا کی بربادی کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ جیکوارڈ کا کہنا تھا کہ کسی بھی نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان واقعتا بھاپ بن کر اُڑ جائیں گے، کونوں کھدروں میں بچ رہنے والے جو انسان چند دن یا شاید چند ہفتے زندہ رہ سکیں، ان کے نصیبوں پر رشک کریں گے جو پہلے ہی لمحے میں ختم ہوگئے۔
جیکوارڈ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 80ء کی دہائی کے اختتام پر دنیا میں جو نیوکلیائی اسلحہ تھا، اگر اس کا صرف ایک فیصد بھی کسی جنگ میں استعمال ہوگیا تو زمین پر اس نیوکلیائی سردی کا آغاز ہوجائے گا جس کا خاتمہ شاید ہزاروں برس بعد ہی ممکن ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا ایک بار پھر ’’برفانی دور‘‘ سے دوچار ہوجائے گی۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ